ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر اور یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ کو عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب (مرض الموت میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چلنا پھرنا دشوار ہو گیا اور آپ کی تکلیف بڑھ گئی تو آپ نے بیماری کے دن میرے گھر میں گزارنے کی اجازت اپنی دوسری بیویوں سے مانگی جب اجازت مل گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو اشخاص عباس رضی اللہ عنہ اور ایک صاحب کے درمیان ان کا سہارا لے کر باہر تشریف لائے، آپ کے مبارک قدم زمین پر گھسٹ رہے تھے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا تمہیں معلوم ہے وہ دوسرے صاحب کون تھے جن کا عائشہ رضی اللہ عنہا نے نام نہیں بتایا، میں نے کہا کہ نہیں کہا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان کے حجرے میں داخل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبکہ آپ کا مرض بڑھ گیا تھا کہ مجھ پر سات مشک ڈالو جو پانی سے لبریز ہوں۔ شاید میں لوگوں کو کچھ نصیحت کر سکوں۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے ایک لگن میں بٹھایا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حفصہ رضی اللہ عنہ کا تھا اور آپ پر حکم کے مطابق مشکوں سے پانی ڈالنے لگے آخر آپ نے ہمیں اشارہ کیا کہ بس ہو چکا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے مجمع میں گئے، انہیں نماز پڑھائی اور انہیں خطاب فرمایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5714]
هريقوا علي من سبع قرب لم تحلل أوكيتهن لعلي أعهد إلى الناس قالت فأجلسناه في مخضب لحفصة زوج النبي ثم طفقنا نصب عليه من تلك القرب حتى جعل يشير إلينا أن قد فعلتن قالت وخرج إلى الناس فصلى لهم وخطبهم
أصلى الناس قلنا لا هم ينتظرونك قال ضعوا لي ماء في المخضب قالت ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه ثم أفاق فقال أصلى الناس قلنا لا هم ينتظرونك يا رسول الله قال ضعوا لي ماء في المخضب قالت فقعد فاغتسل ثم ذهب لينوء فأغمي عليه ثم أفاق
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5714
حدیث حاشیہ: (1) یہ عنوان پہلے باب کا تکملہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک حکم کا ذکر تھا، جس کی حاضرین کو سزا دی گئی حتی کہ روزے دار کو بھی معاف نہیں کیا گیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منع کرنے کے باوجود آپ کے منہ میں دوائی ڈال دی گئی۔ (2) اس عنوان کے تحت اس کے برعکس واقعہ بیان ہوا ہے کہ حاضرین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے آپ پر سات مشکیں پانی بہایا تو آپ نے اس کا انکار نہیں کیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جب مریض کے ہوش و حواس قائم ہوں تو اسے کوئی ایسی چیز استعمال کرنے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جس سے اس نے روک دیا ہو اور جس چیز کے متعلق وہ حکم دے اس کے بجا لانے میں ٹال مٹول نہیں کرنی چاہیے۔ (فتح الباري: 206/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5714
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 665
665. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:665]
حدیث حاشیہ: حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ (فتح الباری) یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔ گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔ ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔ حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔ خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔ وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔ جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔ یہی حال تمہارا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً (1) ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔ (2) اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔ (3) چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔ (4) کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔ (5) بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔ (6) نماز میں بکثرت رونا۔ (7) بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔ (8) نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔ (فتح الباری)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 665
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 687
687. حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے متعلق کچھ بتانا پسند فرمائیں گی؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: کیوں نہیں، سنیے جب نبی ﷺ بیمار تھے تو آپ نے دریافت فرمایا: ”لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟“ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”میرے لیے ایک لگن میں پانی بھر دو۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم نے ایسا ہی کیا، چنانچہ آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بےہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟“ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔“ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا تو بےہوش ہو گئے۔ اس کے بعد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:687]
حدیث حاشیہ: امام شافعی ؒ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ (مولانا وحید الزماں مرحوم) ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں: هذہ الترجمة قطعة من الحدیث الآتي في الباب و المراد بها أن الائتمام یقتضي متابعة المأموم لإمامه الخ (فتح) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 687
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:665
665. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ ؓ کی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ ؓ نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:665]
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر نکلے۔ امام نوی رحمہ اللہ نے تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ آپ گھر سے مسجد تک ان دو صحابیات کے درمیان آئے ہوں گے اور اس کے بعد مصلی تک حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوں گے۔ اسی طرح کچھ روایات میں حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔ امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔ (فتح الباری: 2/201) واضح رہے کہ حضرت علی،حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمر میں بڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے،اس لیے انھیں متعدد بار آپ کا دست مبارک پکڑنے کا موقع ملا۔ غالبا یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ان کا نام تو صراحت سے لیا اور دیگر سہارا دینے والوں کا نام مبہم رکھا کیونکہ دوسرا آدمی ہر مرتبہ بدلتا رہتا تھا۔ (عمدۃ القاری: 1/268)(2) اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹتی،خواہ بکثرت ہی کیو ں نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رقت قلبی اور کثرت گریہ سے واقف تھے اس کے باوجود آپ نے انھیں منصب امامت سے سرفراض فرمایا اور رونے سے منع بھی نہیں فرمایا۔ (فتح الباری: 2/203)(3) اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ بلا فصل ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ نماز کے لیے امامت جوکہ امامت صغریٰ ہے، امامت کبریٰ، یعنی خلافت کے اہم وظائف میں سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے منصب خلافت کی تفویض کا واضح اشارہ دیا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بادشاہ بوقت وفات اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو تخت پر بٹھا دے۔ باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر امامت صغریٰ میں امامت کبریٰ کی طرف واضح اشارہ تھا تو خلافت کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کیون ہوا؟اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر پریشان تھے کہ اس وقت بڑے بڑے معاملات ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔ (حاشیۃ السندی: 1/122) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 665
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:687
687. حضرت عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: آپ مجھے رسول اللہ ﷺ کے مرض وفات کے متعلق کچھ بتانا پسند فرمائیں گی؟ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: کیوں نہیں، سنیے جب نبی ﷺ بیمار تھے تو آپ نے دریافت فرمایا: ”لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟“ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! بلکہ وہ آپ کے منتظر ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”میرے لیے ایک لگن میں پانی بھر دو۔“ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: ہم نے ایسا ہی کیا، چنانچہ آپ نے غسل فرمایا: پھر اٹھنے لگے تو بےہوش ہو گئے۔ جب ہوش آیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا لوگ نماز پڑھ چکے ہیں؟“ ہم نے عرض کیا: نہیں، یا رسول اللہ! وہ تو آپ کے منتظر ہیں۔ آپ نے فرمایا: ”میرے لیے ٹب میں پانی رکھ دو۔“ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ آپ بیٹھ گئے اور غسل فرمایا۔ پھر جب آپ نے کھڑے ہونے کا ارادہ کیا تو بےہوش ہو گئے۔ اس کے بعد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:687]
حدیث حاشیہ: (1) یہ حدیث اس اجمال کی تفصیل ہے جسے امام بخاری ؒ نے ترجمۃ الباب کے تحت پہلے ذکر کیا ہے۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ رسول اللہ ﷺ کی پیروی میں نماز پڑھنے لگے۔ یہی ٹکڑا امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے مطابق ہے، یعنی امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ (عمدة القاري: 300/4)(2) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام راتب جب بیمار ہوجائے اور جماعت نہ کراسکتا ہوتو اسے چاہیے کہ کسی کو اپنا نائب مقرر کردے، بیٹھ کر نماز پڑھانے سے یہ بہتر ہے, کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ کو نماز پڑھانے کے لیے اپنا نائب مقرر فرمایا اور انھیں بیٹھ کر نماز نہیں پڑھائی۔ رسول اللہ ﷺ نے بیٹھ کر صرف ایک دفعہ مقتدی صحابہ کو نماز پڑھائی تھی۔ (3) اس سے یہ بھی معلوم کہ معذور امام بیٹھ کر نماز پڑھا سکتا ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا بیٹھ کر امامت کے فرائض سر انجام دینا آپ کا خاصہ ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا کہ میرے بعد کوئی آدمی بیٹھ کر نماز نہ پڑھائے۔ یہ موقف صحیح نہیں کیونکہ پیش کردہ حدیث مرسل ہے جو ائمہ حدیث کے نزدیک قابل حجت نہیں ہوتی۔ (فتح الباري: 227/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 687
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4442
4442. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت طلب کی کہ میرے گھر میں آپ کی تیمارداری کی جائے۔ ازواج مطہرات نے (بخوشی) اجازت دے دی۔ آپ دو مردوں کے سہارے باہر تشریف لائے جبکہ آپ کے قدم زمین پر لکیر کھینچ رہے تھے۔ آپ حضرت عباس بن عبدالمطلب ؓ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان تھے۔ (راوی حدیث) عبیداللہ نے کہا: میں نے ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کے ارشاد کا حضرت عبداللہ (بن عباس ؓ) سے ذکر کیا تو حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے کہا: تم جانتے ہو کہ دوسرا شخص کون تھا جس کا ام المومنین نے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: وہ حضرت علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ میرے گھر تشریف لائے تو آپ کا مرض شدت اختیار کر گیا۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4442]
حدیث حاشیہ: 1۔ دوران مرض میں رسول اللہ ﷺ نے امہات المومنین سے فرمایا: ”میں تمھارے گھروں میں آنے جانے کی ہمت رکھتا اپنی خوشی سے مجھے اجازت دے دیں۔ “ نیز آپ فرمایا کرتے تھے۔ ”میں کل کہاں ہوں گا؟“ آپ حضرت عائشہ ؓ کے گھر آنے کی خواہش رکھتے تھے۔ چنانچہ حضرت میمونہ ؓ کے گھر سے جب حضرت عائشہ ؓ کے گھر تشریف لائے تو سوموار کا دن تھا۔ 2۔ آپ کو لانے والے کئی حضرات تھے۔ ایک جانب تو حضرت عباس ؓ تھے دوسری جانب کبھی حضرت علی ؓ، حضرت اسامہ ؓ، حضرت ثوبان ؓ اور کبھی حضرت فضل ؓ ہوتے۔ بعض اوقات گھر کے اندر ایک جانب حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ ہوتی تھیں۔ چونکہ دوسری جانب کوئی متعین آدمی نہ تھا اس لیے آپ نے کسی کا نام نہیں لیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت عباس ؓ کا نام بزرگی کے طور پر لیا ہو۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزے بہانے کا حکم دیا کیونکہ سات کے عدد میں خصوصیت ہے چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ سات کے عدد کو زہر اور جادو کے اثر کو زائل کرنے میں خاص دخل ہے، اس کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے سات مشکیزوں کا پانی منگوایا۔ (فتح الباري: 177/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4442