14. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ناطہٰ اگر قائم رکھ کر تروتازہ رکھا جائے (یعنی ناطہٰ کی رعایت کی جائے) تو دوسرا بھی ناطہٰ کو تروتازہ رکھے گا۔
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فلاں کی اولاد (یعنی ابوسفیان بن حکم بن عاص یا ابولہب کی اولاد) یہ عمرو بن عباس نے کہا کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں اس وہم پر سفید جگہ خالی تھی (یعنی تحریر نہ تھی) میرے عزیز نہیں ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ ہے) میرا ولی تو اللہ ہے اور میرے عزیز تو ولی ہیں جو مسلمانوں میں نیک اور پرہیزگار ہیں (گو ان سے نسبی رشتہ بھی نہ ہو)۔ عنبسہ بن عبدالواحد نے بیان بن بشر سے، انہوں نے قیس سے، انہوں نے عمرو بن العاص سے اتنا بڑھایا ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا البتہ ان سے میرا رشتہ ناطہٰ ہے اگر وہ تر رکھیں گے تو میں بھی تر رکھوں گا یعنی وہ ناطہٰ جوڑیں گے تو میں بھی جوڑوں گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 5990]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5990
حدیث حاشیہ: کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5990
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5990
تخريج الحديث: [128۔ البخاري فى: 78 كتاب الأدب: 14 باب يبل الرحم ببلاها 5990، مسلم 215، أحمد 17820] لغوی توضیح: «جِهَارًا» اعلانیہ، ظاہری طور پر۔ «اَبُلُّهَا بِبَلَالِهَا» میں اسے تر چیزوں سے گیلا کرتا رہوں گا، یعنی جوڑتا رہوں گا، عرب لوگ گیلا کرنے سے جوڑنا اور سکھانے سے توڑنا مراد لیتے ہیں۔ فھم الحدیث: معلوم ہوا کہ دوستی و محبت اور رشتہ و تعلق صرف نیک لوگوں سے رکھنا چاہیے خواہ وہ رشتہ دار نہ بھی ہوں اور کفار و مشرکین سے اظہار برأت کرنا چاہیے خواہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اعلان برأت کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے بھی اسی کو اسوہ و نمونہ بنایا ہے۔ [سورة الممتحنة: آيت 4]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 128
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5990
حدیث حاشیہ: (1) "بَلال" تری یا حلق میں تھوڑی سی مٹھاس کو کہا جاتا ہے۔ (2) عمرو بن عباس امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد ہیں، وہ کہتے ہیں کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں آل ابی..... کے بعد خالی جگہ تھی۔ اس میں کسی نام کی تصریح نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ بعض راویوں نے فتنے کے خوف سے اس مقام پر کنایہ کرتے ہوئے اسے نظر انداز کر دیا ہو۔ (3) حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ میں کس کی قرابت کی وجہ سے اس سے دوستی نہیں کرتا بلکہ میری دوستی کی بنیاد للہیت ہے، اس بنا پر صرف اللہ تعالیٰ اور اہل ایمان سے دوستی کا دم بھرتا ہوں۔ دوسرے الفاظ میں میری محبت ایمانی اور اصلاحی ہے لیکن میں رشتے داری کے حق کو پامال نہیں کرتا اور ان کے حق کا لحاظ رکھتے ہوئے میں ان کا بھر پور تعاون کرتا ہوں۔ (4) اس حدیث میں رحم کو اس زمین سے تشبیہ دی گئی ہے جو پانی سے تر ہو، جب وہ پوری طرح تر ہو تو پھل اور پیداوار دیتی ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو خشک ہو جائے گی اور اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ وصل کو بلل کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اتصال کو چاہتا ہے اور قطعیت کو یبس کہا جاتا ہے کیونکہ اس سے انفصال ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ اقرباء پروری دونوں طرف سے ہونی چاہیے، اگر وہ اس کا خیال رکھیں گے تو میں بھی ان کا خیال رکھوں گا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5990