مجاہد نے کہا کہ «على أمة» کے معنی ایک امام پر یا ایک ملت پر یا ایک دین پر۔ «وقيله يا رب» کا معنی ہے کیا کافر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی آہستہ باتیں اور ان کی کانا پھوسی اور ان کی گفتگو نہیں سنتے (یہ تفسیر اس قرآت پر ہے جب «وقیله» بہ نصب لام پڑھا جائے۔ اس حالت میں «وسرهم ونجواهم» پر عطف ہو گا اور مشہور قرآت «وقیله» بہ کسر لام ہے۔ اس صورت میں یہ «الساعة» پر عطف ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ ان کی گفتگو بھی جانتا ہے اور سنتا ہے)۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «ولولا أن يكون الناس أمة واحدة» کا مطلب یہ ہے اگر یہ بات نہ ہوتی کہ سب لوگوں کو کافر ہی بنا ڈالتا تو میں کافروں کے گھروں میں چاندی کی چھتیں اور چاندی کی سیڑھیاں کر دیتا۔ «معارج» کے معنی سیڑھیاں، تخت وغیرہ۔ «مقرنين» زور والے۔ «آسفونا» ہم کو غصہ دلایا۔ «يعش» اندھا بن جائے۔ مجاہد نے کہا «أفنضرب عنكم الذكر» کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تم قرآن کو جھٹلاتے رہو گے اور ہم تم پر عذاب نہیں اتاریں گے (تم کو ضرور عذاب ہو گا)۔ «ومضى مثل الأولين» اگلوں کے قصے کہانیاں چل پڑیں۔ «وما کنا له مقرنين» یعنی اونٹ گھوڑے، خچر اور گدھوں پر ہمارا زور اور قابو نہ چل سکتا تھا۔ «ينشأ في الحلية» سے بیٹیاں مراد ہیں، یعنی تم نے بیٹی ذات کو اللہ کی اولاد ٹھہرایا، واہ واہ کیا اچھا حکم لگاتے ہو۔ «لو شاء الرحمن ما عبدناهم» میں «هم» کی ضمیر بتوں کی طرف پھرتی ہے کیونکہ آگے فرمایا «ما لهم بذلك من علم» یعنی بتوں کو جن کو یہ پوجتے ہیں کچھ بھی علم نہیں ہے وہ تو بالکل بے جان ہیں «في عقبه» اس کی اولاد میں۔ «مقترنين» ساتھ ساتھ چلتے ہوئے۔ «سلفا» سے مراد فرعون کی قوم ہے۔ وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کافر ہیں ان کے پیشوا یعنی اگلے لوگ تھے۔ «ومثلا للاخرین» یعنی پچھلوں کی عبرت اور مثال۔ «يصدون» چلانے لگے، شور و غل کرنے لگے۔ «مبرمون» ٹھاننے والے، قرار دینے والے۔ «أول العابدين» سب سے پہلے ایمان لانے والا۔ «إنني براء مما تعبدون» عرب لوگ کہتے ہیں ہم تم سے «براء» ہیں ہم تم سے «خلاء» ہیں یعنی بیزار ہیں، الگ ہیں، کچھ غرض واسطہ تم سے نہیں رکھتے۔ واحد، تثنیہ، جمع، مذکر و مؤنث سب میں «براء» کا لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ «براء» مصدر ہے۔ اور اگر «بريء» پڑھا جائے جیسے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرآت ہے تب تو تثنیہ میں «بريئان» اور جمع میں «بريئون» کہنا چاہئے۔ «الزخرف» کے معنی سونا۔ «ملائكة يخلفون» یعنی فرشتے جو ایک کے پیچھے ایک آتے رہتے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4819]
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے، ان سے عطاء نے، ان سے صفوان بن یعلیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیت پڑھتے سنا «ونادوا يا مالك ليقض علينا ربك»”اور یہ لوگ پکاریں گے کہ اے مالک! تمہارا پروردگار ہمارا کام ہی تمام کر دے۔“ اور قتادہ نے کہا «مثلا للآخرين» یعنی پچھلوں کے لیے نصیحت۔ دوسرے نے کہا «مقرنين» کا معنی قابو میں رکھنے والے۔ عرب لوگ کہتے ہیں فلانا فلانے کا «مقرن» ہے یعنی اس پر اختیار رکھتا ہے (اس کو قابو میں لایا ہے)۔ «أكواب» وہ کوزے جن میں ٹونٹی نہ ہو بلکہ منہ کھلا ہوا ہو جہاں سے آدمی چاہے پئے۔ «ان کان للرحمن ولد» کا معنی یہ ہے کہ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے۔ (اس صورت میں «ان نافيه» ہے) «عابدين» سے «آنفين» مراد ہے۔ یعنی سب سے پہلے میں اس سے «عار» کرتا ہوں۔ اس میں دو لغت ہیں «عابد وعبد» اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کو «وقال الرسول يا رب» پڑھا ہے۔ «أول العابدين» کے معنی سب سے پہلا انکار کرنے والا یعنی اگر خدا کی اولاد ثابت کرتے ہو تو میں اس کا سب سے پہلا انکاری ہوں۔ اس صورت میں «عابدين» باب «عبد يعبد.» سے آئے گا اور قتادہ نے کہا «في أم الكتاب» کا معنی یہ ہے کہ مجموعی کتاب اور اصل کتاب (یعنی لوح محفوظ میں)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4819]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4819
حدیث حاشیہ: 1- اہل دوزخ عذاب کی شدت میں کمی یا وقفے سے سخت مایوس ہو کر دوزخ کے مالک نامی فرشتے کو پکار کرکہیں گے۔ مالک! نہ ہمارے عذاب میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ کبھی اس کا وقفہ ہی بڑھتا ہے تو اپنے پرورد گار سے کہہ وہ ہمیں ایک ہی بار میں ڈالے اور یہ عذاب کا قصہ ہی ختم ہو۔ مالک کہے گا۔ تمھارے جرائم کی سزا کے لیے بہت طویل مدت درکار ہے، لہٰذا مرجانے کا تصور ذہن سے نکال دو۔ تمھیں زندہ رکھ کر سزا دی جا سکتی ہے۔ لہٰذا تمھیں یہیں رہنا ہو گا اور زندہ رہ کر ہی عذاب برداشت کرنا ہو گا۔ 2۔ جامع ترمذی میں امام اعمش کا قول نقل ہوا ہے کہ اہل جہنم کی پکارو دعا اور مالک کے جواب دینے میں ایک ہزار سال کا وقفہ ہو گا۔ (جامع الترمذي، صفة جھنم، حدیث: 2586)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4819
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3992
´باب:۔۔۔` یعلیٰ بن امیہ۔ منیہ۔ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر «ونادوا يا مالك»”اور پکار پکار کہیں گے اے مالک!“(سورۃ الزخرف: ۷۷) پڑھتے سنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی بغیر ترخیم کے۔ [سنن ابي داود/كتاب الحروف والقراءات /حدیث: 3992]
فوائد ومسائل: تفسیر روح المعانی (158/14) میں ہے کہ حضرت علی اور حضرت ابن مسعود اور ابن وثاب اور اعمش کی قراءت میں یہ لفط ترخیم کےساتھ یا مالُ پڑھا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3992
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 508
´منبر پر قرآن پڑھنے کا بیان۔` یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر پڑھتے سنا: «ونادوا يا مالك»۱؎”اور وہ پکار کر کہیں گے اے مالک!“[سنن ترمذي/كتاب الجمعة/حدیث: 508]
اردو حاشہ: 1؎: الزخرف: 77 (”مالک“ جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کو جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تو مل جائے، جواب ملے گا: یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہنا ہے) 2؎: صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ خطبہ جمعہ میں ”سورہ ق“ پوری پڑھا کرتے تھے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وعظ و نصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 508
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:805
805-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیات تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے: «وَنَادَوْا يَا مَالِكُ»(43-الزخرف:77)”اور وہ ندادیں گے: اے مالک!“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:805]
فائدہ: مالک جنم کا نگران ہے جہنمی اس سے بار بار درخواست کریں گے کہ آپ اپنے رب سے کہیں وہ ہمیں موت دے دے۔ وہ انھیں جواب دے گا کہ تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ (الزخرف: 77)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 805
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3230
3230. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہوے سنا ہے: ”وہ پکاریں گے: اےمالک! (پروردگار ہمارا کام تمام کردے تو اچھاہے)۔“(راوی حدیث) سفیان نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت میں یوں ہے: وَنَادَوْا يَا مَال [صحيح بخاري، حديث نمبر:3230]
حدیث حاشیہ: پوری آیت یوں ہے ﴿وَنَادَوْا يَا مَالِكُ لِيَقْضِ عَلَيْنَا رَبُّكَ قَالَ إِنَّكُمْ مَاكِثُونَ﴾(الزخرف: 77) یعنی ”دوزخمی داروغہ دوزخ مالک کو پکاریں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ وہ ہم کو موت دے دے وہ جواب دے گا کہ تم مرنے والے نہیں ہو، بلکہ سب ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رہو گے۔ “ اس سے بھی فرشتوں کا وجود اور ان کا مختلف خدمات پر مامور ہونا ثابت ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی قرات میں لفظ ونادوا یا مال یا مالك کا مخفف ہے۔ مطلب ہر دو کا ایک ہی ہے کہ دوزخمی دوزخ کے داروغہ مالک کو پکاریں گے۔ اس سے بھی فرشتوں کا وجود ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3230
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3230
3230. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو منبر پر یہ آیت پڑھتے ہوے سنا ہے: ”وہ پکاریں گے: اےمالک! (پروردگار ہمارا کام تمام کردے تو اچھاہے)۔“(راوی حدیث) سفیان نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کی قراءت میں یوں ہے: وَنَادَوْا يَا مَال [صحيح بخاري، حديث نمبر:3230]
حدیث حاشیہ: 1۔ جسے آواز دی جائے اسے منادیٰ کہتے ہیں۔ منادیٰ کے آخری حرف کو حذف کرنا ترخیم کہلاتا ہے۔ ترخیم کے بعد منادی کے اعراب کی دوصورتیں ہیں: اس کی ذاتی حرکت ہی کو مستقل کردیا جائے اور دوسری یہ ہے کہ آخری حرف کو مستقل قراردے کر اس پر رفع پڑھا جائے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے لفظ مالک کو ترخیم سے پڑھا ہے۔ اب اس لفظ کو پڑھنے کی تین صورتیں ہیں:
۔ یا مالك (رفع کے ساتھ) یا مال (زیر کے ساتھ)
۔ مامال (پیش کے ساتھ) ۔ یہ اختلاف اعراب کی حد تک ہے، معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ 2۔ واضح رہے کہ مالک وہ فرشتہ ہے جو دوزخ کی جنرل نگرانی کے لیے تعینات ہے۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے بھی فرشتوں کا وجود ثابت کیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3230
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3266
3266. حضرت یعلی بن امیہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کو منبر پر یہ آیت تلاوت کرتے سنا: ”دوزخی آواز دیں گے: اے مالک!“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3266]
حدیث حاشیہ: مالک جہنم کا نگران ہے جو دوزخ پر مامورہے۔ اہل جہنم اس سے بار بار درخواست کریں گے کہ آپ اپنے رب سے کہیں وہ ہمیں موت سے دوچار کردے۔ وہ انھیں جواب دے گا کہ تم اس میں ہمیشہ رہو گے۔ (الزخرف: 43۔ 77) یعنی مالک فرشتہ انھیں کہے گا۔ تمھارے جرائم کی فہرت بہت لمبی اور طویل ہے لہٰذا تمھیں سزا دینے کے لیے بھی لمبی مدت درکار ہے اس لیے مر جانے کا تصور ذہن سے نکال دو۔ تمھیں زندہ رکھ کر ہی سزا دی جا سکتی ہے لہٰذا تمھیں یہیں رہنا ہوگا اور زندہ ہی رکھا جائے گا۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: مالک فرشتہ اہل جہنم کی آہ و بکا سن کر ہزار سال تک خاموش رہے گا۔ پھر انھیں دو الفاظ سے جواب دے گا کہ تم نے یہیں رہنا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: 160/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3266