ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، ان سے عامر شعبی نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں۔ (حصین نے بیان کیا کہ) پھر میں نے اس کا ذکر سعید بن جبیر سے کیا تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے تمام امتیں پیش کی گئیں ایک ایک، دو دو نبی اور ان کے ساتھ ان کے ماننے والے گزرتے رہے اور بعض نبی ایسے بھی تھے کہ ان کے ساتھ کوئی نہیں تھا آخر میرے سامنے ایک بڑی بھاری جماعت آئی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں، کیا یہ میری امت کے لوگ ہیں؟ کہا گیا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے پھر کہا گیا کہ کناروں کی طرف دیکھو میں نے دیکھا کہ ایک بہت ہی عظیم جماعت ہے جو کناروں پر چھائی ہوئی ہے پھر مجھ سے کہا گیا کہ ادھر دیکھو، ادھر دیکھو آسمان کے مختلف کناروں میں میں نے دیکھا کہ جماعت ہے جو تمام افق پر چھائی ہوئی ہے۔ کہا گیا کہ یہ آپ کی امت ہے اور اس میں سے ستر ہزار حساب کے بغیر جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ اس کے بعد آپ (اپنے حجرہ میں) تشریف لے گئے اور کچھ تفصیل نہیں فرمائی لوگ ان جنتیوں کے بارے میں بحث کرنے لگے اور کہنے لگے کہ ہم اللہ پر ایمان لائے ہیں اور اس کے رسول کی اتباع کی ہے، اس لیے ہم ہی (صحابہ) وہ لوگ ہیں یا ہماری وہ اولاد ہیں جو اسلام میں پیدا ہوئے کیونکہ ہم جاہلیت میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ باتیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو جھاڑ پھونک نہیں کراتے، فال نہیں دیکھتے اور داغ کر علاج نہیں کرتے بلکہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس پر عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں بھی ان میں سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں۔ اس کے بعد دوسرے صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی ان میں ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عکاشہ تم سے بازی لے گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 5705]
هم الذين لا يسترقون ولا يتطيرون ولا يكتوون وعلى ربهم يتوكلون قال عكاشة بن محصن أمنهم أنا يا رسول الله قال نعم فقام آخر فقال أمنهم أنا قال سبقك بها عكاشة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5705
حدیث حاشیہ: خالص اللہ پر توکل رکھنا اور اسی عقیدہ کے تحت جائز علاج کرانا بھی توکل کے منافی نہیں ہے پھر وہ لوگ خالص توکل پر قائم رہ کر کوئی جائز علاج نہ کرائیں وہ یقینا اس فضیلت کے مستحق ہوں گے۔ جعلنااللہ منھم آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5705
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے بذریعۂ داغ علاج ترک کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی پر خالص توکل کر کے اس قسم کا علاج نہ کرانا بہت بڑی عزیمت کی بات ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ پر خالص توکل کر کے جائز علاج کرانا توکل کے منافی نہیں، تاہم اس میں فضیلت نہیں۔ (2) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آگ سے داغنے کی دو قسمیں ہیں: ٭ صحیح تندرست آدمی خود کو آگ سے داغے تاکہ وہ بیمار نہ ہو۔ اس قسم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس نے خود کو داغ دیا اس نے اللہ پر توکل نہیں کیا۔ ٭ زخمی کو آگ سے داغ دینا تاکہ وہ زخم آگے نہ بڑھے یا خراب نہ ہو۔ اس قسم کا داغ مشروع ہے۔ چونکہ اس سے شفا ضروری نہیں، اس لیے اس کا ترک کرنا باعث فضیلت ہے۔ (3) بہرحال جن احادیث میں اس طریقے علاج سے نہی وارد ہے اسے نہی تنزیہی پر محمول کیا جائے گا جیسا کہ وضاحت گزر چکی ہے۔ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بوریا جلا کر اس کی راکھ زخم میں بھری تھی، (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2911) لیکن یہ مروجہ داغ دینے سے ایک الگ چیز ہے۔ (فتح الباري: 193/10) واللہ أعلم۔ اس حدیث کی مکمل تشریح کتاب الرقاق میں ہو گی۔ بإذن اللہ تعالیٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5705