ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے شفیق نے بیان کیا، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ہم عبداللہ بن عمرو کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، وہ ہم سے باتیں کر رہے تھے اسی دوران انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بدگو تھے نہ بد زبانی کرتے تھے (کہ منہ سے گالیاں نکالیں) بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 6035]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6035
حدیث حاشیہ: (1) حسن خلق بہت بڑی دولت ہے۔ قیامت کے دن میزان اعمال سے سب سے زیادہ وزن حسن اخلاق کا ہوگا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”کوئی چیز حسن خلق سے بڑھ کر ترازو میں وزنی نہیں ہوگی۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4799) قیامت کے دن اچھے اخلاق کے حامل اہل ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب اور آپ کے قریب بیٹھنے والے ہوں گے۔ (الأدب المفرد، حدیث: 272) جنت میں اکثر لوگوں کا داخلہ تقوی شعاری اور خوش اخلاقی کی بنا پر ہوگا۔ (سنن ابن ماجة، الزھد،حدیث: 4246)(2) اس میں شک نہیں کہ حسن حلق ایک فطری عطیہ ہے جیسا کہ حدیث میں ہے، اللہ تعالیٰ نے رزق کی طرح حسن خلق کی تقسیم بھی پہلے سے کررکھی ہے۔ (مسند أحمد: 387/1، وسلسلة الأحادیث الصحیحة: 482/6، رقم: 2714) جس انسان میں حسن اخلاق پیدائشی نہ ہو اسے کوشش اور محنت کر کے اسے حاصل کرنا چاہیے کیونکہ بداخلاقی انسانی وقار کے منافی ہے۔ واللہ أعلم (فتح الباري: 564/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6035