مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3127
3127. حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: ”اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ ”حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3127]
حدیث حاشیہ:
حاتم بن وردان کی روایت کو خود امام بخاری ؒنے ''باب شهادة الأعمی'' میں وصل کیا ہے۔
مخرمہ ؓ میں طبعی غصہ تھا۔
جلدی سے گرم ہوجاتے جیسے اکثر تنگ مزاج لوگ ہوتے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام یا بادشاہ اسلام کو کافر لوگ جو تحفے تحائف بھیجیں ان کا لینا امام کو درست ہے۔
اور اس کو اختیار ہے کہ جو چاہے خود رکھے جو چاہے جس کو دے‘ اغیار کے تحائف قبول کرنا بھی اس سے ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3127
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2599
2599. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں لیکن حضرت مخرمہ ؓ کو آپ نے کوئی قبانہ دی جس پر حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: بیٹے!تم رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے ہمراہ چلو۔ میں ان کے ہمراہ چلا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ مسور ؓ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کو بلا لایا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو ان قباؤں میں سے ایک قبا آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: ”ہم نے یہ قباتیرے لیے چھپا رکھی تھی۔“ حضرت مسور کا بیان ہے کہ مخرمہ ؓ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2599]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے یوں ترجمہ کیا ہے۔
والد نے کہا اب مخرمہ راضی ہوا۔
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ جب آپ نے وہ اچکن مخرمہ ؓ کو دی تو ان کا قبضہ پورا ہوگیا۔
جمہور کے نزدیک ہبہ میں جب تک موہوب لہ کا قبضہ نہ ہو اس کی ملک پوری نہیں ہوتی اورمالکیہ کے نزدیک صرف عقد سے ہبہ تمام ہوجاتا ہے۔
البتہ اگر موہوب لہ اس وقت تک قبضہ نہ کرے کہ واہب کسی اور کو وہ چیز ہبہ کردے تو ہبہ باطل ہوجائے گا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2599
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2657
2657. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کے پاس ریشمی قبائیں آئیں تو میرے باپ مخرمہ ؓ نے مجھ سے کہا: ہمیں آپ ﷺ کی خدمت میں لے چلو ممکن ہے آپ ﷺ ہمیں ان قباؤں میں سے کوئی قباعطا فرمائیں چنانچہ میرے والد آ پ ﷺ کے دروازے پر جا کر کھڑے ہوگئے اور کچھ باتیں کرنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز پہچان لی۔ نبی کریم ﷺ جب باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں ایک قبا تھی۔ آپ اس کا حسن و جمال میرے باپ کو دکھانے لگے، نیز آپ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2657]
حدیث حاشیہ:
حافظ صاحب ؒ فرماتے ہیں:
فإن فیه أنه اعتمد علی صوته قبل أن یری شخصه۔
یعنی اس حدیث سے مسئلہ یوں ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت مخرمہ ؓ کی صرف آواز سنتے ہی ان پر اعتماد کرلیا اور آپ ﷺ باہر تشریف لے آئے تو معلوم ہوا کہ اندھا بھی آواز سنے تو شہادت دے سکتا ہے اگر اس کی آواز پہچانتا ہو۔
اس سے آنحضرت ﷺ کی غرباء پروری بھی ظاہر ہے کہ آپ غریبوں کا کس حد تک خیال فرماتے تھے۔
صلی اللہ علیه وسلم
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2657
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2599
2599. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کچھ قبائیں تقسیم کیں لیکن حضرت مخرمہ ؓ کو آپ نے کوئی قبانہ دی جس پر حضرت مخرمہ ؓ نے کہا: بیٹے!تم رسول اللہ ﷺ کے پاس میرے ہمراہ چلو۔ میں ان کے ہمراہ چلا گیا۔ پھر انھوں نے کہا: اندر جاؤ اور آپ ﷺ کو میرے پاس بلا لاؤ۔ مسور ؓ کہتے ہیں: میں آپ ﷺ کو بلا لایا۔ جب آپ باہر تشریف لائے تو ان قباؤں میں سے ایک قبا آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: ”ہم نے یہ قباتیرے لیے چھپا رکھی تھی۔“ حضرت مسور کا بیان ہے کہ مخرمہ ؓ اسے دیکھ کر خوش ہوگئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2599]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہبہ میں دوسرے کی ملکیت اس وقت ثابت ہو گی جب وہ ہبہ اس کے قبضے میں آ جائے، اس سے پہلے پہلے اس میں تصرف نہیں کیا جا سکتا۔
غلام اور منقولات پر قبضے کا یہی طریقہ ہے کہ وہ موہوب لہ کی طرف منتقل کر دیے جائیں جیسا کہ رسول اللہ ؤنے وہ قبا حضرت مخرمہ ؓ کے حوالے کی تو ان کا قبضہ مکمل ہوا۔
جمہور کا یہی موقف ہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ صرف عقد سے ہبہ تمام ہو جاتا ہے۔
اگر قبضے سے پہلے ہبہ کرنے والا کسی اور کو ہبہ کر دے تو ایسا کرنا صحیح نہیں۔
لیکن یہ موقف محل نظر ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2599
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2657
2657. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ کے پاس ریشمی قبائیں آئیں تو میرے باپ مخرمہ ؓ نے مجھ سے کہا: ہمیں آپ ﷺ کی خدمت میں لے چلو ممکن ہے آپ ﷺ ہمیں ان قباؤں میں سے کوئی قباعطا فرمائیں چنانچہ میرے والد آ پ ﷺ کے دروازے پر جا کر کھڑے ہوگئے اور کچھ باتیں کرنے لگے تو نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز پہچان لی۔ نبی کریم ﷺ جب باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھ میں ایک قبا تھی۔ آپ اس کا حسن و جمال میرے باپ کو دکھانے لگے، نیز آپ نے فرمایا: ”میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔ میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2657]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں صراحت ہے کہ حضرت مخرمہ رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر کھڑے باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کی آواز سن کر باہر تشریف لائے اور ریشمی حلہ ان کے حوالے کیا۔
(2)
حافظ ابن حجر ؓ لکھتے ہیں؛ اس حدیث سے مسئلہ یوں ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی شخصیت دیکھے بغیر صرف آواز سنتے ہی انہیں پہچان لیا اور باہر تشریف لے آئے۔
اس سے معلوم ہوا کہ نابینا آدمی آواز سن کر گواہی دے سکتا ہے بشرطیکہ آواز کو پہچانتا ہو۔
اس پر یہ اعتراض بے محل ہے کہ آپ نے اس وقت تک اسے قبا نہ دی جب تک اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ نہیں لیا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کو اس شخصیت دیکھنے سے پہلے ہی اس کی آواز سے یقین ہو گیا تھا۔
امام بخاری ؒ کا مقصود بھی یہی ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2657
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3127
3127. حضرت عبداللہ بن ابو ملیکہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ریشمی، جبے بطور ہدیہ بھیجے گئے جن میں سونے کے بٹن لگے ہوئےتھے۔ آپ نے وہ اپنے پاس موجود صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیے اور ان میں سے ایک جبہ حضرت مخرمہ بن نوفل ؓ کے لیے الگ کررکھا۔ وہ آئے اور ان کے ہمراہ ان کا بیٹا مسور بن مخرمہ ؓ بھی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑے ہوگئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ آپ ﷺ کومیری خاطر بلا لائے۔ نبی کریم ﷺ نے ان کی آواز سنی تو ایک جبہ لے کر باہر تشریف لائے اور سونے کے بٹنوں سمیت وہ جبہ مخرمہ ؓکے آگے رکھ دیا اور فرمایا: ”اے مخرمہ! میں نے یہ تمہارے لیے چھپا رکھا تھا۔ اے مخرمہ! میں نے تمہارے لیے یہ چھپا کررکھ لیا تھا۔ ”حضرت مخرمہ ؓ ذرا تیز طبیعت کے آدمی تھے۔ ابن علیہ نے یہ حدیث ایوب کے واسطے سے (مرسل ہی) بیان کی ہے۔ اور حاتم بن وردان نے کہا: ہم سے ایوب نے، ان۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3127]
حدیث حاشیہ:
1۔
ریشمی جبوں کا مذکورہ ہدیہ مشرکین کی طرف سے آیاتھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے حلال تھا۔
مال فے کی طرح اس قسم کے تحائف کی تقسیم بھی رسول اللہ ﷺ کی صوابدید پر موقوف تھی۔
آپ نے جسے چاہا عطا کردیا اور جسے چاہا اسے دوسروں پر ترجیح دےدی۔
لیکن اس قسم کے تحائف کاتبادلہ رسول اللہ ﷺ کے بعد دوسرے حکمرانوں کے لیے جائز نہیں کیونکہ انھیں یہ ہدایا بطور رشوت دیئے جاتےہیں۔
2۔
حضرت مخرمہ ؓ کی طبیعت میں کچھ تیزی تھی۔
وہ جلد غصے میں آجاتے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ انھیں جبے کی خوبصورتی بتارہے تھے کہ تاکہ وہ خوش خوش واپس جائیں اور تنگ مزاجی کا مظاہرہ نہ کریں۔
(عمدة القاري: 457/10)
3۔
شارح بخاری ابن منیر ؒ کہتے ہیں:
اس عنوان سے ان لوگوں کی تردید مقصود ہے جن کا دعویٰ ہے کہ ہدیہ صرف ان لوگوں کے لیے ہوتا ہے جو مجلس میں موجود ہوں دوسروں کے لیے نہیں ہوتا۔
(فتح الباري: 272/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3127
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5800
5800. حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے چند قبائیں تقسیم کیں اور حضرت مخرمہ ؓ کو کچھ نہ دیا تو انہوں نے کہا: بیٹے! میرے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے پاس چلو، چنانچہ میں اپنے والد محترم کے ساتھ گیاَ۔ انہوں نے مجھے کہا: تم اندر جاؤ اور آپ ﷺ سے میرا ذکر کرو۔ میں نے آپ ﷺ سے اپنے والد کا ذکر کیا تو آپ باہر تشریف لائے جبکہ انھی قباؤں میں سے ایک قبا ساتھ لیے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا؛ ”یہ قبا میں نے تمہارے لیے چھپا رکھی تھی۔“ حضرت مخرمہ ؓ نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: مخرمہ راضی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5800]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ قبائیں ریشمی تھیں۔
حدیث کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پہنا تھا۔
حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے کہ شاید اس وقت ریشم پہننا مردوں کے لیے حلال ہو گا، یا آپ نے بطور حفاظت اس قبا کو اپنے اوپر ڈالا ہو گا۔
اسے پہننا نہیں کہتے جیسا کہ ایک روایت میں صراحت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس قبا تھی۔
(المستدرك للحاکم: 390/3، حدیث: 6074، و فتح الباري: 332/10) (2)
اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے اور ان کے مزاج کو بخوبی سمجھتے تھے۔
دینی رہنماؤں کو اس سے سبق لینا چاہیے اور اپنے رفقائے کار کا خیال رکھنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5800