ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہوں نے حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گواہ بنا کر کہہ رہے تھے کہ اے ابوہریرہ! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے حسان! اللہ کے رسول کی طرف سے مشرکوں کو جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6152]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6152
حدیث حاشیہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6152
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6152
حدیث حاشیہ: (1) ایک روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے کہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں شعر پڑھ رہے تھے کہ وہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا گزر ہوا تو انہوں نے گویا ناگواری کا اظہار فرمایا۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تو اس ہستی کی موجودگی میں شعر پڑھا کرتا تھا جو آپ سے بہتر تھے۔ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی۔ پھر حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو کر ان سے اس بارے میں شہادت طلب کی۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3212)(2) رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا تھا: ”اشعار کے ذریعے سے مشرکین کی مذمت، تیروں کی بارش سے زیادہ کاٹ کرتی ہے۔ “(جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2847) اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو شعراء تھے وہ شعر گوئی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6152
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 198
´مسجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے` «. . . وعنه ان عمر رضي الله عنه مر بحسان ينشد في المسجد، فلحظ إليه، فقال: قد كنت انشد فيه، وفيه من هو خير منك . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی یہ حدیث بھی مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا گزر سیدنا حسان رضی اللہ عنہ کے پاس سے ہوا، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف گھور کر دیکھا (اس پر) سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے کہا (گھورتے کیوں ہیں؟) میں تو اس وقت مسجد میں شعر پڑھا کرتا تھا جب مسجد میں وہ ذات گرامی موجود ہوتی تھی جو آپ سے افضل تھی . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 198]
لغوی تشریح: «يُنْشِدُ» «إِنْشَاد» سے ماخوذ ہے۔ ”یاء“ پر ضمہ اور ”شین“ کے نیچے کسرہ ہے۔ اشعار پڑھنا۔ «فَلَحَظَ إِلَيْهِ» ناپسندیدہ نگاہوں سے دیکھنا، یعنی گھور کر۔ «فَقَالَ» سے مراد سیدنا حسان رضی اللہ عنہ ہیں۔ «وَفِيْهِ» اس میں ”واؤ“ حالیہ ہے یعنی اس حالت میں کہ وہ مسجد میں تھے۔ «مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ» اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مراد ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ اس حدیث کی رو سے مسجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے مگر ایسے اشعار نہ ہوں جو توحید و رسالت کے خلاف ہوں، جن سے شرک و بدعت کی بو آتی ہو یا مذموم اور برے ہوں یا نمازیوں کے لیے خلل اور حرج کا باعث ہوں کہ نماز سے ان کی توجہ منتشر کر دیں۔ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھتے تھے جن میں کفار کی ہجو ہوتی تھی۔ آپ سن کر فرماتے تھے: ”روح القدس تیری مدد فرمائے۔“[صحيح بخاري، الصلاة، باب الشعر فى المسجد، حديث: 453]
وضاحت: (سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ) انصار کے قبیلہ خزرج میں سے تھے۔ شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے مشہور تھے۔ ابوعبیدہ کا قول ہے کہ عرب متفق ہیں کہ شہری شعراء میں سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سب سے بڑے شاعر تھے۔ 40 ہجری سے قبل سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ بعض کے نزدیک 50 ہجری میں فوت ہوئے۔ وفات کے وقت ان کی عمر ایک سو بیس سال تھی۔ ساٹھ سال دور جاہلیت میں گزارے اور ساٹھ سال حالت اسلام میں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 198
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 453
´مسجد میں اشعار پڑھنا ثابت ہے` «. . . أَنَّهُ سَمِعَ حَسَّانَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ يَسْتَشْهِدُ أَبَا هُرَيْرَةَ،" أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: يَا حَسَّانُ أَجِبْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ أَيِّدْهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ؟ قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: نَعَمْ . . .» ”. . . حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے (مشرکوں کو اشعار میں) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 453]
فوائد و مسائل: باب اور حدیث میں مناسبت: باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے مسجد میں اشعار پڑھنا ثابت فرمایا ہے مگر دلیل کے طور پر جو حدیث ذیل میں پیش کی ہے اس میں مسجد کا ذکر موجود نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ ابن بطال فرماتے ہیں: «ليس فى حديث الباب أن حسان أنشد شعرا فى المسجد بحضرة النبى - صلى الله عليه وسلم - لكن رواية البخاري فى بدء الخلق من طريق سعيد تدل على أن قوله - صلى الله عليه وسلم - لحسان ”أجب عني“ كان فى المسجد»[فتح الباري ج1، ص 721] ”اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ سیدنا حسان رضی اللہ عنہ نے مسجد میں شعر پڑھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لیکن ایک اور روایت جو کہ صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں بطریق سعید سے منقول ہے کہ جس میں یہ واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ حسان جواب دو میری طرف سے اور وہ اس وقت مسجد میں تھے۔“
◈ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «مراد البخاري الاشارة إلى جواز الشعر المقبول فى المسجد»[عمدة القاري، ج3، ص487] امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد مسجد میں مقبول شعر کے جواز کی طرف اشارہ ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ ضرورت کے وقت مسجد میں اچھے شعر پڑھنا جائز ہے۔ کیونکہ بلاوجہ مسجد میں اشعار کہنے کی ممانعت بھی موجود ہے۔
◈ صاحب او جزا المسالک رقمطراز ہیں: «وقد ورد النهي عنه فى عدة أحاديث كما فى رواية ابي داؤد والترمذي، ولعل الغرض انه جائز عند الضرورة»[الابواب والتراجم لصحيح البخاري، ج2، ص753] یقیناًً «نهي» پر کئی احادیث وارد ہیں جس کو ابوداؤد اور ترمذی نے روایت فرمایا ہے۔ شاید امام بخاری رحمہ اللہ کی (اس حدیث سے) غرض یہ ہو کہ ضرورت کے وقت اشعار کہنا جائز ہے۔
◈ بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ (المتوفی 733ھ) فرماتے ہیں: ابوسلمہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ وہ مسجد میں (اشعار پڑھ رہے) تھے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے روایت کیا ہے ایک اور طریق سے جس میں صراحت ہے کہ وہ مسجد میں تھے۔ پس امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ پر اکتفا فرمایا۔۔۔ اور احتمال یہ ہے کہ آپ نے ارادہ کیا ہے کہ اشعار حق پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کلام حق کے ساتھ جو حق کی دلیل کے ساتھ ہو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان رضی اللہ عنہ کو دعا دی ان اشعار پر۔ پس دلالت ہے اس پر کہ اگر (اشعار) حق پر ہیں تو اسے ادا کرنا جائز ہو گا۔ [مناسبات تراجم البخاري۔ ص4846] پس یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ: امام ابن خذیمہ رحمہ اللہ اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے: «نهيٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم عن تناشد اشعار فى المسجد»[صحيح ابن خذيمة رقم الحديث 1304] ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اشعار کہنے کو منع فرمایا ہے۔“[قال شيخ الالباني رحمه الله أسناده حسن][أخرجه الترمذي رقم الحديث 322][والبغوي فى شرح السنة 485] مذکورہ حدیث نے مسجد میں اشعار کہنے سے منع فرمایا ہے اور اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض جہلاء نے بھی مطلق اشعار سے روکا ہے (میرا اشارہ منکرین حدیث کی طرف ہے) لیکن جب غور کیا جاتا ہے تو روکنے کا حکم کسی چیز کے ساتھ مقید ہے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «فالجمع بينهما وبين حديث الباب أن يحمل النهي على تناشد اشعار الجاهلية و المبطلين .»[فتح الباري، ج1، ص722] نھی اور اجازت والی حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ جو حدیث نھی پر دلالت کرتی ہے اس کا تعلق ان اشعار کے ساتھ ہے جو جہالت اور مبطلین کے ساتھ خاص ہوتی (اور اجازت ان کے لیے ہے جن کے اشعار اسلام کے تائید میں ہوں اور صحیح اشعار ہوں)۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 717
´مسجد میں اچھے اشعار پڑھنے کی رخصت کا بیان۔` سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ مسجد میں اشعار پڑھ رہے تھے، تو عمران رضی اللہ عنہ کی طرف گھورنے لگے، تو انہوں نے کہا: میں نے (مسجد میں) شعر پڑھا ہے، اور اس میں ایسی ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے بہتر تھی، پھر وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے، اور پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (مجھ سے) یہ کہتے نہیں سنا کہ ”تم میری طرف سے (کافروں کو) جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید فرما!“، تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا! ہاں (سنا ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 717]
717 ۔ اردو حاشیہ: اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کی تائید و حمایت اور دیگر اسی قسم کی باتوں کے لیے مساجد میں اشعار پڑھنا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 717
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3212
3212. حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ ایک دفعہ مسجد میں سے گزرے تو حضرت حسان بن ثابت ؓ اشعار پڑھ رہے تھے۔ (انھوں نے مسجد میں شعر پڑھنے پر اظہار ناپسندیدگی فرمایاتو)حسان ؓ نے کہا: میں تو اس وقت یہاں شعر پڑھا کرتا تھا جب آپ سے بہتر ستودہ صفات یہاں تشریف رکھتے تھے۔ پھر وہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم سے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”اے حسان ؓ!میری طرف سے کفار مکہ کو جواب دو۔ اے اللہ! روح القدس کے ذریعے سے اس کی مدد فرما۔“ ابوہریرۃ ؓنے جواب دیاہاں (بلاشبہ میں نے سنا تھا)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3212]
حدیث حاشیہ: اس سے حمد و نعت کے اشعار پڑھنے اور کہنے کا جواز ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3212
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:453
453. حضرت حسان بن ثابت ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے گواہی طلب کر رہے تھے: تمہیں اللہ کی قسم! بتاؤ کیاتم نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ”اے حسان! رسول اللہ ﷺ کی طرف کافروں کو جواب دو۔ اے اللہ! تو حسان کی روح القدس سے تائیدفرما؟“ حضرت ابوہریرہ ؓ نے جواب دیا:ہاں، میں نے سنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:453]
حدیث حاشیہ: 1۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجدوں میں شعر پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 322) اس کی سند صحیح ہے۔ اس حکم امتناعی پر دیگر احادیث بی مشتمل ہیں۔ لیکن ان کی صحت کے متعلق محدثین نے کلام کیا ہے، تاہم اس قسم کی متعارض احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ مسجد میں ایسے اشعار پڑھنے منع ہیں جواسلام اوراہل اسلام کے خلاف ہوں یا دور جاہلیت کی یادگار، عشقیہ مضامین اور فحش گوئی پر مشتمل ہوں۔ البتہ ایسے اشعار پڑھنے کی اجازت ہے جو درج بالا عیوب سے پاک ہوں اور ان میں اسلام کی خوبیوں یا ان میں مخالفین اسلام کے حملوں کا جواب دیاگیا ہو۔ بعض حضرات نے یہ توجیہ کی ہے کہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ مسجد کوغزل خانہ بنادیا جائے یا تمام اہل مسجد شعر گوئی میں مصروف ہوجائیں۔ (فتح الباري: 710/1) بہرحال امام بخاری ؒ جمہور کی تائید کرتے ہوئے تفصیل کے قائل ہیں، کیونکہ اشعارکلام کا حصہ ہیں۔ جس طرح کلام اچھا بُرا ہوتا ہے اسی طرح اشعار بھی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ بُرے اشعار کا مسجد کے باہر پڑھنا بھی درست نہیں، ایسے اشعار کومسجد میں پڑھنا ان کی قباحت میں مزید اضافے کا باعث ہے، البتہ اچھے اشعار جو اسلامی مضامین پر مشتمل ہوں، مسجد کے باہر اور اندر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ 2۔ مذکورہ حدیث میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے کہ حضرت حسان ؓ مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے سامنے اشعار پڑھتے تھے، لیکن صحیح بخاری میں ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان ؓ کو فرمایا تھا: ”اے حسان!میری طرف سے ان مشرکین کو جواب دو۔ “(صحیح البخاری، الأدب، حدیث: 6152) چنانچہ حضرت حسان ؓ نے مسجد میں ہی مشرکین کے ہجویہ کلام کا جواب دیاتھا۔ امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ عنوان قائم کرتے وقت روایت کے دوسرے طرق کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ حضرت حسان کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے شہادت لینے کی اس لیے ضرورت پڑی کہ ایک دن حضرت حسان ؓ مسجد نبوی میں اشعار پڑھ رہے تھے، حضرت عمر ؓ کا وہاں سے گزرہوا تو انھوں نےآپ کو گھور کردیکھا اورناگواری کا اظہار فرمایا۔ حضرت حسان ؓ نےفوراً کہا کہ میں تو مسجد نبوی میں آپ سے زیادہ مرتنےوالی شخصیت کی موجودگی میں شعر پڑھا کرتا تھا۔ پھر آپ نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی طرف التفات کرکے ان سے شہادت طلب کی۔ (صحیح البخاري، بدء الخلق، حدیث: 3212) حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت حسان ؓ کے لیے مسجد نبوی میں خود منبر رکھتے جس پر کھڑے ہوکر وہ مشرکین کی ہجو کرتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2846) ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے سامنے مندرجہ ذیل ارشاد نبوی ہو: ”تم میں سے کس کے پیٹ میں پیپ بھری ہوتو(یہ) اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے پیٹ میں اشعار بھرے ہوں۔ “(صحیح البخاری الادب حدیث 6154۔ ) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بڑا محتاط عنوان قائم کیا ہے: ‘”مکروہ ہے کہ انسان کی طبیعت پر اشعار کا اس حد تک غلبہ ہوکر وہ اللہ کے ذکر، حصول علم اور تلاوت قرآن سے بھی غافل رہے۔ “
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 453