مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6356
حدیث حاشیہ:
وتر کے معنی تنہا اکیلا طاق کے ہیں اس کی ضد شفع یعنی جوڑا ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو کبھی ساتھ رکعات کبھی پانچ کبھی تین کبھی ایک رکعت پڑھا ہے۔
حضرت ابو ایوب روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
اَلْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ, مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِخَمْسٍ فَلْيَفْعَلْ, وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِثَلَاثٍ فَلْيَفْعَلْ, وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُوتِرَ بِوَاحِدَةٍ فَلْيَفْعَلْ رواہ أبوداود و النسائي و ابن ماجة یعنی نماز وتر ہر مسلمان کے اوپر حق اور ثابت ہے پس جو چاہے وتر سات رکعات پڑھے جو چاہے پانچ رکعت پرھے جو چاہے تین رکعت پڑھے اورجو چاہے ایک رکعت پڑھے۔
ابن عمر کی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الوِترُ رکعة مِن آخرِ اللیلِ رواہ مسلم یعنی نماز وتر آخری رات میں ہے جو ایک رکعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پانچ رکعت وتر پڑھنے کی صورت میں درمیان میں نہیں بلکہ صرف آخری رکعت میں قعدہ فرماتے تھے (رواہ مسلم)
پس ایک رکعت وتر جائز درست بلکہ سنت نبوی ہے جو لوگ ایک رکعت وتر ادا کریں ان پر اعتراض کرنے والے خود غلطی پر ہیں، یوں تین پانچ سات تک پڑھ سکتے ہیں۔
حدیث اور باب میں مطابقت اس سے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن ثعلبہ کے سر پر ازراہ شفقت و دعا دست شفقت پھیرا تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6356