ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سلیمان بن غسیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عاصم بن عمر بن قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہاری دواؤں میں شفاء ہے تو پچھنا لگوانے اور آگ سے داغنے میں ہے لیکن آگ سے داغ کر علاج کو میں پسند نہیں کرتا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5704]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5704
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسے پسند نہ کریں اسے کسی مسلمان کو پسند نہ کرنا تقاضائے محبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5704
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5704
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں انتہائی اختصار ہے کیونکہ ایک تو اس میں شہد کا ذکر نہیں ہے دوسرے ان دواؤں کے مرض سے موافق ہونے کا بیان نہیں جبکہ یہ دونوں حدیث میں ہیں۔ (صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5683)(2) اس سے علاج بذریعۂ آگ کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں شفا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگرچہ آپ نے اس طریقے کو پسند نہیں کیا لیکن ضروری نہیں جسے آپ پسند نہ فرمائیں وہ جائز نہ ہو۔ سانڈے کا گوشت آپ کو پسند نہیں تھا لیکن آپ کے سامنے اسے کھایا گیا، پھر آپ نے چند صحابۂ کرام کا علاج اس طریقے سے کیا ہے، مثلاً: حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جب غزوۂ خندق میں زخمی ہو گئے تھے تو آپ نے خود انہیں رگ اکحل پر آگ سے داغ دیا تھا، (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5748 (2208) لیکن فضیلت اسی میں ہے کہ اس طریقۂ علاج کو اختیار نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی دوسرا طریقہ کارگر نہ ہو تو اسے اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس سے شفا کی حتمی امید ہو۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5704
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5743
عاصم بن عمر قتادہ بیان کرتے ہیں، حضرت جابر بن عبداللہ ؓ ہمارے گھر آئے اور ایک آدمی کو پھوڑے نکلے ہوئے تھے یا زخم تھے تو انہوں نے پوچھا، تمہیں کیا شکایت ہے، اس نے کہا، میرے لیے پھوڑے پھنسیاں، مشقت کا باعث ہیں تو حضرت جابر ؓ نے کہا، اے لڑکے! میرے پاس سنگی لگانے والے کو لاؤ، اس آدمی نے پوچھا، اے ابو عبداللہ! آپ سنگی لگانے والے کو بلوا کر کیا کریں گے؟ انہوں نے جواب دیا، میں ان پھوڑوں پر سنگی لگوانا چاہتا ہوں، اس نے کہا، اللہ کی قسم! مجھ پر مکھی بیٹھتی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:5743]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) محجم: خون چوسنےکاآلہ، سنگی۔ (2) شرطة: نشترلگانا، سنگی لگانےکےلیے جسم کو پچھنا لگانا۔ (3) لدغة بنار: آگ کے ذریعے داغ لگانا۔ فوائد ومسائل: امام ابو عبداللہ الماذری نے لکھا ہے کہ بیماریاں چار قسم کی ہیں، دموی، صفرادی، بلغمی اور سوداوی، اگر خون کا غلبہ ہونے کی بنا پر دموی ہیں تو ان کا علاج خون نکالنا ہے اور اگر باقی تین قسم کی ہیں تو اس کا علاج مناسب اسہال ہے، (پیٹ جاری کرنا) تو نبی اکرم نے شہد کے ذریعہ دست آور اشیاء کی طرف اشارہ فرمایا اور حجامۃ کے ذریعہ، خون نکالنے والی اشیاء کی طرف اور آخری چارہ کار کے طور پر داغ لگانے کا تذکرہ فرمایا اور حافظ ابن قیم نے لکھا ہے، بیماریاں درحقیقت حرارت اور برودت (ٹھنڈک) کے غلبہ کا نتیجہ ہیں، اگر بیماری گرمی کے غلبہ کی بنا پر ہے تو خون نکالا جائے گا، سینگی کے ذریعہ ہو یا فصدرگ کھول کر، کیونکہ اس طرح زائد مواد نکال کر مزاج کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور اگر بیماری برودت کے سبب ہو تو مزاج کو گرم کرنے کی ضرورت ہے تو شہد یہ کام کرتا ہے اور اگر بارد مواد کو خارج کرنے کی ضرورت ہے تو شہد ایک نرم اور مسہل (دست آور) ہے اور اگر بیماری پرانی ہو تو آخری علاج داغ کے ذریعہ بیماری کے مواد کو خارج کرنا پڑتا ہے، (تکملہ ج 4 ص 336-337) بہرحال آپ نے آگ سے داغنے کو پسند نہیں کیا اور امت کو اس کے عام استعمال سے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہ انتہائی تکلیف دہ علاج ہے اور جسم انسانی کو بدنما بھی بناتا ہے، اس لیے اس کو آخری چارہ گاہ کے طور پر ماہر معالج کے مشورہ سے ہی کام میں لایا جا سکتا ہے، آج کل اس کے لیے بجلی کی لہروں کو استعمال کیا جاتا ہے جس سے آگ کے داغ والے مفاسد پیدا نہیں ہوتے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5743
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5702
5702. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”اگر تمہاری دوائیوں میں کوئی خیر و برکت ہے تو وہ شہد پینے۔ سینگی لگوانے اور آگ سے داغ دینے میں ہے لیکن میں آگ سے داغ کر علاج کو پسند نہیں کرتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5702]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ جب پچھنا لگوانا بہترین علاج ٹھہرا تو سر کے درد میں لگانا بھی مفید ہوگا۔ آگ سے داغنے کے متعلق نہی تنزیہی ہے کیونکہ دوسری میں بعض صحابہ کا یہ علاج مذکور ہے (دیکھو حدیث ص۔ 671)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5702
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5683
5683. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”اگر تمہاری دواؤں میں سے کسی چیز میں شفا ہے تو پچھنےلگوانے، شہد اور داغ دینے میں ہے جبکہ بیماری کے موافق ہو، لیکن میں آگ سے داغ دینے کو پسند نہیں کرتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5683]
حدیث حاشیہ: (1) دوا کے موافق ہونے میں یہ اشارہ ہے کہ آگ سے داغنا بھی اس وقت مشروع ہے جب وہ مرض کے موافق ہو، لہذا اسے بھی تحقیق کے بعد لگوانا چاہیے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم داغنے کو پسند نہیں کرتے تھے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ داغنے کا علاج اس وقت کیا جائے جب اس کے بغیر کوئی دوا مؤثر نہ ہو اور دوسری کسی بھی دوا سے آرام نہ آتا ہو کیونکہ آگ سے داغ دینے میں مریض کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ (3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہد پینے کو شفا قرار دیا ہے، عنوان سے یہی الفاظ مطابقت رکھتے ہیں۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5683
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5702
5702. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ نے فرمایا: ”اگر تمہاری دوائیوں میں کوئی خیر و برکت ہے تو وہ شہد پینے۔ سینگی لگوانے اور آگ سے داغ دینے میں ہے لیکن میں آگ سے داغ کر علاج کو پسند نہیں کرتا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5702]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سینگی لگوانا ایک بہترین علاج ہے۔ یہ سر درد کے لیے بھی بہت مفید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو درد شقیقہ کا عارضہ تھا۔ آپ نے ایک مرتبہ مقام خیبر میں زہریلے کھانے کا ایک لقمہ منہ میں ڈالا تھا، اس وجہ سے آپ کو درد شقیقہ ہوتا تھا۔ اس کا علاج آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوا کر کیا تھا۔ (عمدة القاري: 687/14)(2) مجبوری کی حالت میں آگ سے داغ دے کر علاج کرنا جائز ہے۔ آپ نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو داغ دیا تھا۔ اس بنا پر آپ کا اس سے منع کرنا نہی تنزیہی پر محمول ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5702