ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے جابر بن زید نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (محرم کے بارے میں) فرمایا ”جسے تہمد نہ ملے وہ پاجامہ پہنے اور جسے چپل نہ ملیں وہ موزے پہنیں۔“[صحيح البخاري/كِتَاب اللِّبَاسِ/حدیث: 5804]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5804
حدیث حاشیہ: (1) یہ حدیث محرم کے متعلق ہے کہ اگر اسے احرام کے لیے تہبند میسر نہ ہو تو شلوار پہن سکتا ہے اور موزے پہننے کی صورت میں انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹنا ہو گا۔ اگر بحالت احرام مجبوری کی صورت میں مرد شلوار پہن سکتا ہے تو عام دنوں میں شلوار یا پاجامہ پہننا بالاولیٰ جائز ہو گا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے شلوار پہننا ثابت کیا ہے۔ (2) ایک حدیث میں ہے حضرت سوید بن قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے شلوار کا سودا کیا۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3579) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شلوار خریدنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جائز لباس ہے، البتہ کسی بھی صحیح حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شلوار پہننے کا ثبوت نہیں ملتا۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5804
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1829
´محرم کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پاجامہ وہ پہنے جسے ازار نہ ملے اور موزے وہ پہنے جسے جوتے نہ مل سکیں۔“(ابوداؤد کہتے ہیں یہ اہل مکہ کی حدیث ہے ۱؎ اس کا مرجع بصرہ میں جابر بن زید ہیں ۲؎ اور جس چیز کے ساتھ وہ منفرد ہیں وہ سراویل کا ذکر ہے اور اس میں موزے کے سلسلہ میں کاٹنے کا ذکر نہیں)۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1829]
1829. اردو حاشیہ: عذرکی صورت میں شلوار اور موزوں پہننا جائز ہے اور اس میں کوئی فدیہ وغیرہ لازم نہیں آتا۔موزون سے متعلق بحث حدیث 1823 کے فوائد میں گزر چکی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1829
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2672
´تہبند نہ ہونے کی صورت میں پائجامہ پہننے کی اجازت کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: ”پائجامہ اس شخص کے لیے ہے جسے تہبند میسر نہ ہو، اور موزہ اس شخص کے لیے ہے جسے جوتے میسر نہ ہوں۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2672]
اردو حاشہ: یہ حدیث، حدیث: 2668 میں موزے کاٹنے کے حکم کی ناسخ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ اب موزے کاٹے بغیر ہی پہنے جائیں گے۔ جمہور کاٹ کر پہننے کے قائل ہیں۔ وہ اس مطلق حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہ کی مقید حدیث پر محمول کرتے ہیں۔ لیکن مطلق کو مقید پر محمول کرنا یہاں محل نظر ہے کیونکہ حدیث کا مخرج ایک نہیں بلکہ مختلف ہے۔ پہلی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ کی ہے اور یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی۔ یہ اصول اس وقت قابل عمل ہے جب مخرج (حدیث بیان کرنے والا صحابی) ایک ہو۔ لیکن اس کے طرق واسانید مختلف ہوں۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قطع کا حکم اباحت پر محمول کیا جائے گا، لہٰذا نہ کاٹنا بھی جائز ہے۔ پہلا موقف راجح معلوم ہوتا ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2672
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5327
´پاجامہ پہننے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے عرفات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جسے تہبند نہ ملے تو وہ پاجامہ پہن لے، اور جسے چپل نہ ملے وہ خف (چمڑے کے موزے) پہن لے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5327]
اردو حاشہ: (1) مقصد یہ ہے کہ اگر احرام کے لیے ان سلی چادریں میسر نہ ہوں تو مردوں کے لیے شلوار پہننا جائز ہے۔ یاد رہے کہ یہ صرف مجبوری کی حالت میں ہے عام حالات میں ایسا کرنا درست نہیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ سے یہ اہم مسئلہ معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ ان کی جگہ موزے پہن سکتا ہے خواہ وہ کٹے ہوئے ہوں یا کٹے ہوئے نہ ہوں۔ کیونکہ یہ حدیث بعد کی ہے یعنی حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ تو جب اس میں کاٹنے کا ذکر نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سابقہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہے یہ رائے حنابلہ کی ہے۔ جمہور اہل علم کی رائے یہ ہے کہ اگر محرم موزے پہنے تو انہیں کاٹ لے کیونکہ دیگر احادیث میں کاٹنے کا ذکر ہے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5327
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 834
´محرم کے پاس تہبند اور جوتے نہ ہوں تو پاجامہ اور موزے پہنے۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسر نہ ہوں تو «خف»(چمڑے کے موزے) پہن لے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 834]
اردو حاشہ: 1؎: اسی حدیث سے امام احمد نے استدلال کرتے ہوئے چمڑے کے موزہ کو بغیر کاٹے پہننے کی اجازت دی ہے، حنابلہ کا کہنا ہے کہ قطع (کاٹنا) فساد ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے فساد وہ ہے جس کی شرع میں ممانعت وارد ہو، نہ کہ وہ جس کی شریعت نے اجازت دی ہو، بعض نے موزے کو پاجامے پر قیاس کیا ہے، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس درست نہیں، رہا یہ مسئلہ کہ جوتا نہ ہونے کی صورت میں موزہ پہننے والے پر فدیہ ہے یا نہیں تو اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے، ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فدیہ نہیں ہے، لیکن حنفیہ کہتے ہیں فدیہ واجب ہے، ان کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر فدیہ واجب ہوتا تو نبی اکرم ﷺ اسے ضرور بیان فرماتے کیونکہ ”تَأْخِيرُ الْبَيَانِ عَنْ وَقْتِ الْحَاجَة“ جائز نہیں۔ (یعنی ضرورت کے وقت مسئلہ کی وضاحت ہو جانی چاہئے، وضاحت اور بیان ٹالا نہیں جا سکتا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 834
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:474
474- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”(احرام والے) جس شخص کو جوتے نہیں ملتے وہ موزے پہن لے، جسے تہہ بند نہیں ملتا، ول شلوار پہن لے (راوی کہتے ہیں:(یعنی احرام والا شخص)۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:474]
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں انسان جوتے اور موزے دونوں پہن سکتا ہے، جب جوتا میسر نہ ہو تو موزے پہنے جا سکتے ہیں حالت احرام میں جوتا اور موزہ ایسا ہونا شرط ہے جس سے ٹخنے ننگے ر ہیں اور جس کے پاس چادر نہ ہو وہ شلوار پہن لے، محرم شلوار پہن سکتا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 474
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1841
1841. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ نے محرم کے لیے فرمایا: ”جس کے پاس جوتا نہ ہو وہ موزے پہن لے اور جس کے پاس تہبند نہ ہوتو وہ شلوارپہن لے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1841]
حدیث حاشیہ: امام احمد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرکے حکم دیا ہے کہ جس محرم کو تہبند نہ ملے وہ پاجامہ اور جس کو جوتے نہ ملیں وہ موزہ پہن لے اورپاجامہ کا پھاڑنا اورموزوں کا کانٹا ضروری نہیں۔ اور جمہور علماءکے نزدیک ضروری ہے کہ اگر اسی طرح پہن لے گا، تو اس پر فدیہ لازم ہوگا۔ یہاں جمہور کا یہ فتویٰ محض قیاس پر مبنی ہے جو حجت نہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1841
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1843
1843. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور فرمایا: ”جس شخص کو تہبند نہ ملے وہ شلوار پہن لے اور جس شخص کو جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے۔“ حضرت عکرمہ نے کہا: اگر محرم کو دشمن سے خطرہ ہوتو ہتھیار پہن لے اس صورت میں اسے فدیہ دینا ہوگا، لیکن فدیہ دینے کے متعلق ان سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1843]
حدیث حاشیہ: مطلب آپ کا یہ تھا کہ احرام میں تہ بند کا ہونا اور پیروں میں جوتیوں کا ہونا ہی مناسب ہے، لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو مجبوراً پاجامہ اور موزے پہن سکتا ہے کیوں کہ اسلام میں ہر ہر قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیاہے، امام احمد نے اسی حدیث کے ظاہر پر فتویٰ دیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1843
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1843
1843. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ہمیں میدان عرفات میں خطبہ دیا اور فرمایا: ”جس شخص کو تہبند نہ ملے وہ شلوار پہن لے اور جس شخص کو جوتے نہ ملیں وہ موزے پہن لے۔“ حضرت عکرمہ نے کہا: اگر محرم کو دشمن سے خطرہ ہوتو ہتھیار پہن لے اس صورت میں اسے فدیہ دینا ہوگا، لیکن فدیہ دینے کے متعلق ان سے کسی نے اتفاق نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1843]
حدیث حاشیہ: (1) احرام کی حالت میں تہبند کا ہونا اور پاؤں میں جوتا ہونا ہی مناسب ہے کیونکہ حج میں اللہ تعالیٰ کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے لیکن اگر کسی کو یہ چیزیں میسر نہ ہوں تو بوقت مجبوری پاجامہ، شلوار اور موزے بھی پہن سکتا ہے کیونکہ اسلام میں قدم قدم پر آسانیوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ شلوار پہننے کی اجازت اس صورت میں ہے جب ازار حاصل کرنے کی پوری کوشش کرے اور اسے حاصل نہ کر سکے۔ اس کے پاس اگر قیمت ہے تو اسے خرید لے۔ اگر ایسا ممکن نہ ہو تو شلوار یا پاجامہ پہن لے لیکن کیا اسے موزے کی طرح کاٹنا ضروری ہے؟ جمہور علماء تو اسے کاٹ کر پہننے کی اجازت دیتے ہیں۔ کاٹے بغیر پہن لینے والے کو فدیہ دینا ہو گا۔ امام احمد نے اس حدیث کے ظاہر پر عمل کرتے ہوئے فتویٰ دیا ہے کہ شلوار کو کاٹنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسے کاٹنے کا فتویٰ محض قیاس پر مبنی ہے۔ (2) عرب کے ہاں تنورہ پہننے کا رواج ہے، یعنی چادر کے دونوں کناروں کو سینے کے بعد اوپر لاسٹک لگا دی جاتی ہے تاکہ وہ کھل نہ سکے۔ ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ محرم کے لیے ایسا سلا ہوا لباس منع ہے جو اعضاء کے مطابق کاٹ کر تیار کیا گیا ہو اور اسے معمول کے مطابق پہنا جاتا ہو۔ اس سے مراد ہر وہ چیز نہیں جس پر سلائی کا عمل ہوا ہو، لہذا اگر انسان احرام کے لیے پیوند لگی چادریں استعمال کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں اگرچہ پیوند کاری کے لیے سلائی کی گئی ہو۔ بوقت مجبوری اس قسم کی سلائی والا کپڑا بھی پہنا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1843
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5853
5853. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ شلوار پہن لے اور جسے جوتے دستیاب نہ ہوں وہ موزے پہن لے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5853]
حدیث حاشیہ: (1) ورس ایک زرد رنگ کی گھاس ہے جو کسی حد تک زعفران جیسی ہوتی ہے۔ اس سے کپڑوں کو رنگا جاتا ہے۔ ان احادیث میں محرم کو جوتا پہننے کی اجازت ہے۔ جب محرم انہیں پہن سکتا ہے تو عام لوگوں کو تو بالاولیٰ اس کی اجازت ہے، چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اکثر جوتا پہنا کرو کیونکہ جب کوئی جوتا پہنتا ہے تو راحت و آرام میں اس طرح ہوتا ہے گویا وہ سواری پر سوار ہے۔ “(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5494 (2096)(2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوتا پہننے والے کو سوار سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اس سے سفر کی مشقت میں تخفیف، تھکاوٹ کم اور راستے کی تکلیفوں سے پاؤں محفوظ رہتے ہیں۔ (فتح الباري: 381/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5853