الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: اخلاق کے بیان میں
82. بَابُ الْمُدَارَاةِ مَعَ النَّاسِ:
82. باب: لوگوں کے ساتھ خاطر تواضع سے پیش آنا۔
حدیث نمبر: Q6131
وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ إِنَّا لَنَكْشِرُ فِي وُجُوهِ أَقْوَامٍ وَإِنَّ قُلُوبَنَا لَتَلْعَنُهُمْ
اور ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی جاتی ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے سامنے ہم ہنستے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں مگر ہمارے دل ان پر لعنت کرتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: Q6131]
حدیث نمبر: 6131
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ عَائِشَةَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَقَالَ:" ائْذَنُوا لَهُ، فَبِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ أَوْ بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ"، فَلَمَّا دَخَلَ أَلَانَ لَهُ الْكَلَامَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قُلْتَ مَا قُلْتَ ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ فِي الْقَوْلِ، فَقَالَ:" أَيْ عَائِشَةُ إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ تَرَكَهُ أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے ابن المنکدر نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اندر بلا لو، یہ اپنی قوم کا بہت ہی برا آدمی ہے۔ جب وہ شخص اندر آ گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ابھی اس کے متعلق کیا فرمایا تھا اور پھر اتنی نرمی کے ساتھ گفتگو فرمائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ اللہ کے نزدیک مرتبہ کے اعتبار سے وہ شخص سب سے برا ہے جسے لوگ اس کی بدخلقی کی وجہ سے چھوڑ دیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6131]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة من تركه الناس اتقاء شره
   صحيح البخاريشر الناس من تركه الناس أو ودعه الناس اتقاء فحشه
   صحيح البخاريشر الناس منزلة عند الله من تركه أو ودعه الناس اتقاء فحشه
   صحيح مسلمشر الناس منزلة عند الله يوم القيامة من ودعه الناس اتقاء فحشه
   جامع الترمذيشر الناس من تركه الناس اتقاء فحشه
   سنن أبي داودشر الناس عند الله منزلة يوم القيامة من ودعه الناس لاتقاء فحشه

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 6131 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6131  
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ منافق انسان ہے۔
میں اس کے نفاق کی وجہ سے روا داری سے کام لیتا ہوں تاکہ وہ میرے خلاف پروپیگنڈا کر کے دوسروں کو خراب نہ کرے۔
(مسند الحارث، حدیث: 800، والمطالب العالیة: 66/3، حدیث: 2806)
واقعی وہ ایسا ہی تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وہ مرتد ہو گیا تھا۔
(عمدة القاري: 266/15) (2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے متعلق جو فرمایا وہ مسلمانوں کے اعتبار سے تھا کہ مسلمانوں میں ایسا شخص اچھا نہیں جس کی فحش کلامی سے بچنے کے لیے اسے چھوڑ دیا جائے ورنہ کافر اللہ تعالیٰ کے نزدیک بدترین مقام والا ہے۔
(3)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص علانیہ طور پر فسق و فجور میں مبتلا ہو اس کی غیبت کرنے میں کوئی حرج نہیں تاکہ لوگ اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرنے سے پرہیز کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6131   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1996  
´حسن معاملہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت میں آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: یہ قوم کا برا بیٹا ہے، یا قوم کا بھائی برا ہے، پھر آپ نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگو کی، جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کو برا کہا تھا، پھر آپ نے اس سے نرم گفتگو کی ۱؎، آپ نے فرمایا: عائشہ! لوگوں میں سب سے برا وہ ہے جس کی بد زبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑ دیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1996]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کے برا ہوتے ہوئے بھی اس کے مہمان ہونے پر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا،
یہی باب سے مطابقت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1996   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6032  
6032. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا: یہ شخص قبیلے کا برا آدمی اور برا بیٹا ہے۔ پھر جب وہ بیٹھ گیا تو نبی ﷺ اسے خندہ پیشانی اور کشادہ چہرہ سے ملے۔ جب وہ چلا گیا تو سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! جب آپ نے اسے دیکھا تو آپ نے اس کے متعلق ایسا ایسا فرمایا اور جب آپ اس سے ملے تو نہایت خندہ پیشانی اور کھلے چہرے سے پیش آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے مجھے بد گو کب دیکھا ہے؟ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سب لوگوں سے بد ترین وہ آدمی ہوگا جس کے شر اور برائی سے بچنے کے لیے لوگ اس سے میل ملاقات چھوڑیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6032]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی کا ذکر ہے جس کا تعلق نہ صرف مسلمانوں بلکہ یہودیوں کے ساتھ بھی یکساں تھا۔
آپ نے خاص دشمنوں کے ساتھ بھی بدخلقی کو پسند نہیں فرمایا جیسا کہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ سے ظاہر ہے۔
یہی آپ کا ہتھیار تھا جس سے سارے عرب آپ کے زیر نگیں ہو گیا۔
مگر صد افسوس کہ مسلمانوں نے گویا خوش خلقی کو بالکل فراموش کر دیا إلا ماشاءاللہ۔
یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں میں خود آپس ہی میں اس قدر سر پھٹول رہتی ہے کہ خدا کی پناہ، کاش مسلمان ان احادیث پاک کا بغور مطالعہ کریں، یہ آنے والا شخص بعد میں مرتد ہو گیا تھا اور حضرت ابو بکر کے زمانہ میں قیدی ہو کر آیا تھا۔
اس طرح اس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6032   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6054  
6054. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: اسے اندر آنے کی اجازت دے دو، یہ قبیلے کا برا بھائی یا برا بیٹا ہے جب وہ اندر آیا تو آپ ﷺ نے اس کے ساتھ بڑے اخلاق اور نرمی سے گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اس کے متعلق پہلے یہ فرمایا تھا پھر اس کے ساتھ بہت نرم گفتگو فرمائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک بد ترین آدمی وہ ہے جسے لوگ اس کی بد کلامی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6054]
حدیث حاشیہ:
یہ حقیقت تھی کہ وہ برا آدمی ہے مگر میں تو برا نہیں ہوں مجھے تو اپنے نیک عادت کے مطابق ہر برے بھلے آدمی کے ساتھ نیک خو، ہی برتنی ہوگی۔
صدق رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6054   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6032  
6032. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ جب آپ نے اسے دیکھا تو فرمایا: یہ شخص قبیلے کا برا آدمی اور برا بیٹا ہے۔ پھر جب وہ بیٹھ گیا تو نبی ﷺ اسے خندہ پیشانی اور کشادہ چہرہ سے ملے۔ جب وہ چلا گیا تو سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! جب آپ نے اسے دیکھا تو آپ نے اس کے متعلق ایسا ایسا فرمایا اور جب آپ اس سے ملے تو نہایت خندہ پیشانی اور کھلے چہرے سے پیش آئے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! تم نے مجھے بد گو کب دیکھا ہے؟ قیامت کے دن اللہ کے ہاں سب لوگوں سے بد ترین وہ آدمی ہوگا جس کے شر اور برائی سے بچنے کے لیے لوگ اس سے میل ملاقات چھوڑیں گے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6032]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص سے فحش گوئی اور بدکلامی کا خطرہ ہو اس سے حسن خلق، خندہ پیشانی اور کشادہ چہرے سے ملنا چاہیے تاکہ اس کی بے ہودگی سے محفوظ رہا جاسکے اور جو شخص علانیہ فاسق ہو، اس کے فسق کی وجہ سے اس کی غیبت جائز ہے، تاکہ لوگ اس کے فحش میں گرفتار نہ ہو۔
(2)
ان تمام احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی کا ذکر ہے۔
آپ کے اخلاق کریمانہ کا تعلق صرف مسلمانوں ہی کے ساتھ نہیں بلکہ یہودیوں کے ساتھ بھی یکساں تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں سے بھی بداخلاقی سے پیش نہیں آئے۔
آپ کے پاس یہی ایک ہتھیار تھا جس سے آپ نے تمام عرب کو زیر نگین کیا، لیکن آج مسلمانوں نے اس ہتھیار کو بالائے طلاق رکھ دیا ہے اور بداخلاقی کا مرض ان میں سرایت کرچکا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے، آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6032   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6054  
6054. ام المومنین سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: اسے اندر آنے کی اجازت دے دو، یہ قبیلے کا برا بھائی یا برا بیٹا ہے جب وہ اندر آیا تو آپ ﷺ نے اس کے ساتھ بڑے اخلاق اور نرمی سے گفتگو فرمائی۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اس کے متعلق پہلے یہ فرمایا تھا پھر اس کے ساتھ بہت نرم گفتگو فرمائی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! بے شک بد ترین آدمی وہ ہے جسے لوگ اس کی بد کلامی سے بچنے کے لیے چھوڑ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6054]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ حقیقت تھی کہ وہ بُرا آدمی ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسے نہ تھے، آپ نے تو اپنی نیک عادت کے مطابق ہر برے بھلے آدمی سے نرم مزاجی اور اچھے اخلاق سے پیش آنا تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے آپ نے ایسا کیا تاکہ کوئی دوسرا اس کے دام فریب میں نہ پھنس جائے، لہٰذا یہ صورت غیبت سے مستثنیٰ ہوگی۔
(2)
ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل صورتیں غیبت سے مستثنیٰ ہیں:
٭ مظلوم آدمی، حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت کر کے اپنے ظلم کی فریاد کر سکتا ہے کیونکہ اس کے بغیر عدالتی نظام نہیں چل سکتا، اسی طرح فتویٰ لینے کے لیے مفتی کے سامنے بھی ظلم کی داستان بیان کی جا سکتی ہے۔
٭کسی شخص کے شر سے بچنے کے لیے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب سے مطلع کیا جا سکتا ہے، مثلاً:
اگر کوئی شخص کسی سے رشتہ کرنا چاہتا ہو اور وہ دوسرے سے مشورہ لے تو اسے اس کے عیوب سے مطلع کرنا ضروری ہے۔
٭محدثین کا قانونِ جرح وتعدیل، جس پر ذخیرۂ احادیث کی جانچ پڑتال کا انحصار ہے، اس صورت میں راویوں کے عیب بیان کرنا ممنوعہ غیبت میں شمار نہیں ہوگا، ایسا کرنا جائز ہی نہیں بلکہ واجب ہے۔
٭ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں کو بیان کرنا جو فسق وفجور پھیلا رہے ہوں یا بدعات کی اشاعت کر رہے ہوں یا وہ لوگوں کے بے حیائی اور بےغیرتی میں مبتلا کر رہے ہوں، یہ تمام صورتیں غیبت میں شامل نہیں جس پر وعید آئی ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6054