�
تشریح: روایت مذکور میں ظہر کی نماز کو نماز اولیٰ اس لیے کہا گیا ہے کہ جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اوقات نماز کی تعلیم دینے کے لیے حضرت جبریل علیہ السلام تشریف لائے تھے تو انھوں نے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر کی نماز ہی پڑھائی تھی۔ اس لیے راویان احادیث اوقات نماز کے بیان میں ظہر کی نماز ہی سے شروع کرتے ہیں۔ اس روایت اور دوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوّل وقت ایک مثل سایہ ہو جانے پر ہی ادا فرمایا کرتے تھے۔ اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ بعض روایتوں میں اسے
«والشمس مرتفعة حية» سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابھی سورج کافی بلند اور خوب تیز ہوا کرتا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایاکہ
”عصر کے وقت دھوپ میرے حجرہ ہی میں رہتی تھی۔
“ کسی روایت میں یوں مذکور ہوا ہے کہ
”نماز عصر کے بعد لوگ اطراف مدینہ میں چار چار میل تک کا سفر کر جاتے اور پھر بھی سورج رہتا تھا۔
“ ان جملہ روایات کا واضح مطلب یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عصر کی نماز اوّل وقت ایک مثل سایہ ہونے پر ادا کر لی جاتی تھی۔ اس لیے بھی کہ عصر ہی کی نماز صلوٰۃ الوسطیٰ ہے جس کی حفاظت کرنے کا اللہ نے خاص حکم صادر فرمایاہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے:
«حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ» [2-البقرة:238] یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیانی نماز کی خاص حفاظت کرو
(جو عصر کی نماز ہے) اور اللہ کے لیے فرمانبردار بندے بن کر
(باوفا غلاموں کی طرح مؤدب) کھڑے ہو جایا کرو۔
ان ہی احادیث و آیات کی بنا پر عصر کا اول وقت ایک مثل سایہ ہونے پر مقرر ہوا ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ و دیگر اکابر علمائے اسلام اور ائمہ کرام کا یہی مسلک ہے۔ مگر محترم علمائے احناف عصر کی نماز کے لیے اول وقت کے قائل نہیں ہیں۔ اور مذکورہ احادیث کی تاویلات کرنے میں ان کو بڑی کاوش کرنی پڑی ہے۔
ولے تاویل شاں در حیرت انداخت . . . خدا و جبرئیل و مصطفی را
عجیب کاوش: یہ عجیب کاوش ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بیان پر جس میں ذکر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے کہ دھوپ میرے حجرہ سے باہر نہیں نکلتی تھی جس کا مطلب واضح ہے کہ سورج بہت کافی بلند ہوتا تھا۔ مگر بعض علمائے احناف نے عجیب بیان دیا ہے جو یہ ہے کہ:
”ازواجِ مطہرات کے حجروں کی دیواریں بہت چھوٹی تھیں۔ اس لیے غروب سے پہلے کچھ نہ کچھ دھوپ حجرہ میں باقی رہتی تھی۔ اس لیے اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں دھوپ رہتی تھی تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سویرے ہی پڑھ لیتے تھے۔“ [تفہیم البخاری، پ 3، ص: 18]
حمایت مسلک کا خبط ایسا ہوتا ہے کہ انسان قائل کے قول کی ایسی توجیہ کر جاتا ہے، جو قائل کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔ سوچنا یہاں یہ تھا کہ بیان کرنے والی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہیں، جن کا ہر لحاظ سے امت میں ایک خصوصی مقام ہے۔ ان کا اس بیان سے اصل منشاءکیا ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر کا اوّل وقت ان لفظوں میں بیان فرما رہی ہیں یا آخر وقت کے لیے یہ بیان دے رہی ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بیان میں ادنیٰ غور وتامل سے ظاہر ہو جائے گا کہ ہمارے محترم صاحب تفہیم البخاری کی یہ کاوش بالکل غیر مفید ہے۔ اور اس بیان صدیقہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلاشک و شبہ عصر کی نماز اوّل وقت ہی میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ جیسا کہ حرمین شریفین کا معمول آج بھی دنیائے اسلام کے سامنے ہے۔ خود ہمارے وطن کے ہزاروں حاجی حرمین شریفین ہر سال جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہاں عصر کی نماز کتنے اول وقت پر ادا کی جاتی ہے۔
صاحب تفہیم البخاری نے اس بیان سے ایک سطر قبل خود ہی اقرار فرمایا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی اوّل وقت ہی میں پڑھتے تھے۔“ حوالہ مذکور
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد کیا ضرورت تھی کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے بیان کا سہارا لے کر حضرت صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ایسی رکیک تاویل کی جائے کہ دیکھنے اور پڑھنے والوں کے لیے وجہ حیرت بن جائے۔ حجرات نبوی کی دیواریں چھوٹی ہوں یا بڑی اس سے بحث نہیں مگر یہ تو ایک امر مسلمہ ہے کہ سورج جس قدر اونچا رہتا ہے حجرات نبوی میں دھوپ باقی رہتی اور جوں جوں سورج غروب ہونے کو جاتا وہ دھوپ بھی حجروں سے باہر نکل جاتی تھی۔ پھر دوسری روایات میں مزید وضاحت کے لیے یہ صریح الفاظ موجود ہیں کہ سورج بلند اور خوب روشن رہا کرتا تھا، ان الفاظ نے امام طحاوی کی پیش کردہ توجیہ کو ختم کر کے رکھ دیا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ تقلید شخصی کی بیماری سے سوچنے اور سمجھنے کی طاقت روبہ زوال ہو جاتی ہے اور یہاں بھی یہی ماجرا ہے۔