حدیث حاشیہ: 1۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خواب بہت سے عجیب وغریب حقائق پر مشتمل ہے اور انبیاء علیہ السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں۔
اس میں چار قسم کے جرائم پیشہ لوگوں کو دی جانے والی سنگین اور ہولناک سزائیں بیان ہوئی ہیں جن میں ہمارے لیے بہت سا عبرت کا سامان ہے۔
ان جرم پیشہ لوگوں کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
پہلا شخص قرآن کریم کا عالم اور قاری جو نماز کی ادائیگی میں سنجیدہ نہیں تھا بلکہ غفلت وسستی اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے سوتے ہوئے ضائع کردیتا تھا۔
۔
دوسرا شخص جھوٹی باتیں پھیلانے والا،افواہیں اڑانے والا اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والا تھا۔
۔
تیسرے زناکار عورتیں اور زنا کار مرد تھے جو ایک تنور میں جہنم کی سزا بھگت رہے تھے۔
۔
خون اور پیپ کی نہر میں غوطے لگانے والا اور منہ پر زناٹے پتھر کھانے والا سودخورتھا۔
یہ حدیث بڑے ہی غور سے مطالعے کے قابل ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو اس سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق دے۔
2۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خوابوں کی تعبیر طلوع آفتاب کے بعد کرنی چاہیے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان حضرات کی تردید کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ آپ جب نماز فجر پڑھ لیتے تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے خواب سنتے یا خود کوئی خواب بیان کرتے کیونکہ اس وقت خواب کانقشہ ذہن میں تازہ ہوتا ہے۔
اور تعبیر کرنے والا بھی خالی ذہن ہوتا ہے،پھر اگرخواب دیکھنے والے کو خبردار کرنا ہوتو یہ مناسب ہے کہ وہ آئندہ تمام اوقات میں محتاط رہے۔
3۔
اس مناسبت سے ہم ائمہ مساجد اور خطباء حضرات کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ علم تعبیر سے واقفیت حاصل کریں اور اگر وہ فن تعبیر سے واقف ہیں تو صبح کی نماز کے بعد لوگوں کے خواب سنیں اور ان کی مناسب تعبیر کریں۔
علم تعبیر لوگوں کو نیکی کی طرف بلانے اور بُرائی سے روکنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے بشرط یہ کہ ہم لوگ خواب کی تعبیر کے تمام آداب وقواعد سے واقف ہوں۔
بہرحال اس مسنون عمل کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔w