فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 311
´تیمم کی ابتداء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں نکلے، یہاں تک کہ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے، تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے تلاش کرنے کے لیے ٹھہر گئے، آپ کے ساتھ لوگ بھی ٹھہر گئے، نہ وہاں پانی تھا اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا، تو لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے کہنے لگے کہ عائشہ نے جو کیا ہے کیا آپ اسے دیکھ نہیں رہے ہیں؟ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو ایک ایسی جگہ ٹھہرا دیا جہاں پانی نہیں ہے، اور نہ ان کے پاس ہی پانی ہے، چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر سر رکھ کر سوئے ہوئے تھے، تو وہ کہنے لگے: تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور لوگوں کو ایسی جگہ روک دیا جہاں پانی نہیں ہے، نہ ہی ان کے پاس پانی ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے میری سرزنش کی، اور اللہ تعالیٰ نے ان سے جو کہلوانا چاہا انہوں نے کہا، اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگانے لگے، میں صرف اس وجہ سے نہیں ہلی کہ میری ران پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے یہاں تک کہ بغیر پانی کے صبح ہو گئی، پھر اللہ عزوجل نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے آل ابوبکر! یہ آپ کی پہلی ہی برکت نہیں، پھر ہم نے اس اونٹ کو جس پر میں سوار تھی اٹھایا، تو ہمیں ہار اسی کے نیچے ملا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 311]
311۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ ہار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بڑی بہن اسماء سے صرف پہننے کے لیے لیا تھا۔
➋ یہ واقعہ دلیل ہے کہ کوئی شخص عالم الغیب نہیں جب تک اللہ تعالیٰ خبر نہ دے ورنہ ادھر ادھر تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ آج کل یہ کہا جانے لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب تو جانتے تھے مگر تواضعا اور کسر نفسی کے پیش نظر آپ نے باخبر نہیں کیا اور خاموش رہے، یہ نرا اٹکل پچو اور بے دلیل مفروضہ ہے نیز اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر ادھر سے ڈھونڈنا بے مقصد ٹھہرتا ہے اور یہ طریقہ شان رسالت کے یکسر منافی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 311
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 324
´پانی اور مٹی دونوں نہ ملے تو آدمی کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور کچھ اور لوگوں کو بھیجا، یہ لوگ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ڈھونڈ رہے تھے جسے وہ اس جگہ بھول گئیں تھیں جہاں وہ (آرام کرنے کے لیے) اتری تھیں، (اسی اثناء میں) نماز کا وقت ہو گیا، اور یہ لوگ نہ تو باوضو تھے اور نہ ہی انہیں (کہیں) پانی ملا، تو انہوں نے بلا وضو نماز پڑھ لی، پھر ان لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو اللہ عزوجل نے تیمم کی آیت نازل فرمائی، تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے (ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا) اللہ آپ کو اچھا بدلہ دے، اللہ کی قسم! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جسے آپ ناگوار سمجھتی رہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے بہتری رکھ دی۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 324]
324۔ اردو حاشیہ:
➊ امام صاحب کا استدلال یہ ہے کہ صحابہ نے پانی نہ ملنے کی صورت میں بلاوضو نماز پڑھی اور آپ نے انکار نہیں فرمایا۔ اب تیمم کا حکم آنے کے بعد اگر مٹی بھی نہ ملے تو صحابہ کے طرزِ عمل کی روشنی میں وضو اور تیمم کے بغیر نماز پڑھ لیں گے اور یہ مسلک ہے امام شافعی اور امام احمد رحمہ اللہ کا، البتہ امام شافعی رحمہ اللہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور یہی موقف درست ہے۔ اس کے بخلاف امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اس صورت میں نماز نہ پڑھنے کے قائل ہیں۔ جب پانی یا مٹی ملے، پھر نماز پڑھی جائے گی، جبکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے تو پڑھ لی تھی اور نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انہیں برقرار بھی رکھا۔ امام مالک وقت کے بعد ضروری نہیں سمجھتے۔
➋ یہ حدیث پیچھے بھی گزری ہے، مگر اس میں بلاوضو نماز پڑھنے کا ذکر نہیں۔ (دیکھیے، حدیث: 311)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 324
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 816
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی سفر میں نکلے جب ہم مقام بیداء یا ذات الحبیش پر پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا تو رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش کی خاطر ٹھر گئے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم بھی آپ کے ساتھ رک گئے، اس جگہ پانی نہ تھا، اور لوگوں کے پاس بھی (پہلے سے) موجود نہ تھا۔ لوگ ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے، اور کہا، کیا آپ کو پتہ نہیں، عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کیا کیا؟... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:816]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
نقباء:
نقيب کی جمع ہے،
ذمہ دار،
نگران ومحافظ۔
(2)
عقد:
ہار۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 816
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 817
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ اس نے اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے عاریتہً ہار لیا، اور وہ ضائع ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے اپنے کچھ ساتھیوں کو اس کی تلاش کی خاطر بھیجا، انہیں نماز کے وقت نے آ لیا تو انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی، اور جب نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس بات کی شکایت کی، اس پر تیمّم کی آیت اتری تو اسید بن حضیر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، (اے عائشہ!) اللہ آپ کو بہترین اجر دے، اللہ کی قسم... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:817]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہے اگر کسی کو پانی اور مٹی دونوں میسر نہ ہوں تو وہ بلا وضو نماز پڑھ لے اور اس مسئلہ میں آئمہ کا اختلاف ہے۔
1۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور اکثر محدثین کا خیال یہ ہے کہ بلا وضو نماز پڑھ لے،
پھر جب پانی مل جائے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز دوبارہ پڑھنی ہو گی۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
مزنی،
سحنون اور ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں،
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے اور حدیث کا تقاضا بھی یہی ہے کیونکہ آپ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اعادہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔
2۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز پڑھنا ضروری ہے۔
(بقول شوکانی)
پھر امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اعادہ نہیں ہے اور ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اعادہ ضروری ہے لیکن بقول مولانا شبیر احمد عثمانی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز نہیں پڑھے گا اور قضائی بھی نہیں دے گا،
جیسا کہ حائضہ کا حکم ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نماز نہیں پڑھے گا لیکن قضائی ضروری ہے اور صاحبین کے نزدیک نماز نہیں پڑھے گا۔
محض نمازیوں کی مشابہت اختیار کرے گا پھر قضائی ضروری ہو گی۔
3۔
بلا وضو وقت پر نماز پڑھنا مستحب ہے اور بعد میں قضائی لازم بھی ہے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا فَاقِدُ الطہورین اس لیے قراردیا گیا ہے کہ پانی موجود نہیں تھا اور تیمم کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا اس لیے انھوں نے بلا وضو نماز پڑھ لی اور بعد میں آ کرآپ کو بتا دیا۔
(2)
آپ نے اسید بن حضیر کو ہار کی تلاش کے لیے بھیجا ہار نہ ملا تو وہ واپس آ گئے صبح جب کوچ کے لیے اونٹ اٹھایا تو انہیں وہاں سے ہار مل گیا۔
(3)
سفر میں پانی نہ ملے تو تیمم کرنا جائز ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 817
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5164
5164. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار مستعار لیا اور وہ کہیں گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے چند صحا بہ کرام کو اسے تلاش کرنے کے لیے روانہ کیا۔ راستے میں نماز کا وقت ہو گیا تو انہوں نے وضو کے بغیر نماز ادا کی۔ جب نبی ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے شکایت کی۔ اس وقت تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے! اللہ کی قسم! جب آپ پر کوئی مشکل وقت آیا تو اللہ تعالٰی نے اس ے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دیا اور مسلمانوں کے لیے وہ خیر و برکت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5164]
حدیث حاشیہ:
ایسا ہی یہاں ہوا کہ ان کا ہار گم ہو گیا اور مسلمان اسے تلاش کر نے نکلے تو پانی نہ ہونے کی صورت میں نماز کے لئے تیمم کی آیت نازل ہوئی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عنداللہ یہ قبولیت کی دلیل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5164
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4583
4583. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک مرتبہ حضرت اسماء ؓ کا ہار گم ہو گیا تو نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو اسے تلاش کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس دوران میں نماز کا وقت ہو گیا۔ لوگ باوضو نہیں تھے اور نہ انہیں پانی ہی مل سکا، چنانچہ انہوں نے وضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لی۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4583]
حدیث حاشیہ:
تیمم کا معنی قصد کرنا، اصطلا ح میں پانی نہ ہونے پر پاکی حاصل کرنے کے لیے پاک مٹی کا قصد کرنا جس کی تفصیلات مذکور ہوچکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4583
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3672
3672. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات جیش پر پہنچے تومیرا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش کے لیے رسول اللہ ﷺ وہاں ٹھہرے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رُک گئے جبکہ وہاں کوئی پانی(کا چشمہ) نہیں تھا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے پاس پانی تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکرکہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کام کردکھایاہے؟انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیگر لوگوں سمیت ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں نہ پانی کاچشمہ ہے۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے۔ حضرت ابو بکر تشریف لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھے نبیذ فرمارہے تھے۔ انھوں نے آتے ہی فرمایا: تم نے خوامخواہ ہی رسول اللہ ﷺ اور دوسرے لوگوں کو روک رکھاہے جبکہ نہ تو وہ کسی چشمے پر ہیں۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے؟انھوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور جو کچھ اللہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3672]
حدیث حاشیہ:
گم ہونے والا ہار حضرت اسماء ؓ کا تھا، اس لیے حضرت عائشہ ؓ کو اور بھی زیادہ فکر ہوا۔
بعد میں اللہ تعالیٰ نے اسے ملا دیا۔
حضرت اسید بن حضیر ؓ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابوبکر ؓ کی اولاد کی وجہ سے مسلمانوں کو ہمیشہ فوائد وبرکات ملتے رہے ہیں۔
یہ حدیث کتاب التیمم میں بھی مذکور ہوچکی ہے۔
یہاں پر اس کے لانے سے یہ غرض ہے کہ اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ کے خاندان کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
اسید نے کہا:
ماھي بأول برکتکم یا آل أبي بکر۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3672
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4607
4607. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں نہ تو پانی کا کوئی چشمہ تھا اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہی تھا۔ صحابہ کرام ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کی: آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے کیا کر رکھا ہے؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہیں ٹھہرا لیا ہے اور ہمیں بھی ٹھہرنے پر مجبور کر رکھا ہے، حالانکہ یہاں نہ تو پانی کا چشمہ ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر محو استراحت تھے۔ انہوں نے کہا: تم نے رسول اللہ ﷺ اور تمام لوگوں کو یہاں روک رکھا ہے، حالانکہ یہاں کہیں پانی کا چشمہ نہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4607]
حدیث حاشیہ:
حضرت اسید بن حضیر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ تمہاری وجہ سے بہت سی آیات و احکام کا نزول ہوا ہے جیسا کہ یہ آیت تیمم موجود ہے جو تمہاری موجودہ پریشانی کی برکت میں نازل ہوئی، اس سے حضرت عائشہ ؓ کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
تیمم کا راجح طریقہ یہی ہے کہ پاک مٹی پر دونوں ہاتھوں کو مار کر ان کو چہرے اور ہتھیلیوں پر پھیر لیا جائے۔
اس کے لیے ایک ہی دفعہ ہاتھ مار لینا کافی ہے۔
بخاری شریف میں ایسا ہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4607
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:334
334. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے۔ جب ہم بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاش کے لیے قیام فرمایا تو دوسرے لوگ بھی آپ کے ہمراہ ٹھہر گئے، مگر وہاں کہیں پانی نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کیا؟ رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کو ٹھہرا لیا اور یہاں پانی بھی نہیں ملتا اور نہ ان کے پاس پانی ہی ہے۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ آئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ میری ران پر سر رکھے محو استراحت تھے۔ صدیق اکبر ؓ کہنے لگے: تم نے رسول اللہ ﷺ اور سب لوگوں کو یہاں ٹھہرا لیا، حالانکہ یہاں پانی نہیں ہے اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی ہے۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: ابوبکر صدیق ؓ مجھ پر ناراض ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا (برا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:334]
حدیث حاشیہ:
1۔
قرآن کریم میں دو آیات تیمم سے متعلق ہیں:
ایک سورہ نساء آیت 43 اور دوسری سورہ مائدہ آیت نمبر6۔
اس روایت میں آیت تیمم سے کون سی آیت مراد ہے؟ابن عربی فرماتے ہیں کہ یہ عقدہ بہت پیچیدہ ہے جس کا کوئی حل ہمیں نظر نہیں آتا، کیونکہ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل ہو چکی تھی تو پانی نہ ملنے کی صورت میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو پریشان ہونے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر سورہ نساء والی آیت اس سے پہلے نازل نہیں ہوئی تھی تو اس حکم کو سورہ نساء میں دوبارہ نازل کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ جبکہ دونوں کے الفاظ اور سیاق بھی ایک جیسا ہے۔
علامہ ابن بطال نے اس متعلق تردو کا اظہار کیا ہے، جبکہ علامہ قرطبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے، کیونکہ سورہ مائدہ کی آیت کو آیت وضو کہتے ہیں اور سورہ نساء میں چونکہ وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے اس آیت کو آیت تیمم کہا جاتا ہے، لیکن جو بات ان تمام حضرات پر مخفی رہی وہ امام بخاری ؒ كے ليے كسی تردد کے بغیر ظاہر ہو گئی۔
انھوں نے فیصلہ فر مادیا کہ اس موقع پر سورہ مائدہ والی آیت نازل ہوئی ہے،کیوں کہ انھوں نے جو الفاظ نقل کیے ہیں ان میں منہ کا لفظ ہے،یہ لفظ سورہ نساء میں نہیں بلکہ سورہ مائدہ میں ہے۔
پھر امام بخاری سورہ مائدہ کی تفسیر میں جو روایت لائے ہیں۔
اس میں اس آیت تیمم کے آغاز کی صراحت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سورہ مائدہ ہی کی آیت ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 1608)
تنبیہ امام بخاری ؒ نے سورہ نساء میں متعلقہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بھی روایت عائشہ ؓ کو بیان کیا ہے، لیکن اس کا مطلب شان نزول کی وضاحت کرنا نہیں اور نہ یہ اس بات ہی کی دلیل ہے کہ خود امام بخاری بھی اس معاملے میں متردو ہیں۔
جیسا کہ بعض شارحین نے لکھا ہے۔
2۔
مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کے ہار کی گمشدگی دو مرتبہ ہوئی۔
اب یہ بات کہ ایک سفر میں دو بار ہار گم ہوا، بعید از قیاس ہے۔
اس لیے یہ ماننا ہوگا کہ دو مختلف سفروں میں دو مرتبہ ہار گم ہوا ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے ایک مرتبہ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر حضرت عائشہ ؓ کا ہار گم ہوا جو انھوں نے اپنی بہن حضرت اسماء ؓ سے عاریتاً لیا تھا۔
اس مرتبہ انھوں نے خود ہی تلاش کیا اور اس وقت دستیاب ہوا جب لشکر کوچ کر چکا تھا۔
دوسری مرتبہ غزوہ ذات الرقاع میں آپ کا ہار گم ہوا۔
اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا اور دوسرے لوگوں کو تلاش کرنے کے سبب اس میدان میں رکنا پڑا۔
طبرانی کی ایک روایت اس موقف کی مؤید ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
جب میرے ہار گم ہو جانے کا واقعہ پیش آیا اور بہتان لگانے والوں نے جو چاہا کہا۔
پھر اس کے بعد میں دوبارہ کسی غزوے میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ گئی، وہاں پھر میرا ہار گم ہو گیا اور لوگوں کو اس کی تلاش کے لیے رکنا پڑا تو اس موقع پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کہا بیٹی!تو ہرسفر میں لوگوں کے لیے مصیبت کھڑی کر دیتی ہے۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے تیمم کی رخصت نازل فرمائی۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کا ہار دوبارہ گم ہوا اور تیمم کی آیت دوسرے سفر سے متعلق ہے۔
اگرچہ اس روایت کی سند میں محمد بن حمید رازی کی وجہ سے کلام کیا گیا ہے، تاہم تائید و شواہد میں اسے پیش کیا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ دیگر قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ غزوہ ذات الرقاع سے متعلق ہے۔
یہ غزوہ خیبر کے بعد پیش آیا۔
غزوہ خیبر سات ہجری میں ہوا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ جب آیت تیمم نازل ہوئی تو میں نہیں جانتا تھا کہ تیمم کا عمل کیسے کروں؟اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت تیمم کے نزول کے وقت حضرت ابوہریرہ ؓ موجود تھے، کیونکہ آپ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے جبکہ غزوہ بنی مصطلق چھ ہجری میں ہو چکا تھا۔
نیز حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ جو غزوہ خیبر کے موقع پر یمن سے آئے تھے، ان کی غزوہ ذات الرقاع میں شرکت سے بھی اس موقف کی مزید تائید ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 1/564)
3۔
جب لوگوں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے پاس ان کی دختر نیک اختر حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے متعلق شکایت کی کہ ہمیں اس بےآب و گیاہ میدان میں ان کی وجہ سے رکنا پڑا ہے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو اس سے تکلیف ہوئی۔
آپ نے حضرت عائشہ ؓ کو ملامت کرنا شروع کردی کہ تمھاری بے احتیاطی کی وجہ سے لوگوں کو اس لق ودق میدان میں رکنا پڑا اور ان کی نمازیں پانی نہ ملنے کی وجہ سے قضا ہونے والی ہیں۔
آپ نے ہاتھ سے بھی حضرت عائشہ ؓ کو کچو کے لگائے۔
اس انداز سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اجنبی آدمی کسی کو اس کی غلطی پر تنبیہ کر رہا ہو۔
تنبیہ کا یہ انداز شفقت پدری کے خلاف تھا کہ زبان سے بھی ملا مت اور ہاتھ سے بھی طعن۔
اس بنا پر حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا:
ابو بکر ؓ مجھ پر عتاب فرمانے لگے۔
اور آپ نے ان کے لیے ”پدر بزرگوار “ کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے۔
(فتح الباري: 562/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 334
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:336
336. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے ایک ہار حضرت اسماء ؓ سے مستعار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو اس کی تلاش کے لیے روانہ کیا۔ وہ اسے مل گیا لیکن ان لوگوں کو نماز کا وقت ایسی حالت میں آیا کہ ان کے پاس پانی نہیں تھا، چنانچہ انھوں نے (ویسے ہی) نماز ادا کر لی۔ جب انھوں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فر دی۔ حضرت اسید بن حضیر ؓ نے حضرت عائشہ ؓ سے کہا: اللہ تمہیں جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی تم پر کوئی ایسی بات آ پڑی جسے تم ناگوار خیال کرتی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہارے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیروبرکت عطا فر دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:336]
حدیث حاشیہ:
(فاقد الطهورين) (پانی اور مٹی دونوں چیزیں نہ پانے والے)
کے متعلق امام احمد بن حنبل ؒ کا یہ موقف ہے کہ وہ ایسی حالت میں وضو اور تیمم کے بغیر نماز ادا کرلے، اس کی نماز صحیح ہوگی اور اس کے ذمے کوئی قضا وغیرہ نہیں، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ﴾ ”جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔
“ (التغابن: 64۔
16)
نیز قرآن مجید میں ہے:
﴿ لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ﴾ ”اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
“ (البقرة: 2/286)
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
”جب میں تمھیں کسی کام کے متعلق حکم دوں تو حسب استطاعت بجا لاؤاور جب تمھیں کسی چیز سے منع کروں تو وہ چھوڑدو۔
“ (صحیح البخاري، الاعتصام، حدیث: 7288)
گویا تکلیف بقدر طاقت ہے اور ایسا شخص جسے نماز تو ادا کرنی ہے۔
لیکن پانی یا مٹی جس سے طہارت حاصل کر سکے میسر نہیں تو اپنی استطاعت کے مطابق یہی کچھ کر سکتا ہے کہ اسی حالت میں نماز پڑھے اور اللہ سے توبہ و استغفار کرے۔
امام بخاری ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔
کیونکہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے رفقاء جب ہار کی تلاش میں نکلے تو ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں آلہ طہارت (پانی اور مٹی)
موجود نہیں تھا۔
پانی کے متعلق تو حدیث میں وضاحت ہے کہ وہ تھا ہی نہیں اور مٹی اس طرح موجود نہ تھی کہ اس وقت تیمم کا حکم ہی نہ اترا تھا۔
اس بنا پر انھوں نے یوں ہی نماز پڑھ لی، چنانچہ حدیث کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ انھوں نے وضو کے بغیر نماز ادا کی۔
(صحیح البخاري، الفضائل، حدیث: 3773)
استدلال کا مدار اس بات پر ہے کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ اور ان کے ساتھیوں نے نماز وضو کے بغیر پڑھی تھی، اسے برقرار رکھا گیا۔
رسول اللہ ﷺ نے انھیں دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
اگر ایسا ہوتا تو راوی حدیث ضرور اس کا ذکر کرتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ ان حضرات کی وہی بلا طہارت نماز صحیح قراردی گئی، کیونکہ اگر نماز کا اعادہ ضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ضرور بیان کرتے اور ضرورت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ اس نماز کا اعادہ فوراً واجب نہیں تھا۔
اس لیے ضرورت کے وقت بیان مؤخر نہیں ہوا۔
(فتح الباري: 570/1)
لیکن یہ اعتراض اس لیے صحیح نہیں کہ جب نماز کے ادا کرنے کا تقاضا موجود تھا تو اس کا اعادہ بھی فوری طور پر واجب تھا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انھیں اعادے کا حکم نہیں دیا۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ نماز کے متعلق اپنی ذمے داری سے فارغ ہو چکے تھے۔
علامہ خطابی ؒ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے، لیکن انھوں نے اسے بایں طور مشروط کیا ہے کہ جب حالات ساز گارہوں، یعنی پانی یا مٹی میسر ہو تو نماز از سر نو ادا کرنی ہو گی۔
(إعلام الحدیث: 339/1)
لیکن اس کے لیے انھوں نے کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں:
”مولف نے اس کو ظاہر حدیث سے ثابت کیا ہے، اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب لوگوں نے اس تکلیف کا اظہار کیا تو آپ نے انھیں نماز دہرانے کا حکم نہیں دیا، مگر فرق یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے فقدان تراب یعنی مٹی کا نہ ملنا حکمی تھا۔
اس لیے تیمم بھی ان کے لیے مشروع و مقرر نہ کیا گیا۔
اور آج کل اگر ایسی صورت بن جائے تو یہاں فقدان حقیقی ہوگا اور اسے بھی حکمی کے دائرے میں شمار کیا جائے گا، یعنی اس حالت میں ادا کی ہوئی نماز جائز ہو جائے گی۔
اس کا دوبارہ پڑھنا لازم نہیں ہو گا۔
“ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 336
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3672
3672. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات جیش پر پہنچے تومیرا ہار گم ہوگیا۔ اس کی تلاش کے لیے رسول اللہ ﷺ وہاں ٹھہرے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ رُک گئے جبکہ وہاں کوئی پانی(کا چشمہ) نہیں تھا اور نہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین ہی کے پاس پانی تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکرکہنے لگے: آپ نہیں دیکھتے کہ عائشہ ؓ نے کیا کام کردکھایاہے؟انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو دیگر لوگوں سمیت ٹھہرا رکھا ہے۔ یہاں نہ پانی کاچشمہ ہے۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے۔ حضرت ابو بکر تشریف لائے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھے نبیذ فرمارہے تھے۔ انھوں نے آتے ہی فرمایا: تم نے خوامخواہ ہی رسول اللہ ﷺ اور دوسرے لوگوں کو روک رکھاہے جبکہ نہ تو وہ کسی چشمے پر ہیں۔ اور نہ خود ان کے پاس پانی ہے؟انھوں نے مجھے خوب ڈانٹا اور جو کچھ اللہ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3672]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت کے مطابق حضرت اسید بن حضیر ؓ نے فرمایا:
عائشہ ؓ !اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے،جب بھی آپ کسی مصیبت میں مبتلا ہوئیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نجات دی اور باقی مسلمانوں کو اپنی خیروبرکت سے نوازا۔
(صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیه وسلم، حدیث: 3773)
2۔
محولہ روایت میں کہ گم ہونے والا ہار آپ کی ہمشیر حضرت اسماء ؓ کا تھا،اس بناپر حضرت عائشہ ؓ اور بھی فکر مند ہوئیں۔
3۔
اس حدیث سے حضرت ابوبکر ؓ اورآپ کے خاندان کی فضیلت ثابت ہوئی کہ آپ کی اولاد کی وجہ سے بھی مسلمانوں کو ہمیشہ فوائدوبرکات ہی ملتے رہے ہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3672
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3773
3773. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے حضرت اسماءؓ سے ایک بار مستعار لیا جو راستے میں گم ہوگیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کی تلاش میں چند ایک صحابہ کرام ؓ کو روانہ کیا۔ اس دوران میں نماز کا وقت آگیا تو انھوں نے وضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لی، تاہم جب وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو اس امر کی شکایت کی، اس وقت آیت تیمم نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر ؓ نےکہا: اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ ؓ کو جزائے خیردے آپ جب بھی کسی مصیبت میں مبتلا ہوئیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہاں سے نجات دی اور اس میں مسلمانوں کے لیے برکت کا سامان پیدا فرمادیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3773]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے تقریباً گیارہ مسائل کا استنباط کیا ہے جو آپ کی باریک بینی کی واضح دلیل ہے۔
2۔
وہ ہار حضرت اسماء ؓ کا تھا، اس لیے آپ فکر مند زیادہ تھیں تاہم جب اونٹ کو اٹھایا تو وہ اس کے نیچے سے مل گیا۔
3۔
اس حدیث سے حضرت عائشہ ؓ اور آپ کے خانوادے کی فضیلت مقصود ہے کہ ان سے مسلمانوں کو ہمیشہ فوائدوثمرات ہی ملتے آئے ہیں۔
یہ حدیث پہلے(3672)
گزرچکی ہے وہاں قدرے تفصیل ہے، اس کا بنظر غائر مطالعہ کرلیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3773
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4583
4583. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک مرتبہ حضرت اسماء ؓ کا ہار گم ہو گیا تو نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو اسے تلاش کرنے کے لیے روانہ کیا۔ اس دوران میں نماز کا وقت ہو گیا۔ لوگ باوضو نہیں تھے اور نہ انہیں پانی ہی مل سکا، چنانچہ انہوں نے وضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لی۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4583]
حدیث حاشیہ:
قرآن مجید میں آ یت تیمم دو مقامات پر ہے ایک سورۃ النساء میں ہے جس کا آغاز یوں ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى.......﴾ (النساء: 43/4)
دوسری سورۃ المائدہ میں ہے جس کہ ابتدا اس طرح ہوتی ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ...... ﴾ (المائدہ: 5/6)
حدیث میں آیت تیمم سے مراد کون سی آیت ہے امام بخاری ؒ کا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد سورہ مائدہ کی آیت ہے کیونکہ سورہ مائدہ میں آیت تیمم کی تفسیر میں بھی روایت لائے ہیں پھر اس رجحان کی تائید کے لیے ایک دوسری حدیث لائے ہیں جس میں صراحت ہے کہ یہ آیت نازل ہوئی:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ......﴾ حافظ ابن حجر ؒ نے بھی امام بخاری ؒ کے اس رجحان کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 260/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4583
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4607
4607. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ کر کہیں گر گیا۔ رسول اللہ ﷺ اس کی تلاش میں وہاں ٹھہر گئے اور صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ قیام کیا۔ وہاں نہ تو پانی کا کوئی چشمہ تھا اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہی تھا۔ صحابہ کرام ؓ حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آئے اور عرض کی: آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ نے کیا کر رکھا ہے؟ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہیں ٹھہرا لیا ہے اور ہمیں بھی ٹھہرنے پر مجبور کر رکھا ہے، حالانکہ یہاں نہ تو پانی کا چشمہ ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے، چنانچہ حضرت ابوبکر ؓ آئے جبکہ رسول اللہ ﷺ میری ران پر اپنا سر مبارک رکھ کر محو استراحت تھے۔ انہوں نے کہا: تم نے رسول اللہ ﷺ اور تمام لوگوں کو یہاں روک رکھا ہے، حالانکہ یہاں کہیں پانی کا چشمہ نہیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4607]
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلی حدیث میں ہے کہ اس واقعے کے پس منظر میں آیت تیمم نازل ہوئی تیمم کا ذکر دو مقامات پر ہےایک تو سورہ نساء آیت 43۔
میں اور دوسرے سورہ مائدہ آیت: 6۔
میں، اس حدیث میں آیت تیمم سے مراد کون سی آیت ہے؟ علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے کیونکہ سورہ مائدہ والی آیت: 6۔
کو آیت الوضو کہا جاتا ہے جبکہ سورہ النساء کی آیت میں وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ان کے نزدیک آیت تیمم سے مراد سورہ نساء والی آیت ہے لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک اس سے مراد سورہ مائدہ کی آیت ہے کیونکہ دوسری آیت حدیث جو حضرت عمرو بن حارث سے مروی ہے۔
اس میں اس کی صراحت ہے۔
2۔
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اسے ترجیح دی ہے کیونکہ وضو کا حکم تو پہلے سے موجود تھا البتہ پانی کی عدم موجود گی میں کیا کرنا چاہیے وہ اس حکم سے نا واقف تھے اس لیے آیت تیمم سے ان کی مشکل کو حل کیا گیا، پھر اس آیت کا آغاز وضو کے حکم سے کیا گیا ہے تاکہ اس کی فرضیت کو قرآن کا حصہ بنا دیا جائے حالانکہ اس کا حکم نزول آیت سے پہلے موجود تھا۔
3۔
بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت کا آغاز جس میں وضو کا ذکر ہے یہ حصہ بہت پہلے نازل ہو چکا تھا پھر کچھ عرصہ بعد وہ حصہ نازل ہوا جس جس میں تیمم کا ذکر ہےلیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒؒؒ کی ذکر کردہ دوسری حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری آیت ایک ہی دفعہ نازل ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 562/1، 563)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4607
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4608
4608. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ ہم مدینہ واپس آ رہے تھے کہ مقام بیداء پر میرا ہار گم ہو گیا۔ نبی ﷺ نے وہیں اپنی سواری روک دی اور نیچے اتر پڑے۔ پھر اپنا سر مبارک میری گود میں رکھ کر سو گئے۔ اس دوران میں حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور میرے سینے پر زور سے ہاتھ (مکا) مار کر فرمایا کہ ایک ہار کی وجہ سے تم نے لوگوں کو یہاں روک رکھا ہے لیکن میں رسول اللہ ﷺ کے آرام کی وجہ سے بےحس و حرکت بیٹھی رہی جبکہ مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔ جب نبی ﷺ صبح کے وقت بیدار ہوئے تو پانی کی تلاش شروع ہوئی لیکن وہاں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓا۟ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى ٱلصَّلَوٰةِ﴾ حضرت اسید بن حضیر ؓ نے کہا: اے آل ابی بکر! تمہاری وجہ سے اللہ تعالٰی نے لوگوں کو برکت عطا فرمائی ہے۔ یقینا تم لوگوں کے لیے خیر و برکت کا باعث ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4608]
حدیث حاشیہ:
1۔
پہلی حدیث میں ہے کہ اس واقعے کے پس منظر میں آیت تیمم نازل ہوئی تیمم کا ذکر دو مقامات پر ہےایک تو سورہ نساء آیت: 43۔
میں اور دوسرے سورہ مائدہ آیت: 6۔
میں، اس حدیث میں آیت تیمم سے مراد کون سی آیت ہے؟ علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ اس سے مراد سورہ نساء کی آیت ہے کیونکہ سورہ مائدہ والی آیت: 6۔
کو آیت الوضو کہا جاتا ہے جبکہ سورہ النساء کی آیت میں وضو کا ذکر نہیں ہے، اس لیے ان کے نزدیک آیت تیمم سے مراد سورہ نساء والی آیت ہے لیکن امام بخاری ؒ کے نزدیک اس سے مراد سورہ مائدہ کی آیت ہے کیونکہ دوسری آیت حدیث جو حضرت عمرو بن حارث سے مروی ہے۔
اس میں اس کی صراحت ہے۔
2۔
حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ترجیح دی ہے کیونکہ وضو کا حکم تو پہلے سے موجود تھا البتہ پانی کی عدم موجود گی میں کیا کرنا چاہیے وہ اس حکم سے ناواقف تھے اس لیے آیت تیمم سے ان کی مشکل کو حل کیا گیا، پھر اس آیت کا آغاز وضو کے حکم سے کیا گیا ہے تاکہ اس کی فرضیت کو قرآن کا حصہ بنا دیا جائے حالانکہ اس کا حکم نزول آیت سے پہلے موجود تھا۔
3۔
بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ آیت کا آغاز جس میں وضو کا ذکر ہے یہ حصہ بہت پہلے نازل ہو چکا تھا پھر کچھ عرصہ بعد وہ حصہ نازل ہوا جس جس میں تیمم کا ذکر ہے، لیکن یہ توجیہ امام بخاری ؒ کی ذکر کردہ دوسری حدیث کے خلاف ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پوری آیت ایک ہی دفعہ نازل ہوئی تھی۔
(فتح الباري: 562/1، 563)
واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4608
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5164
5164. سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار مستعار لیا اور وہ کہیں گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے چند صحا بہ کرام کو اسے تلاش کرنے کے لیے روانہ کیا۔ راستے میں نماز کا وقت ہو گیا تو انہوں نے وضو کے بغیر نماز ادا کی۔ جب نبی ﷺ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے شکایت کی۔ اس وقت تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خیر دے! اللہ کی قسم! جب آپ پر کوئی مشکل وقت آیا تو اللہ تعالٰی نے اس ے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دیا اور مسلمانوں کے لیے وہ خیر و برکت کا ذریعہ ثابت ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5164]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی ہمشیر سے ہار ادھار لیا تو اگرچہ آپ اس وقت دلھن نہ تھیں، مگر عورت جب اپنے خاوند کے لیے زینت کی خاطر اشیاء ادھار لے سکتی ہے تو دلھن کے لیے تو ایسی چیزیں لینا بالاولیٰ جائز ہوا۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق اس عنوان کے مطابق وہ حدیث ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے کہ میرے پاس ایک چادر تھی جسے ہر عورت زینت کے لیے مجھ سے ادھار لیتی تھی۔
(صحیح البخاري، الھبة، حدیث: 2628) (3)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے (باب الاستعارة للعروس عند البناء)
”شب زفاف کے وقت دلھن کے لیے کوئی چیز ادھار لینا۔
“ (صحیح البخاري، الھبة، باب: 34)
حدیث میں ہار کا ذکر ہے جبکہ عنوان میں کپڑے وغیرہ کے الفاظ ہیں۔
در اصل ہار اور کپڑے دونوں ملبوسات میں سے ہیں جن سے دلھن وغیرہ کو آراستہ کیا جاتا ہے، بنا بریں ایسی چیزیں ادھار لی جا سکتی ہیں۔
والله اعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5164
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5882
5882. ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: کہ سیدہ اسماء ؓ کا ہار گم ہو گیا تو نبی ﷺ نے اس کی تلاش میں چند صحابہ کرام کو روانہ کیا۔ اس دوران میں نماز کا وقت ہو گیا لوگ باوضو نہ تھے اور وہاں پانی بھی دستیاب نہ تھا اس لیے انہوں نے وٖضو کے بغیر ہی نماز پڑھ لی۔ جب انہوں نے نبی ﷺ سے اس (واقعے) کا ذکر کیا تو اللہ تعالٰی نے تیمم کی آیت نازل فرمائی ابن نمیر نے اس حدیث میں ان الفاظ کو بھی ذکر کیا ہے کہ وہ ہار سیدہ عائشہ نے سیدہ اسماء ؓ سے مستعار لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5882]
حدیث حاشیہ:
(1)
حسن اتفاق ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے دو دفعہ ہار ادھار لیا اور دوران سفر میں وہ دو مرتبہ گم ہوا، پھر وہ ہر مرتبہ اونٹ کے نیچے سے ملا:
ایک دفعہ غزوۂ مریسیع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ گئیں اور دوسری دفعہ اس کے بعد کسی سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تصریح کی ہے۔
(فتح الباري: 563/1)
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ وہ ہار جزع اظفار کا تھا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4750)
جزع سے مراد یمنی گھونگے ہیں جو اظفار نامی شہر میں خصوصی طور پر ہاروں کے لیے تیار کیے جاتے تھے۔
(فتح الباري: 564/1) (2)
معلوم ہوا کہ اظہار زینت کے لیے ضروری نہیں کہ زیورات وغیرہ ذاتی ہوں بلکہ کسی سے ادھار لے کر بھی پہنے جا سکتے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5882