مجھ سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے اور ابوسفیان نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے بیان کیا کہ جمعہ کے دن سامان تجارت لیے ہوئے اونٹ آئے ہم اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے انہیں دیکھ کر سوائے بارہ آدمی کے سب لوگ ادھر ہی دوڑ پڑے۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها» الایۃ یعنی اور بعض لوگوں نے جب کبھی ایک سودے یا تماشے کی چیز کو دیکھا تو اس کی طرف دوڑے ہوئے پھیل گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4899]
نصلي مع النبي إذ أقبلت عير تحمل طعاما فالتفتوا إليها حتى ما بقي مع النبي إلا اثنا عشر رجلا فنزلت هذه الآية وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما
كان يخطب قائما يوم الجمعة فجاءت عير من الشام فانفتل الناس إليها حتى لم يبق إلا اثنا عشر رجلا فأنزلت هذه الآية التي في الجمعة وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما
قدمت عير إلى المدينة فابتدرها أصحاب رسول الله حتى لم يبق معه إلا اثنا عشر رجلا فيهم أبو بكر وعمر قال ونزلت هذه الآية وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها
قدمت عير المدينة فابتدرها أصحاب رسول الله حتى لم يبق منهم إلا اثنا عشر رجلا فيهم أبو بكر وعمر ونزلت الآية وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4899
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نماز میں مصروف تھے کہ شام کے علاقے سے ایک تجارتی قافلہ لے آیا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2058) ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان بارہ آدمیوں میں سے تھے جو آپ کا خطبہ سننے میں مصروف رہے۔ (جامع الترمذي، تفسیر القرآن، حدیث: 3311) ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خطبہ سننے والوں میں باقی رہے۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1999۔ (863) 2۔ ان آیات میں مسلمانوں پر اظہار ناراضی کیا گیا ہے کہ یہ قافلے والےکوئی تمھارے رازق تو نہیں تھے کہ تم خطبہ چھوڑ کر اس کے پیچھے بھاگ نکلے۔ رزق کے اسباب مہیا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا آئندہ تمھیں ایسی باتوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ 3۔ ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام کو کھڑے ہو کر خطبہ دینا چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زندگی بھر یہی معمول رہا چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے پھر بیٹھ جا تے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھتے جو تمھیں یہ بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر خطبہ دیا اس نے جھوٹ بولا۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 1996۔ (862)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4899
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3311
´سورۃ الجمعہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے خطبہ دے رہے تھے، مدینہ کا (تجارتی) قافلہ آ گیا، (یہ سن کر) صحابہ بھی (خطبہ چھوڑ کر) ادھر ہی لپک لیے، صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے جن میں ابوبکر و عمر رضی الله عنہما بھی تھے، اسی موقع پر آیت «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما»”اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے“(۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3311]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشہ نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ(ﷺ) کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ بہترین روزی رساں ہے (الجمعة: 11)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3311
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2000
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ اس اثنا میں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غلہ کا قافلہ مدینہ آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس کی طرف لپکے حتی کہ آپﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ ان میں ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اور عمر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بھی موجود تھے، اور یہ آیت اتری: ”اور جب انھوں نے تجارت یا مشغلہ دیکھا، اس کی طرف دوڑ گئے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2000]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان احادیث میں ابتدائی دور کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے جبکہ مدینہ میں غلہ کی قلت تھی اچانک جمعہ کے دوران ایک غلہ کا قافلہ پہنچا ضرورت کی بنا پر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین غلہ خریدنے کے لیے چلے گئے کہ تاخیر کی بنا پر ہم کہیں محروم نہ رہ جائیں۔ اور بعض مرسل روایات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک جمعہ کا خطبہ نماز جمعہ کے بعد ہوتا تھا۔ نیز صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ خیال کیا کہ ہم جلد ہی غلہ کی خریداری سے فارغ ہو کر واپس آ جاتے ہیں تو دونوں کام ہوجائیں گے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف تنبیہ اتری تو آئندہ کے لیے وہ حضرات محتاط ہو گئے اور پھر کبھی یہ واقعہ پیش نہیں آیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے ہر کام اور ہر مشغلہ پر نماز کو ترجیح دی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2000
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 936
936. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑح رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ آیا جن کے ساتھ اونٹوں پر غلہ لدا ہوا تھا۔ لوگ اس قافلے کی طرف دوڑ پڑے حتی کہ نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اور جب وہ (لوگ) تجارت کا مال یا کھیل کود کا سامان دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:936]
حدیث حاشیہ: ایک مرتبہ مدینہ میں غلہ کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر مدینہ آیا، اس کی خبر سن کر کچھ لوگ جمعہ کے دن عین خطبہ کی حالت میں باہر نکل گئے، اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ حضرت امام ؒ نے اس واقعہ سے یہ ثابت فرمایا کہ احناف اور شوافع جمعہ کی صحت کے لیے جو خاص قید لگا تے ہیں وہ صحیح نہیں ہے، اتنی تعداد ضرور ہو جسے جماعت کہا جا سکے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ سے اکثر لوگ چلے گئے پھر بھی آپ نے نمازجمعہ ادا فرمائی۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ صحابہ کی شان خود قرآن میں یوں ہے ﴿رِجَال لَا تُلھِیھِم تِجَارَة الخ﴾(النور: 37) یعنی میرے بندے تجارت وغیرہ میں غافل ہو کر میری یاد کبھی نہیں چھوڑدیتے۔ سوا س کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نزول سے پہلے کا ہے بعد میں وہ حضرات اپنے کاموں سے رک گئے اور صحیح معنوں میں اس آیت کے مصداق بن گئے تھے۔ رضي اللہ عنهم وأرضاهم (آمین)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 936
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2058
2058. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ آیا جو غلہ لادے ہوئے تھا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی: ”جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2058]
حدیث حاشیہ: ہوا یہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ میں غلہ کا قحط تھا۔ لوگ بہت بھوکے اور پریشان تھے۔ شام سے جو غلہ کا قافلہ آیا تو لوگ بے اختیار ہو کر اس کو دیکھنے چل دیئے، صرف بارہ صحابہ یعنی عشرہ مبشرہ اور بلال اور ابن مسعود ؓ آپ ﷺ کے پاس ٹھہرے رہے۔ صحابہ کرام ؓ کچھ معصوم نہ تھے بشر تھے۔ ان سے یہ خطا ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عتاب فرمایا۔ شاید اس وقت تک ان کو یہ معلوم نہ رہاہوگا کہ خطبہ میں سے اٹھ کر جانا منع ہے۔ امام بخاری ؒ اس باب کو اس لیے یہاں لائے کہ بیع اور شراء، تجارت اور سوداگری گو عمدہ اور مباح چیز یں ہیں مگر جب عبادت میں ان کی وجہ سے خلل ہو تو ان کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ مقصد بھی ہے کہ جس تجارت سے یادالٰہی میں فرق آئے مسلمان کے لیے وہ تجارت بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یاد الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ مشغولیات عارضی ہیں۔ جن کا محض بقائے حیات کے لیے انجام دینا ضروری ہے ورنہ مقصد وحید صرف یاد الٰہی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2058
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:936
936. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ہم نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑح رہے تھے کہ اچانک ایک تجارتی قافلہ آیا جن کے ساتھ اونٹوں پر غلہ لدا ہوا تھا۔ لوگ اس قافلے کی طرف دوڑ پڑے حتی کہ نبی ﷺ کے ہمراہ صرف بارہ آدمی رہ گئے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: ”اور جب وہ (لوگ) تجارت کا مال یا کھیل کود کا سامان دیکھتے ہیں تو آپ کو کھڑا چھوڑ کر اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:936]
حدیث حاشیہ: (1) ایک مرتبہ مدینہ منورہ میں غلے کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر شام سے مدینے آیا۔ اس کی خبر سن کر کچھ لوگ عین خطبے کی حالت میں باہر چلے گئے، اس پر مذکورہ آیتِ جمعہ نازل ہوئی۔ امام بخاری ؒ نے اس واقعے سے یہ ثابت کیا ہے کہ کچھ فقہاء جمعہ کی صحت کے لیے مخصوص تعداد کی شرط لگاتے ہیں وہ صحیح نہیں۔ بس اتنی تعداد ضروری ہے جسے جماعت کہا جا سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اکثر لوگ چلے گئے لیکن آپ نے پھر بھی نماز جمعہ ادا فرمائی۔ (2) واضح رہے کہ لوگ بحالت خطبہ آپ کو چھوڑ کر گئے تھے کیونکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے اس آیت کریمہ سے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کو ثابت کیا ہے جیسا کہ حضرت ابن مسعود اور حضرت کعب بن عجرہ ؓ سے مروی ہے۔ روایات میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ یہاں پر ایک اعتراض ہوتا ہے کہ صحابۂ کرام کی شان قرآن کریم نے بایں الفاظ بیان کی ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جنہیں تجارت وغیرہ اللہ کے ذکر اور نماز کے قیام سے غافل نہیں کرتی۔ (النور37: 24) اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ واقعہ آیت کے نزول سے پہلے کا ہے۔ اس کے بعد یہ حضرات اس سے رک گئے، پھر صحیح معنوں میں آیت کا مصداق بن گئے۔ (فتح الباري: 547/2)(3) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی باقی رہ گئے تھے، جن میں ابوبکرؓ اورعمر بھی تھے، نیز ان میں حضرت جابر، حضرت سالم مولی ابن حذیفہ، حضرت بلال، حضرت عبداللہ بن مسعود اور کچھ انصاری لوگ بھی تھے۔ ۔ ۔ رضی اللہ عنہم۔ ۔ ۔ بعض روایات میں عشرۂ مبشرہ کے نام ملتے ہیں۔ (فتح الباري: 546/2) واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 936
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2058
2058. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھ رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ آیا جو غلہ لادے ہوئے تھا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی باقی نہ رہا تو یہ آیت نازل ہوئی: ”جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2058]
حدیث حاشیہ: (1) دراصل مدنی دور کی ابتدائی زندگی معاشی اعتبار سے بھی مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن تھی۔ مہاجرین کی آباد کاری کے علاوہ کفار مکہ نے بھی اہل مدینہ کی معاشی ناکہ بندی کررکھی تھی۔ اس بنا پر غلہ کم یاب بھی تھا اور گرانی بھی بہت تھی۔ انھی ایام میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ خطبۂ جمعہ دے رہے تھے کہ شام سے غلے اور اناج کا ایک تجارتی قافلہ مدینہ طیبہ آپہنچا۔ انھوں نے اپنی آمد کی اطلاع طبلے بجا کردی۔ خطبہ سننے والے مسلمان بھی، محض اس خیال سے کہ اگر دیر سے گئے تو سارا غلہ بک جائے گا، خطبہ چھوڑ کر ادھر چلے گئے تو مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت کریمہ میں میٹھی زبان سے عتاب کیا گیا کہ قافلے والے تمھارے رازق تو نہ تھے، رزق کے اسباب مہیا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے، لہٰذا تمھیں آئندہ ایسی باتوں سے بچنا چاہیے۔ چونکہ نماز کا انتظار کرنے والا نماز میں شمار ہوتا ہے، اس لیے حدیث میں خطبے کی سماعت کرنے والوں کو نماز پڑھنے والے کہا گیا ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصود یہ ہے کہ تجارت اگرچہ اچھی چیز ہے کیونکہ اس کا تعلق کسب حلال سے ہے لیکن کبھی یہ مذموم بھی ہوجاتی ہے جب اس سے اہم اور ضروری چیز پر اسے مقدم کیا جائے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ لوگ آخر نماز تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہتے مگر وہ اس اہم اور ضروری امر کو چھوڑ کر تجارت کی طرف چلے گئے، اس لیے یہ تجارت ان کے لیے عتاب کا سبب بن گئی۔ پوری آیت کا ترجمہ اس طرح ہے: ”اور جب انھوں نے تجارت یا کھیل تماشا ہوتے دیکھا تو ادھر بھاگ گئے اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ کہہ دیجیے!جو اللہ کے پاس ہے وہ اس تماشے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ ہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ '“(الجمعة: 11: 62)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2058
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2064
2064. حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ نماز جمعہ ادا کررہے تھے کہ غلے کا ایک قافلہ آیا۔ لوگ اس کی طرف چل دیے حتیٰ کہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ مردوں کے علاوہ کوئی دوسرا شخص باقی نہ رہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: " جب انھوں نے کوئی تجارت یاکھیل تماشا دیکھا تو اس کی طرف دوڑ پڑے اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیا۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2064]
حدیث حاشیہ: (1) مذکورہ عنوان اور پیش کردہ حدیث پہلے گزرچکی ہے۔ (باب: 6 حدیث: 2058) اسی طرح آیت کریمہ اور حضرت قتادہ کا قول بھی پہلے بیان ہوچکا ہے۔ (2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے سہو قلم قرار دیا ہے۔ قرائن اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ عنوان اور حدیث مکرر ہے۔ (فتح الباری: 4/380) والله اعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2064