6. باب: آیت کی تفسیر ”اور جو لوگ کہ یہودی ہوئے ان پر ناخن والے کل جانور ہم نے حرام کر دیئے تھے اور گائے اور بکری میں سے ہم نے ان پر ان دونوں کی چربیاں حرام کی تھیں“ آخر آیت تک۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «كل ذي ظفر» سے مراد اونٹ اور شتر مرغ ہیں۔ لفظ «الحوايا» بمعنی اوجھڑی کے ہے اور ان کے سوا ایک اور نے کہا کہ «هادوا» کے معنی میں کہ وہ یہودی ہو گئے۔ لیکن سورۃ الاعراف میں لفظ «هدنا» کا معنی یہ ہے کہ ہم نے توبہ کی اسی سے لفظ «هائد» کہتے ہیں توبہ کرنے والے کو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: Q4633]
ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن ابی حبیب نے کہ عطاء نے بیان کیا کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ یہودیوں کو غارت کرے، جب اللہ تعالیٰ نے ان پر مردہ جانوروں کی چربی حرام کر دی تو اس کا تیل نکال کر اسے بیچنے اور کھانے لگے۔ اور ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے یزید نے بیان کیا، انہیں عطاء نے لکھا تھا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ/حدیث: 4633]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4633
حدیث حاشیہ: معلوم ہوتا ہے کہ فقہائے یہود میں مختلف حیلوں سے حرام کو حلال بنا لینے کا عام دستور تھا، جس کی ایک مثال یہاں مذکور ہے۔ فقہائے اسلام کے لیے بھی یہ خوف کا مقام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4633
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4633
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک دوسری روایت میں اس کی تفصیل ہے کہ رسول اللہ نے فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا: "اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب مردار، خنزیر اور بتوں کی خریدو فروخت کو حرام قراردیا ہے۔ " عرض کیا گیا اللہ کے رسول اللہ ﷺ! مردار کی چربی کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے جبکہ اس سے کشتیوں کو روغن چمڑے کو نرم کیا جاتا ہے نیز لوگ اسے اپنے گھروں میں روشنی کے لیے جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں یہ حرام ہے۔ " اس کے بعد آپ نے یہود کا کردار بیان کیا۔ " (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2236) 2۔ بہر حال فقہائے یہود میں مختلف حیلوں کے ذریعے سے حرام چیز کو حلال بنا لینے کا عام دستور تھا اس کی ایک مثال درج بالا حدیث میں بیان ہوئی ہے ان کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے وعید سنائی کہ یہ لوگ اللہ کے ہاں ملعون ہیں فقہائے کوفہ کے لیے یہ حدیث درس عبرت کا مقام رکھتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4633