بہت ہی رجوع ہونے والا اور توجہ کرنے والا۔ سلیمان کا یہ کہنا کہ مالک مجھ کو ایسی بادشاہت دے کہ میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اور سورۃ التوبہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ”اور یہ لوگ پیچھے لگ گئے اس علم کے جو سلیمان کی بادشاہت میں شیطان پڑھا کرتے تھے۔“ اور سورۃ سبا میں فرمایا ”(ہم نے) سلیمان علیہ السلام کے لیے ہوا کو (تابع) کر دیا کہ اس کی صبح کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور اس کی شام کی منزل مہینہ بھر کی ہوتی اور «قطر» یعنی ہم نے ان کے لیے لوہے کا چشمہ بہا دیا ( «وأسلنا له عين القطر» بمعنی) «وأذبنا له عين الحديد» ہے ”اور جنات میں کچھ وہ تھے جو ان کے آگے ان کے پروردگار کے حکم سے خوب کام کرتے تھے۔“ آخر آیت «من محاريب» تک۔ مجاہد نے کہا کہ «محاريب» وہ عمارتیں جو محلوں سے کم ہوں۔ «تماثيل» تصویریں اور لگن اور «جواب» یعنی حوض جیسے اونٹوں کے لیے حوض ہوا کرتے ہیں۔ ”اور (بڑی بڑی) جمی ہوئی دیگیں۔“ آیت «الشكور» تک۔ پھر جب ہم نے ان پر موت کا حکم جاری کر دیا تو کسی چیز نے ان کی موت کا پتہ نہ دیا بجز ایک زمین کے کیڑے (دیمک) کے کہ وہ ان کے عصا کو کھاتا رہا، سو جب وہ گر پڑے تب جنات نے جانا کہ وہ مر گئے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان «المهين» تک۔ ”سلیمان علیہ السلام کہنے لگے کہ میں اس مال کی محبت میں پروردگار کی یاد سے غافل ہو گیا «فطفق مسحا»، الخ یعنی اس نے گھوڑوں کی ایال اور اگاڑی پچھاڑی کی رسیوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ «الأصفاد» بمعنی «الوثاق» بیڑیاں زنجیریں۔ مجاہد نے کہا کہ «الصافنات»، «صفن الفرس» سے مشتق ہے، اس وقت بولتے ہیں جب گھوڑا ایک پاؤں اٹھا کر کھر کی نوک پر کھڑا ہو جائے، «الجياد» یعنی دوڑنے میں تیز۔ «جسدا» بمعنی شیطان، (جو سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی پہن کر ان کی کرسی پر بیٹھ گیا تھا) «رخاء» نرمی سے، خوشی سے۔ «حيث أصاب» یعنی جہاں وہ جانا چاہتے۔ «فامنن أعط.» کے معنی میں ہے، جس کو چاہے دے بغیر حساب بغیر کسی تکلیف کے، بے حرج۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: Q3423]
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ایک سرکش جن کل رات میرے سامنے آ گیا تاکہ میری نماز خراب کر دے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قدرت دے دی اور میں نے اسے پکڑ لیا۔ پھر میں نے چاہا کہ اسے مسجد کے کسی ستون سے باندھ دوں کہ تم سب لوگ بھی دیکھ سکو۔ لیکن مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آ گئی کہ یا اللہ! مجھے ایسی سلطنت دے جو میرے سوا کسی کو میسر نہ ہو۔ اس لیے میں نے اسے نامراد واپس کر دیا۔ «عفريت» سرکش کے معنی میں ہے، خواہ انسانوں میں سے ہو یا جنوں میں سے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3423]
عفريتا من الجن تفلت علي البارحة أو كلمة نحوها ليقطع علي الصلاة فأمكنني الله منه فأردت أن أربطه إلى سارية من سواري المسجد حتى تصبحوا وتنظروا إليه كلكم فذكرت قول أخي سليمان رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي قال روح فرده خاسئا
عفريتا من الجن تفلت علي البارحة أو كلمة نحوها ليقطع علي الصلاة فأمكنني الله منه وأردت أن أربطه إلى سارية من سواري المسجد حتى تصبحوا وتنظروا إليه كلكم فذكرت قول أخي سليمان رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي
عفريتا من الجن تفلت البارحة ليقطع علي صلاتي فأمكنني الله منه فأخذته فأردت أن أربطه على سارية من سواري المسجد حتى تنظروا إليه كلكم فذكرت دعوة أخي سليمان رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي فرددته خاسئا عفريت متمرد من إنس أو جان مثل زبنية جماعتها الزباني
الشيطان عرض لي فشد علي ليقطع الصلاة علي فأمكنني الله منه فذعته ولقد هممت أن أوثقه إلى سارية حتى تصبحوا فتنظروا إليه فذكرت قول سليمان رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي فرده الله خاسيا
عفريتا من الجن جعل يفتك علي البارحة ليقطع علي الصلاة وإن الله أمكنني منه فذعته فلقد هممت أن أربطه إلى جنب سارية من سواري المسجد حتى تصبحوا تنظرون إليه أجمعون أو كلكم ثم ذكرت قول أخي سليمان رب اغفر لي وهب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي فرده الله خاسئا
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3423
حدیث حاشیہ: روایت میں حضرت سلیمان کا ذکر ہے، باب سےیہی مناسبت ہے۔ حضرت سلیمان کی دعا آیت ﴿قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾(ص: 35) میں مذکورہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3423
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3423
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حضرت سلیمان ؑ کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے ذکر کردیا ہے۔ حضرت سلیمان ؑ کی دعادرج ذیل آیت میں ہے: ”میرے رب! مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔ “(ص: 35) 2۔ اس حدیث میں اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلیمان ؑ کی رعایت کرتے ہوئے اس سرکش جن کو چھوڑدیا۔ یہ بھی احتمال ہے کہ جنات کو کام میں لانا حضرت سلیمان ؑ کی خصوصیت ہو۔ قرآن کریم کی صراحت ہے کہ ہم جنوں کو نہیں دیکھ سکتے وہ ہمیں دیکھتے ہیں۔ (الأعراف: 27) واقعی اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان ؑ کے لیے تمام جنوں کو تابع کردیا تھا، وہ ان سے مختلف کام لیتے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3423
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1209
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: گزشتہ رات ایک سرکش جن میری طرف بڑھا تاکہ میری نماز توڑ دے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اسے میرے قابو میں دے دیا تو میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور میں نے یہ ارادہ بھی کر لیا تھا کہ اسے مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ تم سب صبح اس کو دیکھ سکو، پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان علیہ السلام کا یہ قول یاد آ گیا ”اور میرے رب مجھے بخش دے اور مجھے ایسی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1209]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے دوران سرکش جن کا گلا گھونٹ دیا اور اس کو مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ نماز کے اندر ضرورت کے تحت کچھ عمل و حرکت جائز ہے نیز نماز کے دوران ہی آپﷺ کا دھیان حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا کی طرف چلا گیا اس سے معلوم ہوا اگر نماز میں دھیان کسی چیز کی طرف اچانک چلا جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1209
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1210
1210. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو فرمایا: ”شیطان نے میرے سامنے آ کر مجھ پر حملہ کر دیا تاکہ میری نماز خراب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح تم لوگ بھی اسے دیکھ لو لیکن مجھے حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: (رب هب لي۔۔۔ بعدي)”اے اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فر جو میرے بعد کسی کے لیے نہ ہو۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام و بے مراد واپس کر دیا۔“ پھر نضر بن شمیل نے کہا: یہ لفظ فذعته ذال کے ساتھ ہے، یعنی میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور لفظ دعته اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے: (يَوْمَ يُدَعُّونَ)”قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔“ لیکن پہلا لفظ ہی درست ہے، البتہ راوی حدیث شعبہ نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1210]
حدیث حاشیہ: یہاں یہ اعتراض نہ ہوگا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے۔ جب حضرت عمر ؓ سے شیطان ڈرتا ہے تو آنحضرت ﷺ کے پاس کیونکر آیا۔ آنحضرت ﷺ توحضرت عمر ؓ سے کہیں افضل ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چورڈاکو بدمعاش کوتوال سے زیادہ ڈرتے ہیں بادشاہ سے اتنا نہیں ڈرتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آجائے گا۔ تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوتوال بادشاہ سے افضل ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ دشمن کو دھکیلنا یا اس کو دھکا دینا اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ امام ابن قیم ؒ نے کتاب الصلوة میں اہلحدیث کا مذہب قرار دیا کہ نماز میں کھنکارنا یا کوئی گھر میں نہ ہو تو دروازہ کھول دینا، سانپ بچھو نکلے تو اس کا مارنا، سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دینا، کسی ضرورت سے آگے پیچھے سرک جانا یہ سب کام درست ہیں۔ ان سے نمازفاسد نہیں ہوتی۔ (وحیدی) بعض نسخوں میں ثم قال النضر بن شمیل والی عبارت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:461
461. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں: آپ نے فرمایا: ”گزشتہ رات اچانک ایک سرکش جن مجھ سے ٹکرا گیا، یا ایسا ہی کوئی اور کلمہ ارشاد فرمایا، تاکہ میری نماز میں خلل انداز ہو، مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا۔ میں نے چاہا کہ اسے مسجد میں کسی ستون سے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب بھی اسے دیکھ سکو، پھر مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان ؑ کی وہ دعا یاد آ گئی جس میں انھوں نے عرض کیا تھا:”اے میرے رب! مجھے معاف کر اور مجھے ایسی سلطنت عطا فر جو میرے بعد کسی اور کے لیے سزاوار نہ ہو۔“(راوی حدیث) روح کہتے ہیں: پھر (یہ دعا یاد آنے کے بعد) رسول اللہ ﷺ نے اس جن کو رسوا کر کے واپس کر دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:461]
حدیث حاشیہ: صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں ہے کہ سرکش جن میرے سامنے آیا اور مجھ پر حملہ آور ہوا۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، حدیث: 1210) صحیح مسلم میں ہے کہ اس نے آگ کا شعلہ میرے چہرے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 211 (542) مسند احمد میں ہے کہ میں نے سے پکڑ کر زمین پر پٹخ دیا اور اتنی زور سے اس کا گلادبایا کہ اس کا لعاب دہن میرے ہاتھوں پر گرا جس کی تراوٹ مجھے محسوس ہوئی۔ (مسند أحمد: 413/1) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہےکہ کسی مقروض کو عبرت کے لیے یا کسی کافر کومصلحت کے سبب مسجد کے ستون سے باندھنا جائز ہے اور اس سے مسجد کے تقدس کی پامالی نہیں ہوتی، کیونکہ عہد رسالت میں اس طرح کے سب کام مسجد نبوی ہی میں انجام پاتے تھے۔ مقروض کومسجد میں قید کرنے کی مصلحت یہ ہے کہ مسلمان نماز کے اوقات میں جب اسے دیکھیں گے تو ممکن ہے کہ کسی کو اس پر رحم آجائے اور قرض کی ادائیگی میں اس کا ہاتھ بٹائے اور وہ خود بھی اس ندامت کے پیش نظر اپنی خفت مٹانے کے لیے جلد از جلد قرض اداکرنے کی کوشش کرے گا۔ اسی طرح کافر کو مسجد میں قید کرنے کی مصلحت یہ ہوسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے معاملات کو بچشم خود دیکھے گا۔ ان کی عبادت اور دیگر خوبیوں سے واقف ہوگا، اسی طرح اسے اسلام کی صداقت قبول کرنے اور ایمان لانے میں مدد ملے گی۔ مختصر یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے ثابت کیاہے کہ اگرشرعی مصلحت کاتقاضا ہوتومسجد میں مقروض اور غیرمسلم کو قید کیا جاسکتا ہے۔ لیکن روایت میں اسیر کو مسجد میں قید کرنے کے جواز پر تو استدلال ہوسکتا ہے۔ البتہ مقروض کا اس میں ذکر نہیں ہے۔ اس کے متعلق علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ مقروض کو اسیر پر قیاس کیاجاسکتا ہے، کیونکہ مقروض بھی قرض خواہ کے حق میں اسیر ہی ہوتا ہے، اس لیے اسے بھی روایت سے ثابت سمجھناچاہیے۔ (عمدۃالقاري: 510/3) نوٹ: اس حدیث سے متعلقہ دیگر مباحث ہم کتاب بدء الخلق (حدیث: 3284) کتاب أحادیث الأنبیاء (حدیث: 3423) اور کتاب التفسیر(حدیث: 4808) میں بیان کریں گے۔ بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 461
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1210
1210. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے ایک دفعہ نماز پڑھی تو فرمایا: ”شیطان نے میرے سامنے آ کر مجھ پر حملہ کر دیا تاکہ میری نماز خراب کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے جب مجھے اس پر قدرت دی تو میں نے اسے گردن سے دبوچ لیا۔ میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ اسے ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں تاکہ صبح تم لوگ بھی اسے دیکھ لو لیکن مجھے حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی: (رب هب لي۔۔۔ بعدي)”اے اللہ! مجھے ایسی بادشاہت عطا فر جو میرے بعد کسی کے لیے نہ ہو۔“ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے ناکام و بے مراد واپس کر دیا۔“ پھر نضر بن شمیل نے کہا: یہ لفظ فذعته ذال کے ساتھ ہے، یعنی میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور لفظ دعته اللہ کے اس قول سے ماخوذ ہے: (يَوْمَ يُدَعُّونَ)”قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیل دیے جائیں گے۔“ لیکن پہلا لفظ ہی درست ہے، البتہ راوی حدیث شعبہ نے اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:1210]
حدیث حاشیہ: 1۔ ایک روایت میں ہے کہ شیطان حضرت عمرؓ کے سائے سے بھی دم دبا کر بھاگ جاتا ہے۔ جب شیطان حضرت عمر سے ڈرتا ہے تو نبیﷺ پر حملہ آور کیوں ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چور، ڈاکو اور بدمعاش پولیس سے زیادہ ڈرتے ہیں، لیکن حاکم وقت سے خوفزدہ نہیں ہوتے، کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آ جائے گا۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پولیس، بادشاہ سے زیادہ مقام رکھتی ہے۔ 2۔ امام بخاریؒ نے اس سے یہ ثابت کیا ہے کہ دوران نماز میں دشمن کو دھکا دینا، اسے پکڑنا اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔ اسی طرح دوران نماز میں جوتیاں اتارنا، جمائی روکنا، بچے کا کمر پر سوار ہونا، تھوک کو جوتے سے ملنا، سانپ اور بچھو کو مارنا، تھوکنا، بچہ اٹھا کر نماز پڑھ، بہت زیادہ رونا اور پھنکارنا اس سے نماز خراب نہیں ہوتی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1210
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3284
3284. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے نماز پڑھی تو فرمایا: ”شیطان میرے سامنے آیا اورمجھ پر اس نے پورا زور لگایا کہ میری نماز قطع کرے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھ اس پر قدرت عطا فرمائی۔“ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ نے پوری حدیث بیان کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3284]
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ پر بڑے سرکش قسم کے شیطان نے حملہ کیاتھا۔ رسول اللہ ﷺ نے اسےپکڑ کر اس کاگلا دبایا، پھر آپ نے اسے مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنے کا ارادہ فرمایا تاکہ صحابہ کرام ؓ اس منحوس کو دیکھیں لیکن آپ کو حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آگئی کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی: ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لا يَنْبَغِي لأحَدٍ مِنْ بَعْدِي﴾”اے اللہ!مجھے معاف کردے اور مجھے ایسی حکومت دے جو میرے بعدکسی کے لائق نہ ہو۔ “(ص 35: 38) رسول اللہ ﷺ نے اسے شرمسار کرکے چھوڑدیا۔ اس طرح وہ اپنے مقصد میں بری طرح ناکام رہا۔ (صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 461) 2۔ مقصد یہ ہے کہ لعین شیطان ایسی گندی فطرت کا حامل ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ پر بھی حملہ کرنے سے گریز نہیں کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3284
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4808
4808. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”گزشتہ رات ایک دیوہیکل جن مجھ سے بھڑ پڑا۔“ یا اس طرح کا کوئی اور کلمہ ارشاد فرمایا، تا کہ میری نماز خراب کرے، لیکن اللہ تعالٰی نے مجھے اس پر غالب کر دیا۔ میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تاکہ صبح کے وقت تم سب اسے دیکھ سکو لیکن مجھے اپنے بھائی حضرت سلیمان ؑ کی دعا یاد آ گئی کہ ”اے میرے رب! مجھے ایسی سلطنت دے کہ میرے بعد کسی کو میسر نہ ہو۔“ روح راوی نے کہا: آپ ﷺ نے اس جن کو ذلیل و رسوا کر کے بھگا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4808]
حدیث حاشیہ: 1۔ چونک عہد نبوی میں باضابطہ کوئی جیل خانہ نہیں تھا، اس لیے ملزم، مجرم یا قیدی کو مسجد ہی میں بٹھا دیا جاتا تھا اور وہاں سے کہیں جانے نہیں دیتے تھے۔ سب سے پہلا جیل خانہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مکہ مکرمہ میں مکان خرید کر بنایا تھا۔ اس مقام پر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جن ہو یا شیطان، یہ انسان کی طرح خاکی مخلوق تو نہیں کہ اسے کسی ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ جن یا شیطان جب کسی انسان یا حیوان کی شکل میں آتا ہے تو اس مخلوق کے لوازمات اس میں آجاتے ہیں جس کا اس نے روپ دھارا ہو۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عفریت بلی کی شکل میں آیا تھا، لہذا اسے باندھنے میں کوئی اشکال نہیں۔ 2۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی یہ ایک فضیلت تھی جو آپ کے بعد نہ کسی نبی کو حاصل ہوئی اور نہ کوئی بادشاہ ہی اس طرح کا ہوا ہے لیکن ان کی یہ عظیم سلطنت عبادت گزاری میں آڑے نہ آسکی۔ شاہی میں فقیرانہ زندگی بسر کرنا بھی اللہ والوں کا کام ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے انھیں مقربین میں شامل کرلیا اور بلند درجات عطا فرمائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4808