ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ (عشاء) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے «ومن بعد صلاة العشاء»(میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «عتمه» کو دیر سے پڑھا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ” عشاء “ پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: Q564]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q564
� تشریح: امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیا ہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاء سے ہی موسوم کیا جائے۔ اس پر بھی اگر کسی نے لفظ «عتمه» اس کے لیے استعمال کر لیا تو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کرام کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کر رکھی تھی۔ جو بھی حاضر دربار رسالت ہوتا، دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ ان سے حالات معلوم کر لیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کر لی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ «اعتم» استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نماز کو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 564
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے یہ کہا کہ مجھے (میرے باپ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہی جسے لوگ «عتمه» کہتے ہیں۔ پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس رات کو یاد رکھنا۔ آج جو لوگ زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/حدیث: 564]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 564
� تشریح: یعنی سو برس میں جتنے لوگ آج زندہ ہیں سب مر جائیں گے۔ اور نئی نسل ظہور میں آتی رہے گی۔ سب سے آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ ہیں۔ جن کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حضرت خضر علیہ السلام کی وفات پر بھی دلیل پکڑی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 564
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:564
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عشاء کہ لیے لفظ"عتمة" بولا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، جبکہ مغرب پر لفظ "عشاء" درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسا ثابت نہیں۔ عشاء کوعتمہ کہنے کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ تو عتمہ کہنے والوں پرناراض ہوتے تھے، جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے جواز منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس اطلاق کو خلاف اولیٰ قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔ (فتح الباري: 60/2)(2) رسول اللہ ﷺ سے نماز عشاء کوعتمہ کہنے کی نہی وارد ہے جبکہ بعض اوقات اس لفظ کو نماز عشاء کےلیے استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اس کے درمیان تطبیق کی دوصورتیں ہیں: ٭نہی تحریم کےلیے نہیں بلکہ تنزیہ کےلیے ہے اور لفظ عتمہ کو عشاء کےلیے استعمال کرنا جائز ہے۔ ٭لفظ عتمہ ان لوگوں کےسامنے بولا گیا جو عشاء کے نام کو نہیں جانتے تھے اور ان کے ہاں یہ زیادہ مشہور نہ تھا، یعنی عشاء کےلیے عتمہ کا استعمال بطور نام نہیں بلکہ تعارف کے لیے استعمال کیا گیا۔ (شرح النووي: 208/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 564
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 601
´مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے` «. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فِي آخِرِ حَيَاتِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَرَأَيْتَكُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةٍ لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ، فَوَهِلَ النَّاسُ فِي مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَا يَتَحَدَّثُونَ مِنْ هَذِهِ الْأَحَادِيثِ عَنْ مِائَةِ سَنَةٍ، وَإِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ، يُرِيدُ بِذَلِكَ أَنَّهَا تَخْرِمُ ذَلِكَ الْقَرْنَ " . . . .» ”. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھی اپنی زندگی کے آخری زمانے میں۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اس رات کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے؟ آج اس روئے زمین پر جتنے انسان زندہ ہیں۔ سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سمجھنے میں غلطی کی اور مختلف باتیں کرنے لگے۔ (ابومسعود رضی اللہ عنہ نے یہ سمجھا کہ سو برس بعد قیامت آئے گی) حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ آج (اس گفتگو کے وقت) زمین پر بستے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آج سے ایک صدی بعد باقی نہیں رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تھا کہ سو برس میں یہ قرن گزر جائے گا۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ السَّمَرِ فِي الْفِقْهِ وَالْخَيْرِ بَعْدَ الْعِشَاءِ:: 601]
تشریح: سب سے آخر میں انتقال کرنے والے صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ اور ان کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے ٹھیک سو سال بعد۔ کچھ لوگوں نے اس حدیث کو سن کر یہ سمجھ لیا تھا کہ سو سال بعد قیامت آ جائے گی۔ حدیث نبوی کا منشاء یہ نہ تھا بلکہ صرف یہ تھا کہ سو برس گزرنے پر ایک دوسری نسل وجود میں آ گئی ہو گی۔ اور موجودہ نسل ختم ہو چکی ہوگی۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 601
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4348
´قیامت آنے کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تمہیں پتا ہے، آج کی رات کے سو سال بعد اس وقت جتنے آدمی اس روئے زمین پر ہیں ان میں سے کوئی بھی (زندہ) باقی نہیں رہے گا“ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سو سال کے بعد کے متعلق احادیث بیان کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ سو برس بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ آج روئے زمین پر جتنے لوگ زندہ ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4348]
فوائد ومسائل: 1۔ فی الواقع اصحابِ نبی میں سے کو ئی شخص ایک صدی سے آگے نہیں بڑھا سبھی وفات پا گئے تھے۔ ۔ ۔ ۔ تو اس کے بعد صحابیت کا دعوٰی کرنے والے کا دعوٰی غلط محض ہوا، جیسے کہ رتن ہندی کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ اس نے پانچ سو سال بعد صحابی ہونے کا دعوٰٰ ی کیا تھا۔
2۔ اس حدیث کی روشنی میں جنابِ خضر کے متعلق بھی استدلال لیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات پا گئے ہیں، مگر ان کے بالمقابل دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس مو قعے پر زمین پر موجود ہی نہ تھے اس لیئے کہ حیاتِ خضر پر کو ئی مستند دلیل نہیں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4348
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6479
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبا رکہ کے آخری حصے میں ایک را ت ہمیں عشاء کی ن ز پڑھا ئی،جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلا م پھیرا تو کھڑے ہو گئے تو فر یا:" کیا تم لوگوں نے اپنی اس را ت کو دیکھا ہے؟(اسے یا د رکھو)بلا شبہ اس رات سے سو سال کے بعد جو لو گ (اس را ت میں) روئے زمین پر مو جودہیں ان میں سے کو ئی بھی باقی نہیں ہو گا۔"حضرت عمر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6479]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مقصد تھا کہ زمینی مخلوق میں سے، آج رات جو لوگ زندہ موجود ہیں، سو سال بعد ان میں سے کوئی زندہ نہیں رہے گا اور یہ بات آپ نے اپنی زندگی کے آخری مہینہ میں 11ھ میں فرمائی تھی اور آخری صحابی حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ تک زندہ رہے ہیں، اس کے بعد آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی آدمی زندہ نہیں رہا، لیکن بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ سمجھ لیا کہ سو سال بعد قیامت قائم ہو جائے گی اور حضرت ابن عمر انہیں لوگوں کی تردید کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اس رات کے بعد پیدا ہونے والے اس کا مصداق نہیں ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6479
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:601
601. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد نبی ﷺ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ”تم اس رات کی اہمیت کو جانتے ہو؟ آج کی رات سے سو برس بعد کوئی شخص جو اب زمین پر موجودہے، زندہ نہیں رہے گا۔“ لوگ نبی ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے پریشان ہونے لگے اور سو برس کی وضاحت کرنے میں دوسری باتوں کی طرف خیال دوڑانا شروع کر دیا، حالانکہ نبی ﷺ کے اس فرمان: ”جو آج روئے زمین پر زندہ ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔“ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ سو برس تک یہ صدی ختم ہو جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:601]
حدیث حاشیہ: امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے صرف یہ مقصود ہے کہ علمی مذاکرات کو سمر بعد العشاء کے تحت نہ سمجھا جائے بلکہ ایسی مجالس کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دعوتی اجتماعات رات گئے تک جاری رہیں۔ پوری پوری رات وعظ و ارشاد کی مجالس میں لگا دینا کوئی خدمت دین نہیں۔ اس حدیث کے تحت حیاتِ خضر کا مسئلہ بھی آتا ہے، چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اس کے متعلق تفصیلی گفتگو آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ وبالله التوفيق.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 601