مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1210
1210. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو فرمایا: ”شیطان نے میرے سامنے آ کر مجھ پر حملہ کر دیا تاکہ میری نماز خراب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح تم لوگ بھی اسے دیکھ لو لیکن مجھے حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: (رب هب لي۔۔۔ بعدي) ”اے اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فر جو میرے بعد کسی کے لیے نہ ہو۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام و بے مراد واپس کر دیا۔“ پھر نضر بن شمیل نے کہا: یہ لفظ فذعته ذال کے ساتھ ہے، یعنی میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور لفظ دعته اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے: (يَوْمَ يُدَعُّونَ) ”قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔“ لیکن پہلا لفظ ہی درست ہے، البتہ راوی حدیث شعبہ نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1210]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اعتراض نہ ہوگا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے۔
جب حضرت عمر ؓ سے شیطان ڈرتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے پاس کیونکر آیا۔
آنحضرت ﷺ توحضرت عمر ؓ سے کہیں افضل ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ چورڈاکو بدمعاش کوتوال سے زیادہ ڈرتے ہیں بادشاہ سے اتنا نہیں ڈرتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آجائے گا۔
تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوتوال بادشاہ سے افضل ہے۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ دشمن کو دھکیلنا یا اس کو دھکا دینا اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔
امام ابن قیم ؒ نے کتاب الصلوة میں اہلحدیث کا مذہب قرار دیا کہ نماز میں کھنکارنا یا کوئی گھر میں نہ ہو تو دروازہ کھول دینا، سانپ بچھو نکلے تو اس کا مارنا، سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دینا، کسی ضرورت سے آگے پیچھے سرک جانا یہ سب کام درست ہیں۔
ان سے نمازفاسد نہیں ہوتی۔
(وحیدی)
بعض نسخوں میں ثم قال النضر بن شمیل والی عبارت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1210
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3423
3423. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”آج رات ایک سرکش جن پر مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نےاسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی: ”اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ "تو میں نے اسے ذلیل وخوار کرکے چھوڑ دیا۔“ عِفْرِيتٌ کے معنی شرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانية ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3423]
حدیث حاشیہ:
روایت میں حضرت سلیمان کا ذکر ہے، باب سےیہی مناسبت ہے۔
حضرت سلیمان کی دعا آیت ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾ (ص: 35)
میں مذکورہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1210
1210. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو فرمایا: ”شیطان نے میرے سامنے آ کر مجھ پر حملہ کر دیا تاکہ میری نماز خراب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح تم لوگ بھی اسے دیکھ لو لیکن مجھے حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: (رب هب لي۔۔۔ بعدي) ”اے اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فر جو میرے بعد کسی کے لیے نہ ہو۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام و بے مراد واپس کر دیا۔“ پھر نضر بن شمیل نے کہا: یہ لفظ فذعته ذال کے ساتھ ہے، یعنی میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور لفظ دعته اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے: (يَوْمَ يُدَعُّونَ) ”قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔“ لیکن پہلا لفظ ہی درست ہے، البتہ راوی حدیث شعبہ نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1210]
حدیث حاشیہ:
1۔
ایک روایت میں ہے کہ شیطان حضرت عمرؓ کے سائے سے بھی دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔
جب شیطان حضرت عمر سے ڈرتا ہے تو نبیﷺ پر حملہ آور کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چور، ڈاکو اور بدمعاش پولیس سے زیادہ ڈرتے ہیں، لیکن حاکم وقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آ جائے گا۔
اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پولیس، بادشاہ سے زیادہ مقام رکھتی ہے۔
2۔
امام بخاریؒ نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں دشمن کو دھکا دینا، اسے پکڑنا اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔
اسی طرح دوران نماز میں جوتیاں اتارنا، جمائی روکنا، بچے کا کمر پر سوار ہونا، تھوک کو جوتے سے ملنا، سانپ اور بچھو کو مارنا، تھوکنا، بچہ اٹھا کر نماز پڑھ، بہت زیادہ رونا اور پھنکارنا اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3284
3284. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے نماز پڑھی تو فرمایا: ”شیطان میرے سامنے آیا اورمجھ پر اس نے پورا زور لگایا کہ میری نماز قطع کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ اس پر قدرت عطا فرمائی۔“ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ نے پوری حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3284]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ پر بڑے سرکش قسم کے شیطان نے حملہ کیاتھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اسےپکڑ کر اس کاگلا دبایا، پھر آپ نے اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ فرمایا تاکہ صحابہ کرام ؓ اس منحوس کو دیکھیں لیکن آپ کو حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آگئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی:
﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾ ”اے اللہ!مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔
“ (ص 35: 38)
رسول اللہ ﷺ نے اسے شرمسار کرکے چھوڑدیا۔
اس طرح وہ اپنے مقصد میں بری طرح ناکام رہا۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 461)
2۔
مقصد یہ ہے کہ لعین شیطان ایسی گندی فطرت کا حامل ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3284
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3423
3423. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”آج رات ایک سرکش جن پر مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز قطع کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی تو میں نےاسے پکڑ لیا۔ میں نے اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دینے کا ارادہ کیا تاکہ تم سب کے سب اسے دیکھ لو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی: ”اے میرے رب! مجھے ایسی حکومت عطا فر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ "تو میں نے اسے ذلیل وخوار کرکے چھوڑ دیا۔“ عِفْرِيتٌ کے معنی شرکش ہیں، خواہ وہ انسان ہو یا جن۔ یہ زبنية کی طرح ہے جس کی جمع زبانية ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3423]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث میں حضرت سلیمان ؑ کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کردیا ہے۔
حضرت سلیمان ؑ کی دعادرج ذیل آیت میں ہے:
”میرے رب! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔
“ (ص: 35)
2۔
اس حدیث میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلیمان ؑ کی رعایت کرتے ہوئے اس سرکش جن کو چھوڑدیا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ جنات کو کام میں لانا حضرت سلیمان ؑ کی خصوصیت ہو۔
قرآن کریم کی صراحت ہے کہ ہم جنوں کو نہیں دیکھ سکتے وہ ہمیں دیکھتے ہیں۔
(الأعراف: 27)
واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے تمام جنوں کو تابع کردیا تھا، وہ ان سے مختلف کام لیتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4808
4808. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”گزشتہ رات ایک دیوہیکل جن مجھ سے بھڑ پڑا۔“ یا اس طرح کا کوئی اور کلمہ ارشاد فرمایا، تا کہ میری نماز خراب کرے، لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے اس پر غالب کر دیا۔ میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب اسے دیکھ سکو لیکن مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی کہ ”اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔“ روح راوی نے کہا: آپ ﷺ نے اس جن کو ذلیل و رسوا کر کے بھگا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4808]
حدیث حاشیہ:
1۔
چونک عہد نبوی میں باضابطہ کوئی جیل خانہ نہیں تھا، اس لیے ملزم، مجرم یا قیدی کو مسجد ہی میں بٹھا دیا جاتا تھا اور وہاں سے کہیں جانے نہیں دیتے تھے۔
سب سے پہلا جیل خانہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ میں مکان خرید کر بنایا تھا۔
اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن ہو یا شیطان، یہ انسان کی طرح خاکی مخلوق تو نہیں کہ اسے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ جن یا شیطان جب کسی انسان یا حیوان کی شکل میں آتا ہے تو اس مخلوق کے لوازمات اس میں آجاتے ہیں جس کا اس نے روپ دھارا ہو۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عفریت بلی کی شکل میں آیا تھا، لہذا اسے باندھنے میں کوئی اشکال نہیں۔
2۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ ایک فضیلت تھی جو آپ کے بعد نہ کسی نبی کو حاصل ہوئی اور نہ کوئی بادشاہ ہی اس طرح کا ہوا ہے لیکن ان کی یہ عظیم سلطنت عبادت گزاری میں آڑے نہ آسکی۔
شاہی میں فقیرانہ زندگی بسر کرنا بھی اللہ والوں کا کام ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے انھیں مقربین میں شامل کرلیا اور بلند درجات عطا فرمائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4808