اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی (لوگ کھڑے ہوئے تھے) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے (رکوع میں سجدے میں) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: Q687]
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں زائدہ بن قدامہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے خبر دی، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت آپ ہم سے بیان کرتیں، (تو اچھا ہوتا) انہوں نے فرمایا کہ ہاں ضرور سن لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں، یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پھر) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن (دوبارہ) پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بیہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں۔ آخر (بیماری) کے دنوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انہیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبیداللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں وہ آپ کو سناؤں؟ انہوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انہوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتایا جو عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ/حدیث: 687]
هريقوا علي من سبع قرب لم تحلل أوكيتهن لعلي أعهد إلى الناس قالت فأجلسناه في مخضب لحفصة زوج النبي ثم طفقنا نصب عليه من تلك القرب حتى جعل يشير إلينا أن قد فعلتن قالت وخرج إلى الناس فصلى لهم وخطبهم
أصلى الناس قلنا لا هم ينتظرونك قال ضعوا لي ماء في المخضب قالت ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه ثم أفاق فقال أصلى الناس قلنا لا هم ينتظرونك يا رسول الله قال ضعوا لي ماء في المخضب قالت فقعد فاغتسل ثم ذهب لينوء فأغمي عليه ثم أفاق
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 687
حدیث حاشیہ: امام شافعی ؒ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم) ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: هذہ الترجمة قطعة من الحدیث الآتي في الباب و المراد بها أن الائتمام یقتضي متابعة المأموم لإمامه الخ (فتح) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 687
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:687
حدیث حاشیہ: (1) یہ حدیث اس اجمال کی تفصیل ہے جسے امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت پہلے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں نماز پڑھنے لگے۔ یہی ٹکڑا امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق ہے، یعنی امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ (عمدة القاري: 300/4)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام راتب جب بیمار ہوجائے اور جماعت نہ کراسکتا ہوتو اسے چاہیے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کردے، بیٹھ کر نماز پڑھانے سے یہ بہتر ہے, کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور انھیں بیٹھ کر نماز نہیں پڑھائی۔ رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر صرف ایک دفعہ مقتدی صحابہ کو نماز پڑھائی تھی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم کہ معذور امام بیٹھ کر نماز پڑھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بیٹھ کر امامت کے فرائض سر انجام دینا آپ کا خاصہ ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی آدمی بیٹھ کر نماز نہ پڑھائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ پیش کردہ حدیث مرسل ہے جو ائمہ حدیث کے نزدیک قابل حجت نہیں ہوتی۔ (فتح الباري: 227/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 687
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 665
665. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:665]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ (فتح الباری) یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔ گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔ ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔ حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔ خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔ وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔ جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔ یہی حال تمہارا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً (1) ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔ (2) اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔ (3) چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔ (4) کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔ (5) بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ (6) نماز میں بکثرت رونا۔ (7) بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔ (8) نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔ (فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 665
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:665
665. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:665]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر نکلے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ آپ گھر سے مسجد تک ان دو صحابیات کے درمیان آئے ہوں گے اور اس کے بعد مصلی تک حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوں گے۔ اسی طرح کچھ روایات میں حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباری: 2/201) واضح رہے کہ حضرت علی،حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمر میں بڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے،اس لیے انھیں متعدد بار آپ کا دست مبارک پکڑنے کا موقع ملا۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ان کا نام تو صراحت سے لیا اور دیگر سہارا دینے والوں کا نام مبہم رکھا کیونکہ دوسرا آدمی ہر مرتبہ بدلتا رہتا تھا۔ (عمدۃ القاری: 1/268)(2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹتی،خواہ بکثرت ہی کیو ں نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رقت قلبی اور کثرت گریہ سے واقف تھے اس کے باوجود آپ نے انھیں منصب امامت سے سرفراض فرمایا اور رونے سے منع بھی نہیں فرمایا۔ (فتح الباری: 2/203)(3) اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ بلا فصل ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ نماز کے لیے امامت جوکہ امامت صغریٰ ہے، امامت کبریٰ، یعنی خلافت کے اہم وظائف میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے منصب خلافت کی تفویض کا واضح اشارہ دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بادشاہ بوقت وفات اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو تخت پر بٹھا دے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر امامت صغریٰ میں امامت کبریٰ کی طرف واضح اشارہ تھا تو خلافت کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کیون ہوا؟اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر پریشان تھے کہ اس وقت بڑے بڑے معاملات ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔ (حاشیۃ السندی: 1/122) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 665
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4442
4442. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ میرے گھر میں آپ کی تیمارداری کی جائے۔ ازواج مطہرات نے (بخوشی) اجازت دے دی۔ آپ دو مردوں کے سہارے باہر تشریف لائے جبکہ آپ کے قدم زمین پر لکیر کھینچ رہے تھے۔ آپ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان تھے۔ (راوی حدیث) عبیداللہ نے کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے ارشاد کا حضرت عبداللہ (بن عباس ؓ) سے ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: تم جانتے ہو کہ دوسرا شخص کون تھا جس کا ام المومنین نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4442]
حدیث حاشیہ: 1۔ دوران مرض میں رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین سے فرمایا: ”میں تمھارے گھروں میں آنے جانے کی ہمت رکھتا اپنی خوشی سے مجھے اجازت دے دیں۔ “ نیز آپ فرمایا کرتے تھے۔ ”میں کل کہاں ہوں گا؟“ آپ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کی خواہش رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر سے جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو سوموار کا دن تھا۔ 2۔ آپ کو لانے والے کئی حضرات تھے۔ ایک جانب تو حضرت عباس ؓ تھے دوسری جانب کبھی حضرت علی ؓ، حضرت اسامہ ؓ، حضرت ثوبان ؓ اور کبھی حضرت فضل ؓ ہوتے۔ بعض اوقات گھر کے اندر ایک جانب حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ ہوتی تھیں۔ چونکہ دوسری جانب کوئی متعین آدمی نہ تھا اس لیے آپ نے کسی کا نام نہیں لیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عباس ؓ کا نام بزرگی کے طور پر لیا ہو۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزے بہانے کا حکم دیا کیونکہ سات کے عدد میں خصوصیت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ سات کے عدد کو زہر اور جادو کے اثر کو زائل کرنے میں خاص دخل ہے، اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزوں کا پانی منگوایا۔ (فتح الباري: 177/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4442
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5714
5714. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور تکلیف زیادہ ہو گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر گزارنے کے لیے اپنی دوسری مطہرات سے اجازت طلب کی۔ انہوں نے آپ کو اجازت دے دی تو آپ دو اشخاص حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان سہارا لے کر باہر تشریف لائے اس وقت آپ کے قدم مبارک زمین پر گھسٹ رہے تھے (راوی کہتا ہے کہ) میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں مجھے تو معلوم نہیں، انہوں نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: میرے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا جبکہ آپ کی بیماری بڑھ گئی تھی: ”مجھ پر سات مشکیزے پانی ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں، شاید میں لوگوں کو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:5714]
حدیث حاشیہ: (1) یہ عنوان پہلے باب کا تکملہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کا ذکر تھا، جس کی حاضرین کو سزا دی گئی حتی کہ روزے دار کو بھی معاف نہیں کیا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود آپ کے منہ میں دوائی ڈال دی گئی۔ (2) اس عنوان کے تحت اس کے برعکس واقعہ بیان ہوا ہے کہ حاضرین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ پر سات مشکیں پانی بہایا تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اسے کوئی ایسی چیز استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جس سے اس نے روک دیا ہو اور جس چیز کے متعلق وہ حکم دے اس کے بجا لانے میں ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 206/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5714