ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے، انہوں نے کہا مجھ کو معاویہ بن ابی مزرد نے خبر دی، انہوں نے یزید بن رومان سے، انہوں نے عروہ سے، ام المؤمنین انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم (رشتہ داری رحمن سے ملی ہوئی) شاخ ہے جو شخص اس سے ملے میں اس سے ملتا ہوں اور جو اس سے قطع تعلق کرے میں اس سے قطع تعلق کرتا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5989]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5989
حدیث حاشیہ: اس باب سے صاف ظاہر ہو اکہ رحم کو قطع کرنے والا اللہ تعالیٰ سے تعلق توڑنے والا مانا گیا ہے۔ بہت سے امام نام نہاد دیندار اپنے گنہگار بھائیوں سے بالکل غیر متعلق ہو جاتے ہیں اور اسے تقویٰ جانتے ہیں۔ جو بالکل خیال باطل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5989
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5989
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث سے صلہ رحمی کی اہمیت کا پتا چلتا ہے کہ رشتے داری قائم رکھنے والے سے اللہ تعالیٰ اپنا تعلق قائم رکھتا ہے اور اسے ختم کرنے والے سے اللہ تعالیٰ اپنا تعلق ختم کرلیتا ہے۔ دور حاضر میں بہت سے دیندار اپنے دنیادار بھائیوں سے بالکل قطع تعلق ہوجاتے ہیں اور اسے تقویٰ کا اعلی معیار شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل غلط خیال ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں قطع رحمی کی مذمت ان الفاظ میں کی گئی ہے: ”اور جن تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ انھیں توڑتے ہیں۔ “(الرعد13: 25) در حقیقت رشتے داری کے کئی مراتب ہیں: پہلا یہ کہ آپس میں ایسی رشتے داری ہو جس سے باہمی نکاح حرام ہوتا ہے، دوسرے یہ کہ وہ ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں، تیسرے یہ کہ ان دونوں کے علاوہ کسی بھی وجہ سے قرابت ہو۔ ان میں سب سے زیادہ حق ماں کا ہے، پھر باپ کا، پھر حسب مراتب دوسرے عزیزواقارب کا ہے۔ (2) اگرچہ صلہ رحمی تمام عزیزو اقارب کا حق ہے مگر درجہ بدرجہ یہ حق بڑھتا چلا جاتا ہے۔ صلہ رحمی کا کم از کم درجہ یہ ہے کہ آپس میں سلام وکلام کا سلسلہ قائم رہے۔ اگر یہ بھی باقی نہ رہا تو صلہ رحمی کیسی؟ اس کے بعد عزیزواقارب کے احوال کی خبرگیری، مال وجان سے ان کا تعاون، ان کی غلطیوں سے درگزر اور ان کی عزت وآبرو کی حفاظت کرنا یہ صلہ رحمی کی مختلف صورتیں ہیں۔ والله أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5989