ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم سے حصین نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوظبیان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ کی طرف (مہم پر) بھیجا۔ بیان کیا کہ پھر ہم نے ان لوگوں کو صبح کے وقت جا لیا اور انہیں شکست دے دی۔ راوی نے بیان کیا کہ میں اور قبیلہ انصار کے ایک صاحب قبیلہ جہینہ کے ایک شخص تک پہنچے اور جب ہم نے اسے گھیر لیا تو اس نے کہا «لا إله إلا الله» انصاری صحابی نے تو (یہ سنتے ہی) ہاتھ روک لیا لیکن میں نے اپنے نیزے سے اسے قتل کر دیا۔ راوی نے بیان کیا کہ جب ہم واپس آئے تو اس واقعہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا ”اسامہ! کیا تم نے کلمہ «لا إله إلا الله» کا اقرار کرنے کے بعد اسے قتل کر ڈالا۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے صرف جان بچانے کے لیے اس کا اقرار کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ”تم نے اسے «لا إله إلا الله» کا اقرار کرنے کے بعد قتل کر ڈالا۔“ بیان کیا کہ نبی کریم اس جملہ کو اتنی دفعہ دہراتے رہے کہ میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہو گئی کہ کاش میں اس سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 6872]
من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة فقلت يا رسول الله إنما قالها مخافة السلاح قال أفلا شققت عن قلبه حتى تعلم من أجل ذلك قالها أم لا من لك بلا إله إلا الله يوم القيامة فما زال يقولها حتى وددت أني لم أسلم إلا يومئذ
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6872
حدیث حاشیہ: اسی دن مسلمان ہوا ہوتا کہ اگلے گناہ میرے اوپر نہ رہتے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ دل کا حال اللہ کو معلوم ہے، جب اس نے زبان سے کلمہ توحید پڑھا تو اس کو چھوڑ دینا تھا، مسلمان سمجھنا تھا۔ اس حدیث سے کلمہ توحید پڑھنے والے کا مقام سمجھا جا سکتا ہے۔ کاش ہمارے وہ علمائے کرام و واعظین حضرات جو بات بات پر تیر کفر چلاتے رہتے ہیں اور اپنے مخالف کو فوراً کافر بے ایمان کہہ ڈالتے ہیں کاش اس حدیث پر غور کر سکیں اور اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کر سکیں، لیکن بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6872
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6872
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ جب میں نے اسے قتل کردیا تو میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے خود ہی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کے اقرار کے بعد اسے قتل کر دیا؟“ میں نے عرض کی: اس نے ہتھیار کے خوف سے اقرار کیا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تم نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا کہ اس نے بچاؤ کے لیے اقرار کیا ہے۔ “(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 277(96) مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے، جب اس نے زبان سے کلمۂ توحید پرھ لیا تھا تو اسے چھوڑ دینا چاہیے تھا اور اس کے کلمے کا اعتبار کرنا چاہیے تھا۔ (2) حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے اس شخص کا کافر خیال کرتے ہوئے قتل کیا تھا اور کلمۂ توحید سن کر یہ سمجھا کہ وہ صرف قتل سے بچنے کے لیے کلمۂ توحید کہہ رہا ہے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ اس واقعے کے بعد کسی کو قتل کرنے میں جلدی نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جنگ صفین اور جنگ جمل میں کنارہ کش رہے۔ (فتح الباري: 244/12) ایک روایت میں ہے کہ اس طرح کا ایک واقعہ کسی دوسرے شخص کے ساتھ بھی پیش آیا۔ کچھ وقت کے بعد قاتل بھی فوت ہو گیا جب اسے دفن کیا گیا تو زمین نے اسے قبول نہ کیا۔ دو تین بار دفنانے کے بعد صحابہ نے اسے دو پہاڑوں کے درمیان وادی میں پھینک دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا: ”زمین اس سے بدترین لوگوں کو قبول کر لیتی ہے لیکن اس واقعے سے اللہ تعالیٰ تمھیں لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّھ کی عظمت دکھانا چاہتا ہے۔ “(سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 3930 م)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6872
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2643
´کس بنا پر کفار و مشرکین سے جنگ کی جائے۔` اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حرقات ۱؎ کی طرف ایک سریہ میں بھیجا، تو ان کافروں کو ہمارے آنے کا علم ہو گیا، چنانچہ وہ سب بھاگ کھڑے ہوئے، لیکن ہم نے ایک آدمی کو پکڑ لیا، جب ہم نے اسے گھیرے میں لے لیا تو «لا إله إلا الله» کہنے لگا (اس کے باوجود) ہم نے اسے مارا یہاں تک کہ اسے قتل کر دیا، پھر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن «لا إله إلا الله» کے سامنے تیری مدد کون کرے گا؟“ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اس نے یہ بات تلوار کے ڈر سے کہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2643]
فوائد ومسائل: 1۔ کافر جب بھی توحید ورسالت کا اقرار کرلے مقبول ہے۔ اور اس کی جان ومال کا محفوظ ہونا واجب ہے۔
2۔ احکام شریعت کا اعتبارونفاذ ظاہر پر ہوتاہے۔ دلوں کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔
3۔ حضرت اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عمل ایک اجتہادی خطا تھی۔ اس لئے ان پرکوئی دیت لازم نہ کی گئی۔
4۔ کلمہ گو کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔
5۔ شہادت توحید اللہ کے ہاں باعث نجات ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2643
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 277
حضرت اسامہ بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایک لشکر کے ساتھ بھیجا، ہم صبح صبح جہینہ قبیلہ کی بستی حرقات پہنچ گئے۔ میں نے ایک آدمی پرغلبہ حاصل کیا تو اس نے لاالٰہ الا اللہ کہہ دیا، میں نے (اس کو) کاٹ ڈالا۔ اس کے بارے میں میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا، سو میں نے اس کا تذکرہ نبی کریم ﷺ سے کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تو نے لاالٰہ الااللہ کہنے کے باوجود اسے قتل کردیا؟ میں نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول ﷺ! اس نے اسلحہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:277]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) حُرَقَات: بقول بعض جہینہ کے علاقہ میں ایک بستی کا نام ہے۔ اور بعض کے نزدیک یہ قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ اور خاندان ہے۔ (2) فِتْنَةٌ: آزمائش، امتحان، مقصود ہے دین سے برگشتہ کرنے کی طاقت نہ رہے۔ (3) فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ: جگہ کا نام ہو تو صبح کے وقت پہنچے، اگر خاندان ہو تو صبح صبح حملہ آور ہوئے۔ (4) ذُو الْبُطَيْنِ: باء کے فتحہ کے ساتھ بَطنٌ کی تصغیر، بڑے پیٹ والا، حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا پیٹ بڑھا ہوا تھا۔ فوائد ومسائل: (1) میدان جنگ میں اگر کافر کلمہ پڑھ لے تو وہ مسلمان تصور ہوگا، کیونک ہم ظاہر کے پابند ہیں، کسی کے دل سے آگاہی ہمارے بس میں نہیں ہے، اس لیے یہ کہہ کر کہ اس نے کلمہ جان بچانے کے لیے پڑھا ہے اس کو قتل کرناجائز نہیں ہوگا۔ (2) حضرت اسامہ ؓ نے ایک کافر کو کلمہ پڑھنےکے باوجود قتل کر دیا تھا، لیکن آپ ﷺ نے اس پرقصاص، دین یا کفارہ لازم نہیں ٹھہرایا، صرف غصے کا اظہار کیا، جس کی بنا پر حضرت اسامہ ؓ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں آج مسلمان ہوا ہوتا تاکہ اس جرم کے گناہ معاف ہوجاتے۔ حضرت اسامہ ؓ کے دل میں یہ خواہش ندامت وپشیمانی کا اظہار تھا، یہ مقصد نہ تھا کہ میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔ حضرت اسامہ ؓ چونکہ اس اصول سے آگاہ نہ تھے کہ ہم ظاہر کے پابند ہیں، باطن اللہ کے سپرد ہے، اس لیے انہوں نے ظاہری قرآن سے یہ سمجھا کہ اس نے ڈر کر کلمہ پڑھا ہے، اس لیے اس کا خون بہانا جائز ہے، اس لیے ان کو سزا نہیں دی گئی۔ (3) حضرت سعد ؓ اور اسامہ ؓ، حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی جنگوں میں الگ تھلگ ہوگئے تھے- وہ مسلمانوں کی باہمی جنگوں کوفتنہ برپا کرنے سے تعبیر کرتے تھے، اس لیے شراکت کےلیے آمادہ نہ ہوئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 277
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4269
4269. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حرقہ کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے اس قوم پر صبح کے وقت حملہ کر کے انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ اس دوران میں میں اور ایک انصاری آدمی کفار کے ایک شخص سے ملے۔ جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا اله الا اللہ کہنے لگا۔ انصاری تو فورا رک گیا، لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ جب ہم مدیبہ طیبہ واپس آئے تو نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ”اے اسامہ! تو نے اسے لا اله الا اللہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا؟“ میں نے عرض کی: اس نے تو قتل سے بچنے کے لیے کلمہ پڑھا تھا۔ بہرحال آپ ﷺ اپنی ذات کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی، کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4269]
حدیث حاشیہ: کلمہ پڑھنے کے باوجود اسے قتل کرنا حضرت اسامہ ؓ کاکام تھا جس پر آنحضرت ﷺ کو انتہائی رنج ہوا اور آپ نے بار بار یہ جملہ دہرا کر خفگی کا اظہار فرمایا۔ اسامہ ؓ کے دل میں تمنا پیدا ہوئی کہ کاش میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا اور مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہوتی اور آج جب اسلام لاتا تو میرے پچھلے سارے گناہ معاف ہو چکے ہوتے۔ کیونکہ اسلام کفر کی زندگی کے تمام گناہوں کو معاف کرادیتا ہے۔ اسی لیے کسی کلمہ گو کی تکفیر کرنا وہ بد ترین حرکت ہے۔ جس نے مسلمانوں کی ملی طاقت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا ہے۔ مزید افسوس ان علماءپر ہے جو ذراذرا سی باتوں پر تیر تکفیر چلاتے رہتے ہیں۔ ایسے علماءکو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ کلمہ پڑھنے والوں کو کافر بنابناکر خدا کو کیا منہ دکھلائیں گے۔ ہاں اگر کوئی کلمہ گو افعال کفر کا ارتکاب کرے اور توبہ نہ کرے تو ان افعال کفریہ میں اس کی طرف لفظ کفر کی نسبت کی جاسکتی ہے۔ جو”کفر دون کفر“ کے تحت ہے۔ بہر حال افراط تفریط سے بچنا لازم ہے۔ ''لانکفر أهل القبلة'' جملہ مسالک اہل سنت کا متفقہ اصول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4269
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4269
4269. حضرت اسامہ بن زید ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ نے حرقہ کی طرف روانہ کیا۔ ہم نے اس قوم پر صبح کے وقت حملہ کر کے انہیں شکست سے دوچار کر دیا۔ اس دوران میں میں اور ایک انصاری آدمی کفار کے ایک شخص سے ملے۔ جب ہم نے اس پر غلبہ پا لیا تو وہ لا اله الا اللہ کہنے لگا۔ انصاری تو فورا رک گیا، لیکن میں نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا۔ جب ہم مدیبہ طیبہ واپس آئے تو نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ”اے اسامہ! تو نے اسے لا اله الا اللہ پڑھنے کے بعد قتل کر دیا؟“ میں نے عرض کی: اس نے تو قتل سے بچنے کے لیے کلمہ پڑھا تھا۔ بہرحال آپ ﷺ اپنی ذات کو بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں آرزو پیدا ہوئی، کاش! میں آج سے پہلے مسلمان نہ ہوتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4269]
حدیث حاشیہ: 1۔ بسااوقات انسان ذاتی طور پر اپنے مقاصد پر نظر رکھتا ہے اور جو مفاسد اس سے لازم آتے ہیں، اس کی طرف اس کی نظر نہیں جاتی، اس بنا پرحضرت اسامہ ؓ نے یہ تمنا اس لیے کی تھی کہ وہ اس جرم عظیم سے بری ہوجائیں اور مذکورہ عتاب سے محفوظ رہیں، اس خوف کی بنا پر ہ تمنا تھی، یعنی انھیں ایسے اسلام کی تمناتھی جس میں گناہ نہ ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: ان کی تمنا تھی کہ وہ آج مسلمان ہوتے تاکہ مذکورہ گناہ عظیم اسلام لانے کی وجہ سے معاف ہوجاتا کیونکہ اسلام لانے سے پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، الغرض انھیں یہ گناہ مٹانے کی تمناہوئی عدم اسلام کی تمنا نہیں تھی۔ (فتح الباري: 244/12) حضرت اسامہ ؓ نے اسے درج ذیل آیت کے پیش نظر قتل کیاتھا: ”جب ہمارے عذاب کو دیکھ لیں تو ان کا ایمان لانا انھیں کوئی فائدہ نہیں دے گا۔ “(المؤمن: 85: 40۔ ) رسول اللہ ﷺ نے حضرت اسامہ ؓ کو اس وجہ سے معذور خیال کیا اور ان پردیت وغیرہ واجب نہ کی۔ مؤرخین کے ہاں مشہور ہے کہ اس غزوے میں حضرت غالب بن عبداللہ لیثی ؓ امیر تھے اور اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی تھی: ”جب تمھیں کوئی اسلام کہے تو تم اسے یہ نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔ “(النساء: 94: 4۔ ) اور جس شخص کو حضرت اسامہ ؓ نے قتل کیا تھا اس کا نام مرداس بن نہیک اور وہ بکریوں کا چروایا تھا۔ (فتح الباري: 242/12۔ ) واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4269