«مسرفين» سے مراد مشرکین ہیں۔ واللہ اگر یہ قرآن اٹھا لیا جاتا جب کہ ابتداء میں قریش نے اسے رد کر دیا تھا تو سب ہلاک ہو جاتے۔ «فأهلكنا أشد منهم بطشا ومضى مثل الأولين» میں «مثل» سے عذاب مراد ہے۔ «جزءا» بمعنی «عدلا» یعنی شریک۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4820-3]
مجاہد نے کہا «رهوا» کا معنی راستہ۔ «على العالمين» سے مراد ان کے زمانے کے لوگ ہیں۔ «فاعتلوه» کے معنی ان کو ڈھکیل دو۔ «وزوجناهم بحور» کا مطلب ہم نے بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں سے ان کا جوڑا ملا دیا جن کا جمال دیکھنے سے آنکھوں کو حیرت ہوتی ہے۔ «ترجمون» مجھ کو قتل کرو۔ «رهوا» تھما ہوا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «كالمهل» یعنی کالا تلچھٹ کی طرح۔ اوروں نے کہا «تبع» سے یمن کے بادشاہ مراد ہیں۔ ان کو «تبع» اس لیے کہا جاتا تھا کہ ایک کے بعد ایک بادشاہ ہوتا اور سایہ کو بھی «تبع» کہتے ہیں کیونکہ وہ سورج کے ساتھ رہتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4820-2]
حدیث نمبر: Q4820
قَالَ قَتَادَةُ: فَارْتَقِبْ: فَانْتَظِرْ.
قتادہ نے فرمایا کہ «فارتقب» ای «فانتظر» یعنی انتظار کیجئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4820]
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ نے، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ(قیامت کی) پانچ علامتیں گزر چکی ہیں «الدخان» دھواں، «الروم» غلبہ روم، «القمر» چاند کا ٹکڑے ہونا، «والبطشة» پکڑ اور «واللزام» ہلاکت اور قید۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4820]