ہم سے اسحاق بن شاہین واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے خالد حذاء نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا «لا بأس طهور إن شاء الله» کہ ”کوئی فکر نہیں اگر اللہ نے چاہا (یہ مرض) گناہوں سے پاک کرنے والا ہو گا“ لیکن اس نے یہ جواب دیا کہ ہرگز نہیں یہ تو ایسا بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ چکا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر ہی رہے گا، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایسا ہی ہو گا۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى/حدیث: 5662]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5662
حدیث حاشیہ: بوڑھے کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت پر یقین کرنا ضروری تھا مگر اس کی زبان سے برعکس لفظ نکلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مایوسی دیکھ کرفرما دیا کہ پھر تیرے خیال کے مطابق ہی ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اس کی موت آ گئی، ناامیدی ہر حال میں کفر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو ناامیدی سے بچائے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5662
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5662
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بوڑھے کو تسلی دی اور اس میں اس کے لیے بشارت بھی تھی کہ بیماری سے شفا ہو گی، اگر شفا نہ ملی تو گناہوں کا کفارہ تو ضرور ہو گی لیکن اس نے مایوسی کے عالم میں اس کے برعکس الفاظ زبان سے نکالے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تیرے خیال کے مطابق ہی ہو گا“ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگلے دن اس کی موت واقع ہو گئی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5662
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3616
´نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان` «. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى أَعْرَابِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ عَلَى مَرِيضٍ يَعُودُهُ، قَالَ:" لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، فَقَالَ لَهُ: لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: قُلْتُ: طَهُورٌ كَلَّا بَلْ هِيَ حُمَّى تَفُورُ أَوْ تَثُورُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ تُزِيرُهُ الْقُبُورَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَعَمْ إِذًا . . .» ”. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک اعرابی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو فرماتے کوئی حرج نہیں، ان شاءاللہ یہ بخار گناہوں کو دھو دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے بھی یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ان شاءاللہ (یہ بخار) گناہوں کو دھو دے گا۔ اس نے اس پر کہا: آپ کہتے ہیں گناہوں کو دھونے والا ہے۔ ہرگز نہیں۔ یہ تو نہایت شدید قسم کا بخار ہے یا (راوی نے) «تثور» کہا (دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے) کہ بخار ایک بوڑھے کھوسٹ پر جوش مار رہا ہے جو قبر کی زیارت کرائے بغیر نہیں چھوڑے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3616]
باب اور حدیث میں مناسبت صحیح بخاری کا باب: «بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:» امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں علامات نبوت پر اشارہ فرمایا اور نبوت کے دلائل پر روشنی ڈالی، مگر حدیث جو پیش فرمائی اس میں بظاہر کوئی بھی ایسی نبوت کی خاص نشانی نظر نہیں آتی جس حدیث کا ترجمتہ الباب سے تعلق بنتا ہو، ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وجه دخوله فى هذا الباب: اٴن فى بعض طرقة زيادة تقتضي ايراده فى علامات النبوة، وهى قوله صلى الله عليه وسلم ”اما اذا أبيت فهي كما تقول، قضاء (الله) كائن فما أمسي من الغد ألا ميتا“ وبهذه الزيادة يظهر دخول هذا الحديث فى هذا الباب .»[فتح الباري لابن حجر: 521/7] یعنی ترجمۃ الباب کی حدیث سے مناسبت اس طرح ہے کہ اس کے بعد طرق میں علامات نبوت کی نشانی ہے۔ (اس کا بعض طرق) جیسے طبرانی نے روایت کیا ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، جس کے آخری الفاظ یوں ہیں، «فما أمسي من الغد الا ميتا»”پس وہ دوسرے روز مر گیا۔“ لہٰذا ایسا ہی ہوا، جیسا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، لہٰذا یہی سے ترجمہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا: «مطابقة للترجمة تؤخذ من قوله: ”فنعم اذا“ فذالك من حيث ان الاعرابي لما رد على النبى صلى الله عليه وسلم قوله: ”لا بأس طهور ان شاءالله“ مات على وفق ما قاله صلى الله عليه وسلم، وهذا معجزاته صلى الله عليه وسلم .»[عمدة القاري للعيني: 149/16] ترجمۃ الباب اور حدیث میں ان الفاظ سے مطابقت لی جائے گی، ”اچھا تو پھر یوں ہی ہو گا“، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی سے فرمایا، «لا باس طهور انشاءالله» تو اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جملے کا رد کیا تو پھر وہ اسی طرح سے مرا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا، (اس کی موت کی پیشن گوئی کا)۔ علامہ عینی رحمہ اللہ کے مطابق باب اور حدیث میں مناسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ پیشن گوئی کرنا یہ نبی کا معجزہ ہوتا ہے اور ترجمۃ الباب میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے اسی چیز کو ظاہر فرمایا ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3616
3616. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی(دیہاتی)کی عبادت کے لیے تشریف لے گئے۔ نبی ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی مریض کی بیمارپرسی کرتے تو اس طرح دعا کرتے: ” لا بأس طهور إن شاء الله کوئی حرج نہیں، إن شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہوگا۔“ لہٰذا آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی کہا: ”کوئی حرج نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہوگا۔“ اس نے کہا: آپ کہتے ہیں کہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کردےگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ یہ تو ایک سخت بخار ہے جو ایک بوڑھے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اسے قبر میں لے جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، اب ایسا ہی ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3616]
حدیث حاشیہ: یعنی تو اس بیماری سے مرجائے گا، حضرت امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو لاکر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو طبرانی نے نکالا۔ ، اس میں یہ ہے کہ دوسرے روز وہ مرگیا۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3616
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5656
5656. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے فرمایا: ”اور نبی ﷺ جب کسی مریض کے ہاں اس کی عیادت کے لےجاتے تو اس سے کہتے: فکر کی کوئی بات نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے إن شاء اللہ۔“ اس اعرابی نے کہا: آپ کہتے ہیں: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر رہے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”پھر ایسا ہی ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5656]
حدیث حاشیہ: بوڑھے کے منہ سے بجائے کلمات شکر کے ناشکری کا لفظ نکلا تو آپ نے بھی ایسا فرمایا اور جو آپ نے فرمایا وہی ہوا۔ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش اخلاقی دیکھئے کہ آپ ایک دیہاتی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور آپ نے اپنی پاکیزہ دعاؤں سے اسے نوازا۔ سچ ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5656
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7470
7470. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دیہاتی کی بیمار پرسی کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اس سے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ بیماری تمہارے لیے پاکیزگی کا باعث ہوگی۔“ دیہاتی نے کہا: بلکہ یہ تو وہ بخار ہے جو ایک بوڑھے پر جوش مار رہا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر چھوڑے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تب ایسا ہی ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7470]
حدیث حاشیہ: طبرانی کی روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب تو ہماری بات نہیں مانتا تو جیسا کہ تو سمجھتا ہے ویسا ہی ہوگا اور اللہ کا حکم پورا ہو کر رہےگا۔ پھر دوسرے دن شام بھی نہیں ہونے پائی کہ وہ دنیا سے گزر گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7470
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3616
3616. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی(دیہاتی)کی عبادت کے لیے تشریف لے گئے۔ نبی ﷺ کی عادت مبارک تھی کہ جب کسی مریض کی بیمارپرسی کرتے تو اس طرح دعا کرتے: ” لا بأس طهور إن شاء الله کوئی حرج نہیں، إن شاء اللہ پاکیزگی کا باعث ہوگا۔“ لہٰذا آپ نے اس اعرابی سے بھی یہی کہا: ”کوئی حرج نہیں، اگر اللہ نے چاہا تو یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہوگا۔“ اس نے کہا: آپ کہتے ہیں کہ یہ بیماری گناہوں سے پاک کردےگی؟ ہر گز نہیں، بلکہ یہ تو ایک سخت بخار ہے جو ایک بوڑھے کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اور اسے قبر میں لے جائے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، اب ایسا ہی ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3616]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس اعرابی نے رسول اللہ ﷺ کی بات کو مسترد کرتے ہوئے کہا: یہ بخار تو اسے قبر تک پہنچائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں اب ایسا ہی ہو گا“ چنانچہ آپ کے ارشاد کے مطابق وہ اسی بخارسے فوت ہو گیا۔ امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ایک دوسری روایت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ اعرابی دوسرے دن مر گیا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ "(المعجم الکبیر للطبراني: 306/7) 2۔ رسول اللہ ﷺ کا معجزہ اور نبوت کی دلیل ہے کہ جیسا آپ نے فرمایا ویسا ہی ہوا۔ 3۔ اس اعرابی کا نام قیس تھا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3616
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5656
5656. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ایک اعرابی کے پاس اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ انہوں نے فرمایا: ”اور نبی ﷺ جب کسی مریض کے ہاں اس کی عیادت کے لےجاتے تو اس سے کہتے: فکر کی کوئی بات نہیں، یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے إن شاء اللہ۔“ اس اعرابی نے کہا: آپ کہتے ہیں: یہ پاک کرنے والی ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ تو بخار ہے جو ایک بوڑھے پر غالب آ گیا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر رہے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”پھر ایسا ہی ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5656]
حدیث حاشیہ: (1) چونکہ وہ دیہاتی معاشرتی آداب سے نا واقف تھا، اس لیے اس نے جو جواب دیا اس کے اکھڑ مزاج ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تیرا یہی گمان ہے تو عنقریب پورا ہو جائے گا۔ “ چنانچہ بعض احادیث میں صراحت ہے کہ وہ اگلے دن صبح کو چل بسا۔ (فتح الباري: 148/10)(2) شارح صحیح بخاری مہلب نے کہا ہے: امام کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خبر گیری کرتا رہے اور بیمار پرسی میں کوتاہی نہ کرے اگرچہ وہ سنگدل ہوں۔ اس میں اہل خانہ کی خاطر داری اور حوصلہ افزائی بھی ہے۔ اسی طرح عالم کو چاہیے کہ وہ جاہل کی عیادت کرے اور اسے وعظ و نصیحت کرے جس سے اسے نفع حاصل ہو، نیز اسے صبر کی تلقین کرے تاکہ وہ بیماری کو برا خیال نہ کرے۔ ایسا نہ ہو کہ اس کے نازیبا کلمات کہنے سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے۔ بیمار کو بھی چاہیے کہ وہ گھبراہٹ میں ایسے کلمات نہ کہے جس سے اس کی بے صبری ظاہر ہو۔ (عمدة القاري: 652/14)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5656
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7470
7470. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دیہاتی کی بیمار پرسی کرنے کے لیے تشریف لے گئے تو آپ نے اس سے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ بیماری تمہارے لیے پاکیزگی کا باعث ہوگی۔“ دیہاتی نے کہا: بلکہ یہ تو وہ بخار ہے جو ایک بوڑھے پر جوش مار رہا ہے اور اسے قبر تک پہنچا کر چھوڑے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہاں تب ایسا ہی ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7470]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے حوالے سے بتایا کہ یہ بیماری تجھے گناہوں سے پاک کر دے گی۔ لیکن اس دیہاتی نے اسے بعید خیال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تجھے ہماری بات پر یقین نہیں ہے تو ویسے ہی ہوگا جیسا تو خیال کرتا ہے تیرے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ “ چنانچہ دوسرے دن شام بھی نہ ہونے پائی تھی کہ وہ دنیا سے چل بسا۔ (المعجم الکبیر للطبراني: 306/7) رقم 7213 وفتح الباري: 763/6) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دنیا میں مصائب و آلام گناہوں کے لیے کفارہ ہیں لیکن یہ سب اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہوتا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ انتہائی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے فضل و کرم کی دعا کرے۔ تمام معاملات اسی کے ہاتھ میں ہیں وہ اپنی مرضی اور مشیت کے مطابق ان میں تصرف کرتا ہے تمام انسان اس کے محتاج اور غلام ہیں۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7470