مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2035
2035. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے تو وہ آپ کی زیارت کے لیے آئیں اور کچھ دیر گفتگو کی۔ پھر اٹھ کر جانےلگیں تو نبی ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے ساتھ ہی اٹھے۔ جب آپ مسجد کے دروازے کےقریب حضرت اُم سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس پہنچے تو انصارکے دو آدمی ادھر سے گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”ٹھہرجاؤ، یہ صفیہ بنت حییی ٍ ہے۔“ ان دونوں نےکہا: سبحان اللہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!(کیا آپ ہم پر بدگمان ہیں؟) اور انھیں یہ چیز بہت شاق گزری تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”شیطان، خون کی طرح انسان کے رگ و ریشے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ معتکف ضروری کام کے لیے مقام اعتکاف سے باہر نکل سکتا ہے۔
آپ ﷺ حضرت صفیہ ؓ کے ساتھ اس لیے نکلے کہ وہ اکیلی رہ گئی تھیں۔
کہتے ہیں کہ ان کا مکان بھی مسجد سے دور تھا، بعض روایتوں میں ان دیکھنے والوں کے متعلق ذکر ہے کہ انہوں نے آگے بڑھ جانا چاہا تھا، آنحضرت ﷺ نے حقیقت حال سے آگاہ فرمانے کے لیے ان کو بلایا۔
معلوم ہوا کہ کسی ممکن شک کو دور کر دینا بہرحال اچھا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2035
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2038
2038. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تھے اور آپ کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں۔ وہ (اپنے اپنے گھروں کو) جانے لگیں تو آ پ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا: ”(جانے میں) جلدی نہ کرنا، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔“ ان کاگھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھا۔ نبی کریم ﷺ ان کے ہمراہ گئے تو آپ کو دو انصاری ملے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا؛ ”ادھر آؤ، یہ صفیہ بت حیی ہے۔“ انھوں نے عرض کیا: سبحان اللہ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ”یقیناً شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2038]
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام ؒ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔
علامہ ابن حجر ؒ اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔
وَفِي الْحَدِيثِ مِنَ الْفَوَائِدِ جَوَازُ اشْتِغَالِ الْمُعْتَكِفِ بِالْأُمُورِ الْمُبَاحَةِ مِنْ تَشْيِيعِ زَائِرِهِ وَالْقِيَامِ مَعَهُ وَالْحَدِيثِ مَعَ غَيْرِهِ وَإِبَاحَةُ خَلْوَةِ الْمُعْتَكِفِ بِالزَّوْجَةِ وَزِيَارَةُ الْمَرْأَةِ لِلْمُعْتَكِفِ وَبَيَانُ شَفَقَتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أُمَّتِهِ وَإِرْشَادُهُمْ إِلَى مَا يَدْفَعُ عَنْهُمُ الْإِثْمَ وَفِيهِ التَّحَرُّزُ مِنَ التَّعَرُّضِ لِسُوءِ الظَّنِّ وَالِاحْتِفَاظُ مِنْ كَيَدِ الشَّيْطَان والاعتذار قَالَ بن دَقِيقِ الْعِيدِ وَهَذَا مُتَأَكِّدٌ فِي حَقِّ الْعُلَمَاءِ وَمَنْ يُقْتَدَى بِهِ فَلَا يَجُوزُ لَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا فِعْلًا يُوجِبُ سُوءَ الظَّنِّ بِهِمْ وَإِنْ كَانَ لَهُمْ فِيهِ مَخْلَصٌ لِأَنَّ ذَلِكَ سَبَبٌ إِلَى إِبْطَالِ الِانْتِفَاعِ بِعِلْمِهِمْ وَمِنْ ثَمَّ قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ يَنْبَغِي لِلْحَاكِمِ أَنْ يُبَيِّنَ لِلْمَحْكُومِ عَلَيْهِ وَجْهَ الْحُكْمِ إِذَا كَانَ خَافِيًا نَفْيًا لِلتُّهْمَةِ وَمِنْ هُنَا يَظْهَرُ خَطَأُ مَنْ يَتَظَاهَرُ بِمَظَاهِرِ السُّوءِ وَيَعْتَذِرُ بِأَنَّهُ يُجَرِّبُ بِذَلِكَ عَلَى نَفْسِهِ وَقَدْ عَظُمَ الْبَلَاءُ بِهَذَا الصِّنْفِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَفِيهِ إِضَافَةُ بُيُوتُ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِنَّ وَفِيهِ جَوَازُ خُرُوجِ الْمَرْأَةِ لَيْلًا وَفِيهِ قَوْلُ سُبْحَانَ اللَّهِ عِنْدَ التَّعَجُّب الخ (فتح الباري)
مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔
اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ ﷺ کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔
ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔
اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔
اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔
ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔
واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2038
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3101
3101. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے بیان کیاکہ وہ رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے آئیں جبکہ آپ رمضان کے آخری عشرے کامسجد میں اعتکاف کیے ہوئے تھے۔ پھر وہ واپس جانے کے لیے اٹھیں تو رسول اللہ ﷺ بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوگئے، یہاں تک کہ مسجد نبوی کے اس دروازے کے پاس پہنچ گئے جو نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت ام سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس ہے تو ان دونوں کے پاس سے انصار کے دو آدمی گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا پھر جلدی سے آگے بڑھنے لگے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”آرام سے چلو۔ (یہ میری بیوی حضرت صفیہ ؓ ہیں)۔“ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! سبحان اللہ۔ اور ان پر یہ شاق گزرا۔ تب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح پھرتا ہے۔ مجھے خطرہ لاحق ہوا کہ مبادا تمہارے والوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3101]
حدیث حاشیہ:
ان اصحاب کرام پر شاق اس لئے گزرا کیونکہ وہ دونوں سچے مومن تھے‘ ان کو یہ رنج ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے ہماری نسبت یہ خیال فرمایا کہ ہم آپ پر بدگمانی کریں گے۔
درحقیقت آپ ﷺ نے ان کا ایمان بچالیا‘ پیغمبروں کی نسبت ایک ذرا سی بد گمانی کرنا بھی کفر اور باعث زوال ایمان ہے‘ اس حدیث سے امام بخاری ؒنے باب کا مطلب یوں نکالا کہ دروازے کو ام المومنین ام سلمہ کا دروازہ کہا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3101
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3281
3281. حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ معتکف تھے تو میں ایک رات آپ سے ملاقات کے لیے آئی اور آپ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر میں اٹھی اور اپنے گھر جانے لگی تو آپ بھی میرے ساتھ اُٹھے تاکہ مجھے گھر چھوڑ آئیں۔ ان کی رہائش اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھی۔ اس دوران میں دو انصاری مرد وہاں سے گزرے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”اپنی جگہ ٹھہر جاؤ۔ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ؓ ہے۔“ انھوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ! سبحان اللہ (ہم ایسا ویسا گمان کرسکتے ہیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا، مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برائی یا اور کوئی چیز ڈال دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3281]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ انسان کو کسی کے لیے ذرا بھی شبہ پیدا کرنے کا موقع نہ دینا چاہئے، آنحضرت ﷺ نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا، اور ان کو غلط وسوسہ سے بچالیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3281
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2035
2035. نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد کے اندر معتکف تھے تو وہ آپ کی زیارت کے لیے آئیں اور کچھ دیر گفتگو کی۔ پھر اٹھ کر جانےلگیں تو نبی ﷺ بھی انھیں پہنچانے کے لیے ساتھ ہی اٹھے۔ جب آپ مسجد کے دروازے کےقریب حضرت اُم سلمہ ؓ کے دروازے کے پاس پہنچے تو انصارکے دو آدمی ادھر سے گزرے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سلام کیا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”ٹھہرجاؤ، یہ صفیہ بنت حییی ٍ ہے۔“ ان دونوں نےکہا: سبحان اللہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ!(کیا آپ ہم پر بدگمان ہیں؟) اور انھیں یہ چیز بہت شاق گزری تو نبی ﷺ نے فرمایا: ”شیطان، خون کی طرح انسان کے رگ و ریشے میں گردش کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ مبادا تمھارے دلوں میں کوئی وسوسہ ڈال دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2035]
حدیث حاشیہ:
(1)
دنیاوی معاملات سے الگ تھلگ ہو کر تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں کچھ وقت مسجد میں قیام کرنے کو شرعاً اعتکاف کہا جاتا ہے۔
اگر مسجد میں قیام کے دوران تقرب الٰہی کی نیت نہیں یا تقرب الٰہی کی نیت تو ہے لیکن مسجد میں قیام نہیں تو ان دونوں صورتوں کو شرعی اعتکاف نہیں کہا جائے گا۔
(2)
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسجد میں قیام کے دوران اپنی کوئی دنیاوی ضرورت پوری کرنا اعتکاف کے منافی ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اسی موضوع کو بیان کیا ہے کہ معتکف اپنی کسی ضرورت کے پیش نظر صرف مسجد کے دروازے تک آ سکتا ہے اور ایسا کرنا اعتکاف کے منافی نہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات کے گھر مسجد نبوی کے آس پاس تھے۔
ایک دفعہ جب آپ معتکف ہوئے تو رات کے وقت گھریلو معاملات کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے ازواج مطہرات آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔
حضرت صفیہ ؓ کا گھر ذرا دور تھا۔
وہ رات کے وقت دیر سے آئیں۔
جب ازواج مطہرات مجلس کے اختتام پر اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے اٹھیں تو حضرت صفیہ بھی تیار ہو گئیں۔
رسول اللہ ﷺ نے انہیں روک لیا، ایک تو دیر سے آنے کی بنا پر تاکہ انہیں بھی دوسری ازواج کی طرح پورا وقت آپ کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملے، نیز اس لیے بھی کہ ان کا گھر دور تھا اور انہیں گھر تک پہنچانے کے لیے آپ نے انہیں روک لیا۔
اس دوران میں دو انصاری حضرات سے ملاقات ہوئی جس کا حدیث میں ذکر ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ تقرب الٰہی کی نیت سے مخصوص ایام میں مسجد کے اندر قیام کرنا اس بات کے منافی نہیں کہ معتکف اس دوران مسجد میں اپنی کوئی دنیاوی ضرورت نہیں پوری کر سکتا۔
ایسا کرنا جائز ہے اور یہ اعتکاف کے منافی نہیں۔
(فتح الباري: 353/4،354)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2035
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2038
2038. نبی کریم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تھے اور آپ کے پاس ازواج مطہرات موجود تھیں۔ وہ (اپنے اپنے گھروں کو) جانے لگیں تو آ پ ﷺ نے حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے فرمایا: ”(جانے میں) جلدی نہ کرنا، میں تمہارے ساتھ جاتا ہوں۔“ ان کاگھر حضرت اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھا۔ نبی کریم ﷺ ان کے ہمراہ گئے تو آپ کو دو انصاری ملے۔ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا اور جلدی سے آگے بڑھ گئے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا؛ ”ادھر آؤ، یہ صفیہ بت حیی ہے۔“ انھوں نے عرض کیا: سبحان اللہ اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: ”یقیناً شیطان، انسان کے جسم میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہواکہ مبادا تمہارے دلوں میں کوئی بدگمانی پیدا کردے۔ “ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2038]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس حدیث سے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے، مثلاً:
معتکف کے لیے جائز ہے کہ وہ آنے والوں کو خندہ پیشانی سے ملے اور انہیں اعزاز و اکرام سے رخصت کرے۔
وہ دوسروں کے ساتھ بات چیت بھی کر سکتا ہے۔
اس کے لیے اپنی بیوی سے خلوت بھی جائز ہے، یعنی تنہائی میں اس سے ضروری اور مناسب بات چیت کر سکتا ہے، نیز اس کی بیوی اس کی ملاقات کے لیے اعتکاف گاہ میں آ سکتی ہے۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت بوقت ضرورت اپنے گھر سے نکل سکتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابۂ کرام ؓ کی طرف اس بات کو منسوب نہیں کیا کہ وہ آپ کے بارے میں بدگمانی میں مبتلا ہیں کیونکہ آپ ان کے ایمان کی سچائی اور اخلاص سے خوب واقف تھے، البتہ انہیں اس بات سے خبردار کیا کہ مبادا شیطان کے وسوسے کا شکار ہو جائیں جو ان کی تباہی و بربادی کا باعث بن جائے۔
(فتح الباري: 355/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2038
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2039
2039. حضرت صفیہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئیں جبکہ آپ اعتکاف کی حالت میں تھے۔ پھر جب وہ واپس جانے لگیں تو آپ بھی ان کے ساتھ چلے۔ اس دوران میں آپ کو ایک انصاری جوان نے دیکھا۔ جب آپ کی نظر اس پر پڑی تو آپ نے اسے بلایا اور فرمایا: ”ادھر آؤ!یہ (میری بیوی) صفیہ ہے۔۔۔ سفیان نے بعض اوقات (ھی صفية کی بجائے) هذه صفية کے الفاظ کہے۔۔۔ (نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں نے یہ وضاحت ضروری سمجھی) کیونکہ شیطان ابن آدم کے رگ وریشے میں خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔“ (علی بن عبداللہ کہتے ہیں) میں نے اپنے شیخ سفیان سے کہا: حضرت صفیہ ؓ آپ کے پاس رات کو آئی تھیں؟تو انھوں نے جواب دیا: رات ہی تو تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2039]
حدیث حاشیہ:
(1)
ہر انسان کو حق ہے کہ وہ قول اور عمل سے اپنا دفاع کرے۔
یہ کام دوران اعتکاف بھی کیا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے دوران اعتکاف میں اپنا دفاع بایں الفاظ کیا:
”جسے تم نے میرے ساتھ رات کے وقت دیکھا ہے وہ میری بیوی صفیہ ہے۔
“ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
”میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم میرے متعلق بدگمانی کا شکار ہو لیکن تمہیں اس حقیقت سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ شیطان، انسان کے رگ و ریشے میں خون کی طرح دوڑ جاتا ہے اور اسے علم بھی نہیں ہوتا۔
“(فتح الباري: 355/4)
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بدگمانی اور شیطانی مکروفریب سے خود کو محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
خاص طور پر علماء حضرات کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے لوگ ان کے متعلق بدگمانی میں مبتلا ہو جائیں اگرچہ اس کام میں مخلص ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم سے فائدہ حاصل کرنا ختم ہو جائے گا۔
کوئی شخص بطور تجربہ بھی ایسا کام نہ کرے۔
اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔
(عمدةالقاري: 282/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2039
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3281
3281. حضرت صفیہ بنت حیی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ معتکف تھے تو میں ایک رات آپ سے ملاقات کے لیے آئی اور آپ سے باتیں کرتی رہی۔ پھر میں اٹھی اور اپنے گھر جانے لگی تو آپ بھی میرے ساتھ اُٹھے تاکہ مجھے گھر چھوڑ آئیں۔ ان کی رہائش اسامہ بن زید ؓ کی حویلی میں تھی۔ اس دوران میں دو انصاری مرد وہاں سے گزرے۔ جب انھوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا تو تیزی سے چلنے لگے۔ تب رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”اپنی جگہ ٹھہر جاؤ۔ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ؓ ہے۔“ انھوں نے عرض کیا اللہ کے رسول ﷺ! سبحان اللہ (ہم ایسا ویسا گمان کرسکتے ہیں؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان انسان کے اندر خون کی طرح دوڑتا رہتا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا، مبادا تمہارے دلوں میں کوئی برائی یا اور کوئی چیز ڈال دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3281]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ اپنی امت پر بہت مہربانی اور شفقت کرتے تھے اس لیے آپ نے وضاحت کردی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان ان کے دلوں میں کوئی ایسی ویسی بات ڈال دے جو ان کی ہلاکت کا باعث ہو۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو کسی بھی ایسی حالت سے بچنا چاہیے کس سے شبہات پیدا ہوں اور اگر بظاہرایسا موقع بن جائے تو اس کی وضاحت کر دینی چاہیے رسول اللہ ﷺ نے یہی سوچ کر ان کے سامنے اصل معاملہ رکھ دیا اور انھیں غلط وسوسے سے بچا لیا۔
3۔
انسان کے جسم میں شیطان کا گردش کرنا حقیقت پر محمول ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اسے انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرنے کی قوت دی ہے تاہم کچھ علماء کا خیال ہے کہ وہ کثرت وسوس کی بنا پر انسان کےساتھ لگا رہتاہے اور اس سے علیحدہ نہیں ہوتا۔
4۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ہمیں متنبہ کیا ہے کہ شیطانی وسوسہ اندازی سے ہمیں چوکس رہنا چاہیے وہ بڑے خفیہ اور لطیف انداز سے لوگوں کو گمراہ کرتا ہےاس کی خفیہ سازش کو قرآن کریم نے آخری سورت میں بیان کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3281
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7171
7171. سیدنا علی بن حسین سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے پاس سیدنا صفیہ بنت حییی ؓ آئیں۔ جب وہ وآپس جانے لگیں تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ چلے۔ اس وقت دو انصاری آپ کے پاس سے گزرے تو آپ نے انہیں بلا کر فرمایا: ”یہ صفیہ ہیں“ انہوں نے کہا: سبحان اللہ! (ہمیں بد گمانی کیسے ہوسکتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا: ”شیطان انسان کے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون گردش کرتا ہے۔“ اس حدیث کو شعیب، ابن مسافر، ابن ابی عتیق اور اسحاق بن یحیٰی نے امام زہری سے، انہوں نے علی بن حسین سے، انہوں نے سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اور انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7171]
حدیث حاشیہ:
1۔
حدیث سابق کے تحت بدگمانی سے بچنے کےضمن میں حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے واقعے کا حوالہ دیا گیا تھا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ مستقل طور پر مستند طریقے سے بیان کیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری حضرات کے متعلق یہ اندیشہ محسوس کیا کہ شاید یہ کسی بدگمانی میں مبتلا ہوجائیں اور ان کے دلوں میں کوئی غلط بات بیٹھ جائے جس کی وجہ سے ان کی آخرت تباہ ہو جائے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلدی سے وضاحت کر دی کہ یہ عورت کوئی اجنبی نہیں بلکہ میری بیوی صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہے۔
جب انھوں نےاظہار تعجب کیا کہ یہ ہم آپ کے متعلق بدگمانی کیسے کر سکتے تھے توآپ نے فرمایا:
شیطان انسان کے رگ وریشے میں سرایت کیے ہوئے ہے، اس سے ایسا وسوسہ دینا بعید نہیں۔
2۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ تہمت کادورکرنا انتہائی ضروری ہے۔
جب حاکم کا اپنے علم کی بنیاد پر فیصلہ کرنا بدگمانی کو دعوت دیتا ہے تو اسے دور کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ محض اپنے علم کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کرنے سے گریز کیا جائے بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ثبوت اور شہادتیں طلب کی جائیں۔
(فتح الباري: 201/13)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7171