مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5647
5647. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کی بیماری میں حاضر خدمت ہوا جبکہ آپ کو سخت تیز بخار تھا۔ میں نے آپ سے عرض کی: بلاشبہ آپ کو بہت سخت بخار ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو سخت تیز بخار اس لیے ہے کہ آپ کو دو گنا ثواب ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ”درست ہے، جب کوئی مسلمان کسی بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس وجہ سے اس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5647]
حدیث حاشیہ:
اور نیک لوگوں کے درجات بلند ہوتے ہیں اللہ پاک مجھ کو اور جملہ قارئین بخاری شریف کو بوقت نزع آسانی عطا کرے اور خاتمہ بالخیر نصیب ہو۔
یا اللہ میری بھی یہی دعا ہے۔
رَبِّ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ آمین اللھم ألحقني بالرفیق الأعلیٰ برحمتك یا أرحم الراحمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5647
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5648
5648. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کو سخت بخار تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو بہت تیز بخار ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں مجھے تنہا اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔“ میں نے کہا: یہ اس لیے کہ آپ کو ثواب بھی دہرا ہوتا ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں یہی بات ہے۔ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ کانٹا ہو یا اسے سے کم اس کے باعث اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5648]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس طرح پر نکلا کہ اور پیغمبروں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کیا اور جب پیغمبروں پر بوجہ ازدیاد قرب الٰہی کے مصائب زیادہ ہوئے تو اولیاءاللہ میں بھی یہی نسبت رہے گی جتنا قرب الٰہی زیادہ ہوگا تکالیف و مصائب زیادہ آئیں گی حضرت امام بخاری کا یہ قائم کردہ ترجمہ خود ایک حدیث ہے جسے دارمی نے نکالا ہے حافظ صاحب فرماتے ہیں ''و في ھذہ الأحادیث بشارة عظیمة لکل مؤمن لأن الآدمي لا ینفك غالباً من ألم بسبب مرض أوھم أو نحو ذالك مما ذکر'' یعنی ان احادیث میں مومنوں کے لیے بڑی بشارتیں ہیں اس لیے کہ تکالیف و مصائب اور امراض دنیا میں اہل ایمان کو پہنچتے رہتے ہیں مگر اللہ پاک ان سب پر ان کو اجر و ثواب اور درجات عالیہ عطا کرتا ہے۔
راقم الحروف محمد راز کی زندگی بھی بیشتر آلام و تفکرات میں ہی گزر ی ہے اور امید قوی ہے کہ ان سب کا اجر کفارہ ذنوب ہوگا۔
و کذا أرجو من رحمة ربي آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5648
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5660
5660. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ سخت بیمار تھے میں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک کو چھوا تو عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار آتا ہے۔“ میں نے عرض کی: یہ اس لیے ہے کہ آپ کو دو گناہ اجر ملے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں ایسا ہی ہے۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کسی بھی مسلمان کو مرض وغیرہ کی اذیت پہنچے تو اللہ تعالٰی اس کے گناہ اس طرح گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5660]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ مصیبت پہنچنے سے بیماریوں میں مبتلا ہونے اور آفتوں کے آنے سے انسان کے گناہ دور ہوتے ہیں اگر انسان صبر و شکر کے ساتھ ساری تکالیف سہ لیتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5660
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5647
5647. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کی بیماری میں حاضر خدمت ہوا جبکہ آپ کو سخت تیز بخار تھا۔ میں نے آپ سے عرض کی: بلاشبہ آپ کو بہت سخت بخار ہے۔ میں نے یہ بھی کہا کہ آپ کو سخت تیز بخار اس لیے ہے کہ آپ کو دو گنا ثواب ہو گا۔ آپ نے فرمایا: ”درست ہے، جب کوئی مسلمان کسی بھی تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس وجہ سے اس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5647]
حدیث حاشیہ:
حضرات انبیاء علیہم السلام سخت مصائب و تکالیف سے دوچار ہوئے ہیں کیونکہ مصیبت نعمت کے مقابلے میں ہوتی ہے۔
جس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں زیادہ ہوں اس پر مصائب بھی زیادہ آتے ہیں۔
جب بیماری سخت ہو جائے تو اجر بھی دو گنا ہو جاتا ہے حتی کہ بندۂ مومن سے بیماری کی وجہ سے تمام گناہ جھڑ جاتے ہیں اور وہ گناہوں سے پاک صاف ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مجھے دو آدمیوں جتنا بخار ہوا ہے۔
“ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کی:
پھر آپ کو اجر بھی دو آدمیوں جتنا ملے گا؟ آپ نے فرمایا:
”ہاں۔
“ (صحیح البخاري، المرضیٰ، حدیث: 5648، 5667)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5647
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5648
5648. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ کو سخت بخار تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کو بہت تیز بخار ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں مجھے تنہا اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔“ میں نے کہا: یہ اس لیے کہ آپ کو ثواب بھی دہرا ہوتا ہے آپ نے فرمایا: ”ہاں یہی بات ہے۔ مسلمان کو جو بھی تکلیف پہنچتی ہے وہ کانٹا ہو یا اسے سے کم اس کے باعث اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو ایسے ختم کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتوں کو گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5648]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے دیگر انبیاء علیہم السلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کیا۔
جب پیغمبروں کو قرب الٰہی کے زیادہ ہونے کے باعث سنگین مصائب و آلام سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو اولیاء اللہ میں بھی یہی نسبت ہو گی، یعنی جتنا قرب الٰہی زیادہ ہو گا اتنی ہی تکالیف زیادہ ہوں گی۔
(2)
بہرحال ان احادیث میں اہل ایمان کے لیے بڑی بشارت ہے، اس لیے تکالیف و مصائب اور امراض دنیا میں اہل ایمان کو پہنچتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ ان کے مقابلے میں انہیں بہت زیادہ اجرو ثواب اور اونچے درجات عطا فرماتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5648
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5660
5660. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ سخت بیمار تھے میں نے اپنے ہاتھ سے رسول اللہ ﷺ کے جسم مبارک کو چھوا تو عرض کی: اللہ کے رسول! بلاشبہ آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں مجھے تم میں سے دو آدمیوں کے برابر بخار آتا ہے۔“ میں نے عرض کی: یہ اس لیے ہے کہ آپ کو دو گناہ اجر ملے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں ایسا ہی ہے۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”کسی بھی مسلمان کو مرض وغیرہ کی اذیت پہنچے تو اللہ تعالٰی اس کے گناہ اس طرح گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5660]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک کو ہاتھ لگایا تو پتا چلا کہ بہت تیز بخار ہے۔
عنوان سے یہی مطابقت ہے۔
(2)
بہرحال بیماری آنے، مصیبت میں مبتلا ہونے اور آفتوں میں گرفتار ہونے سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں بشرطیکہ انسان صبر و شکر سے کام لے اور زبان پر اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی حرف شکایت نہ لائے۔
اس سے نہ صرف گناہ معاف ہوتے ہیں بلکہ انسان کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5660
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5667
5667. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ کو تیز بخار تھا میں نے آپ کے بدن کو چھوتے ہوئے کہا: آپ کو تو بہت تیز بخار ہے۔ آپ نے فرمایا: ”ہاں جیسے تم میں سے دو آدمیوں کو بخار ہوتا ہے۔“ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا: اس سے آپ کو ثواب بھی دو گناہ ہوگا؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، جب بھی کسی مسلمان کو بیماری یا اس کے علاوہ کوئی تکلیف لاحق ہو تو وہ اس کے تمام گناہ گرا دیتی ہے جس طرح درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5667]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے سامنے بخار کی شدت کا ذکر کیا، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر رضا مندی کا ہی ایک انداز تھا۔
(2)
دراصل حرف شکایت کا تعلق نیت و ارادے سے ہے۔
بہت سے خاموش رہنے والے بیماری آنے کے بعد دل میں کڑھتے رہتے ہیں جو معیوب ہے اور بہت سے زبان سے اظہار کرنے والے دل سے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو تسلیم کر لیتے ہیں اور یہ معیوب نہیں ہے۔
بہرحال اس کا دارومدار زبان سے اظہار پر نہیں بلکہ دل کے فعل پر ہے۔
(فتح الباري: 158/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5667