اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ” مشرکین کے لیے لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیں “ الآیہ۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q447]
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو۔ ہم گئے۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو (مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا، افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 447]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:447
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ نے مسجدنبوی کی تعمیر کے وقت مسجد کے قریب ہی کچی اینٹیں تیار کرائی تھی، وہ اتنی وزنی تھیں کہ بمشکل ایک آدمی ایک اینٹ ہی اٹھاسکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ بھی دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کے ساتھ اینٹیں اٹھارہے تھے۔ صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عر ض کیا کہ آپ تکلیف نہ کریں، یہ کام کرنے کے لیے ہم کافی ہیں، چنانچہ حضرت عمار ؓ دو، دواینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ تم دو، دواینٹیں کیوں اٹھارہے ہو؟انھوں نےجواب دیا کہ ایک اینٹ اپنے حصے کی اور دوسری آپ کے حصے کی لارہوں ہوں۔ جیسا کہ حافظ ا بن حجر ؒ نے جامع معمر کے حوالے سے لکھاہے۔ (فتح الباري: 701/1) مزید برآں حضرت عمار ؓ کا یہ جواب بھی روایت میں منقول ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے زیادہ ثواب لینے کے لیے یہ مشقت برداشت کررہاہوں، جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے مستخرج ابی نعیم کے حوالے سے لکھاہے۔ (فتح الباري: 702/1) اس پر رسول اللہ ﷺ نے مسرت ورنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ فرمایا: ”عمار کی شہادت ایک باغی گروہ کے ہاتھوں سے ہوگی۔ “ اس جملے کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے، تاہم اس حدیث سے امام بخاری ؒ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مساجد کی تعمیر مسلمانوں کوخود کرنی چاہیے اور اس کی تعمیر میں پتھر اٹھا اٹھا کرمدد ینا اتنا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیاجاسکتا۔ 2۔ معلوم ہوتا ہے کہ شرح بخاری لکھتے وقت حافظ ابن حجر کے سامنے بخاری کا وہ نسخۃ تھا جس میں حضرت عمار ؓ کے متعلق یہ جملہ حذف تھا کہ تجھے باغی گروہ قتل کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اس کے متعلق مستقل نوٹ لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ وہ ”فائدے“ کا عنوان دے کر لکھتے ہیں کہ قتل عمار والے جملے کی حدیث کو صحابہ کی ایک جماعت نے بیان کیا ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت قتادہ بن نعمان ؓ اورحضرت ام سلمہ ؓ نے بیان کا ہے۔ پھر جامع ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓ نے اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ نےسنن نسائی میں بیان کیا ہے۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ، حضرت حذیفہ ؓ، حضرت ابورافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ،اورحضرت خذیمہ بن ثابت ؓ، حضرت امیر معاویہ ؓ، حضرت عمرو بن العاص ؓ، حضرت ابوالیسر ؓ اور خود حضرت عمار ؓ نے اس جملے کو بیان کیا ہے، جسے امام طبرانی ؒ نے نقل کیا ہے، ان میں سے اکثر طرق صحیح یا حسن درجے کے ہیں۔ اور اس حدیث میں ایک پیش گوئی کا ذکر ہے جو اعلام نبوت سے تعلق رکھتی ہے جس کا ظہور رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے مطابق ہو، نیز اس حدیث میں حضرت علی ؓ اور حضرت عمار ؓ کی واضح فضیلت کا ذکر ہے اور نواصب کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ حضرت علی ؓ اپنی جنگی اور عسکری کارروائیوں میں حق پر نہیں تھے۔ (فتح الباري: 702/1) 3۔ اس حدیث کے پیش نظر بعض اہل علم حضرت معاویہ ؓ اور ان کے ساتھیوں کو”باغی“ کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنی تالیف”منہاج السنہ“ میں فیصلہ کن بحث کی ہے۔ ہم اس کا خلاصہ پیش کرتے ہیں، حضرت علی ؓ کا خیال تھا کہ حضرت معاویہ ؓ پر خلیفہ کی اطاعت اور بیعت لازم ہے، کیونکہ مسلمانوں کا ایک ہی خلیفہ ہوسکتا ہے اور یہ لوگ خلیفہ کی اطاعت سےباہر ہیں اور بیعت سے توقف کرکے ایک امرواجب سے گریز کررہے ہیں، پھر ان کا کچھ اثر ورسوخ بھی ہے۔ اس بنا پر ان سے لڑنا ضروری ہے تاآنکہ اطاعت قبول کرلیں اور مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہوجائیں، جبکہ امیر معاویہ کے فریق کا یہ خیال تھا کہ ہم پر ان کی اطاعت وبیعت واجب نہیں۔ اگر اسی بنیاد پر ہم سے جنگ کی گئی تو ہم مظلوم ہوں گے کیونکہ باتفاق اہل اسلام حضرت عثمان کو ظلم وعدوان سے شہید کیاگیا ہے اور قاتلین عثمان حضرت علی کے کیمپ میں موجود ہیں۔ اور وہ ان میں اپنا اثرورسوخ بھی رکھتے ہیں۔ اگرہم اس خلیفے کی اطاعت میں آجائیں تو قاتلین عثمان ؓ ہم پر ظلم وستم کریں گے، حضرت علی انھیں روک نہیں سکیں گے۔ جیسا کہ حضرت عثمان کا دفاع نہیں کرسکے۔ ہم پر اس خلیفے کی بیعت لازم ہے جو ہمارے ساتھ انصاف کرسکے۔ اگرگروہ بندی میں شامل ہونے والوں میں کچھ جاہل قسم کے لوگ بھی موجود تھے، جوحضرت علی ؓ اور حضرت عثمان ؓ کے متعلق برے خیالات رکھتے تھے، حالانکہ دونوں بزرگوں کا ان سے دور کا بھی تعلق نہ تھا۔ ان میں سے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضر ت علی ؓ نے حضرت عثمان ؓ کے قتل کا حکم دیا۔ حضرت علی کہتے تھے کہ میں نہ قتل کیااور نہ ان کے قتل پر راضی ہی تھا اور نہ میں نےقاتلین کے ساتھ کوئی تعاون ہی کیا۔ حضرت علی ؓ اس بیان میں حق بجانب تھے مگر حضرت علی ؓ کے بعض حامی اور مخالف اس پروپیگنڈے میں شریک تھے۔ آپ کے حامی تو حضرت عثمان ؓ پر طعن کرتے کہ واقعی حضرت عثمان ؓ قتل ہی کے حقدار تھے اور حضرت علی ؓ نےجائز طور پر ان کے قتل کا حکم دیا تھا جبکہ مخالفین کا مقصد یہ تھا کہ ایسی باتین پھیلاکر حضرت علی ؓ پر کیچڑ اچھالاجائے کہ انھوں نے مظلوم خلیفے کو قتل کرنے پر تعاون کیا ہے۔ ایسے انسان کی اطاعت کس بنیاد پر کی جائے؟حدیث میں ہے کہ حضرت عمار ؓ کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ اس کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس حدیث پر جرح کی ہے مگریہ درست نہیں، کیونکہ یہ حدیث صحیح مسلم اور صحیح بخاری کے بعض نسخوں میں موجود ہے جبکہ بعض حضرات یہ تاویل کرتے ہیں کہ باغیہ کے معنی حضرت عثمان ؓ کا بدلہ طلب کرنے والی جماعت ہیں۔ یہ تاویل بھی غلط ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے بظاہر جو معلوم ہورہا ہے وہ مبنی برحقیقت ہے، البتہ حضرت عمار کو باغیہ جماعت کے قتل کرنے سے اس جماعت کا کفر یانفاق لازم نہیں آتا، جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا ۖ فَإِن بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَىٰ فَقَاتِلُوا الَّتِي تَبْغِي حَتَّىٰ تَفِيءَ إِلَىٰ أَمْرِ اللَّـهِ ۚ فَإِن فَاءَتْ فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا ۖ إِنَّ اللَّـهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴿٩﴾ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ﴾”اگرمومنوں کے دوگروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرادو پھر ان میں سے کوئی فریق دوسرے پر زیادتی کرے توزیادتی کرنے والے سے لڑو آنکھ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے۔ پھر اگر وہ لوٹ آئےتو ان کے درمیان انصاف سےصلح کرادو کیونکہ اللہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔ مومن تو سب آپس میں بھائی بھائی ہیں، لہذااپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیاکرو۔ “(الحجرات: 9/49) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انھیں افتتال اوربغی کے باوجود اہل ایمان قراردیا ہے بلکہ باغی گروہ کے ساتھ لڑائی کے حکم کے باوجود انھیں مومن گردانا ہے، لہذا بَغی، ظلم اور تعدی تو عوام الناس کو بھی ایمان سے خارج نہیں کرتے اور نہ ان کو لعنت کے سزا وار قراردیتے ہیں، اگر خیر القرون میں سے کوئی یہ کام کر بیٹھے تواسے ایمان سے کیوں کر خارج کیا جاسکتا ہے؟دراصل باغی، ظالم، تعدی کرنے والا اور کسی گناہ کا مرتکب دوطرح کا ہوتا ہے متأول اور غیر متأول۔ متأول مجتہد سے مراد وہ ماہریں علم ودین ہیں جو دینی معاملات میں اجتہاد کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عالم کسی چیز کی حلت کا قائل ہے تو دوسرا اس کی حرمت کا موید ہوتا ہے، جیساکہ اشربہ، سود کی بعض اقسام، عقد حلالہ اور نکاح متعہ جیسے مسائل میں ایسا ہوا ہے۔ اس قسم کے اختلافات سلف میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ متأول مجتہد ہیں۔ ان میں سے ایک فریق خطا پرہوتاہے اورخطا اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے۔ ہاں صحیح فیصلے کے علم کے باوجود غلط فیصلہ کرنا ظلم ہوگا اور اس پر اصرار فسق، بلکہ تحریم کے علم کے بعد اسے حلال قراردینا کفر ہوگا۔ بغی کو بھی اسی اصول پر جانچنا چاہیے، چنانچہ باغی اگرمجتہد اور متاول ہے یعنی اسے یہ معلوم نہیں کہ میں باغی ہوں بلکہ وہ ا پنے برحق ہونے کا اعتقاد رکھتا ہے تو ا س کے حق میں”باغی“ کا اطلاق اسے بغاوت کے گناہ کا سزاوار نہیں بناتا۔ جولوگ متأول باغیوں کے قتال کے قائل ہیں وہ بھی ان کے عدوان ظلم کو دور کرنے کے لیے ان سے لڑائی کے قائل ہیں، انھیں سزادینے کے طور پر نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ عادل ہیں، فاسق نہیں۔ جس طرح بچے، مجنون بھولنے، والے بے ہوش اور سونے والے کو نقصان کرنے سے روکاجاتاہے، اسی طرح انھیں بھی روکا جائے گا۔ اگربغاوت بلاتاویل ہے تو بھی وہ ایک گناہ ہی ہے اور گناہ کی سزا، توبہ، حسنات اور مصائب وآلام وغیرہ اسباب سے زائل ہوسکتی ہے، نیز اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ فئۃ باغیہ سے مراد ضرورحضرت معاویہ ؓ اور ان کے ساتھی ہی ہیں۔ ممکن ہے کہ اسے مراد وہ خاص گروہ ہو جنھوں نے حضرت عمارؓ پر حملہ کیا اور انھیں شہید کیا اور وہ حضرت معاویہ ؓ کے لشکر میں ایک طائفہ تھا حضرت عمار ؓ کے قتل پر راضی ہونے والے بھی اسی فہرست میں شامل ہوں گے، کیونکہ ان کے لشکر میں ایسے لوگ موجود تھے۔ البتہ وہ افراد جو قتل عمار پر راضی نہیں تھے، وہ اس وعید میں شامل نہیں ہوں گے۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اسے نہ اچھا سمجھتے تھے۔ حضرت معاویہ ؓ سے بھی یہ مروی ہے کہ انھوں نے اس حدیث کی تاویل کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت عمار ؓ کا قاتل وہی ہے جو اسے میدان جنگ میں لایا۔ حضرت علی ؓ نے اس تاویل کا یہ جواب دیا کہ پھر تو حضرت حمزہ ؓ کو بھی ہم نے ہی قتل کیا ہوگا، کیونکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود کو قاتل عمار نہیں سمجھتے تھے، اس طرح وہ خود کو باغی بھی نہیں خیال کرتے تھے۔ اس لیے جس شخص کی ظاہر ی حالت کی بنا پر باغی سمجھا جاسکتا ہو، لیکن وہ اپنے آپ کو باغی نہ سمجھے تو اسے متأول مخطی کے درجے میں سمجھنا چاہیے۔ 4۔ اس حدیث میں ہے کہ حضر ت عمار ؓ انھیں جنت کی دعوت دیتے تھے جبکہ وہ انھیں جہنم کی طرف بلارہے تھے۔ اس میں ایک اشکال ہے کہ حضرت عمار ؓ جن صفین میں شہید ہوئے جبکہ وہ حضرت علی ؓ کے ساتھ تھے اور انھیں قتل کرنے والے حضرت معاویہ ؓ کے کیمپ میں تھے اور ان میں بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بھی تھے۔ ایسے حالات میں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ انھیں جہنم کی دعوت دیتے تھے؟حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ اپنے گمان کے مطابق لوگوں کو جنت کی دعوت دیتے تھے، چونکہ معاملہ اجتہادی ہے اس لیے وہ اپنے ظنون کے اتباع میں قابل ملامت نہیں۔ جنت کی دعوت دینے سے مراد دخول جنت کے اسباب کی دعوت دینا ہے اور وہ امام کی اطاعت وبیعت ہے۔ حضرت عمار ؓ لوگوں کو اطاعت امام، یعنی حضرت علی ؓ کی طرف دعوت دیتے تھے جو اس وقت واجب التعمیل تھی اور ان کے مخالفین اپنے اجتہاد کی وجہ سے اس کے خلاف کی دعوت دیتے تھے۔ لیکن انھیں اپنی تاویل واجتہاد کی بناپر معذور خیال کیا جائے گا۔ (فتح الباري: 701/1) 5۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ حضرت معاویہ ؓ کی جماعت پر”اسے باغی گروہ قتل کے گا“ تو صادق آتا ہے اور ان کے ہاں اس کی توجیہ یہ ہےکہ فعل ان حضرات سے خطائے اجتہادی کے طور پر صادرہوا لیکن آگے جو فرمایا کہ”وہ انھیں جنت کی دعوت دیتے تھے اور وہ اسے آگ کی طرف بلاتے تھے“اس کاتعلق حضرت معاویہ ؓ اور ان کی جماعت سے نہیں بلکہ یہ جملہ مستانفہ ہے۔ اس میں ایک دوسری بات بیان کی گئی ہے کہ ان کا معاملہ مشرکین مکہ کے ساتھ بھی بڑا قابل رحم رہا، ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، والدہ تک شہید کردی گئیں، جبکہ عمار ؓ ان مشرکین کو جنت کی طرف دعوت دیتے تھے اور مشرکین قریش انھیں جہنم کی طرف بلاتے تھے، لیکن حافظ ابن حجر ؒ اس توجیہ سے مطمئن نہیں، کیونکہ الفاظ حدیث اس توجیہ کا ساتھ نہیں دیتے بلکہ اس سے مراد حضر عمار ؓ کے قاتلین اہل شام ہیں۔ (فتح الباري: 702/1) واللہ أعلم۔ 6۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ مشاجرات صحابہ کے سلسلے میں بڑے حساس تھے۔ ان سے ایک د فعہ سوال ہو ا کہ آپ حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہ ؓ کے متعلق کیاکہتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: ان کے متعلق اچھی بات کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان سب پر رحم کرے۔ (السنة للخلال حدیث 460) بلکہ علامہ ذہبی ؒ نے نقل فرمایا ہے کہ وہ حضرت عمار ؓ کے متعلق مشہور حدیث”انھیں ایک باغی گروہ قتل کرے گا۔ “ کےمتعلق بحث وتکرار ہی کو ناپسند کرتے تھے، یعنی اس حدیث کو بیان تو کرتے لیکن اس پر مزید بات کرنے کو ناپسند خیال کرتے تھے۔ (السیر: 421/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 447
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2812
2812. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے حضرت عکرمہ اور اپنے صاحبزادے علی بن عبداللہ سے فرمایا کہ تم دونوں ابو سعید ؓکے پاس جاؤ اور ان سے حدیث سنو، چنانچہ وہ دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ(حضرت ابو سعید خدری ؓ) اور ان کے بھائی اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے، جب انھوں نے ہمیں دیکھا تو تشریف لائے اور اپنی چادر لپیٹ کر بیٹھ گئے، اس کے بعد فرمایا کہ ہم مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لارہے تھے جبکہ حضرت عمار بن یاسر ؓ دو، اینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔ اچانک نبی کریم ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے ان کے سر سے غبار جھاڑتے ہوئے فرمایا: ”افسوس!عمار(رضي اللہ تعالیٰ عنه) کوا یک باغی گروہ قتل کرے گا۔ عمار انھیں اللہ کی طرف دعوت دیں گے اور وہ انھیں آگ کی طرف بلائیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2812]
حدیث حاشیہ: حضرت عمار بن یاسر ؓ کے فضائل و حالات پہلے بیان ہوچکے ہیں۔ یہاں مراد جنگ صفین سے ہے جس میں یہ حضرت علی ؓکے ساتھیوں میں تھے اور ۳۵ھ میں یہ وہاں ہی ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ آنحضرتﷺ نے ازراہ شفقت و محبت ان کا سر گرد و غبار سے صاف کیا‘ اس سے ان کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوئی اور باب کا مقصد بھی ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2812
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2812
2812. حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے، انھوں نے حضرت عکرمہ اور اپنے صاحبزادے علی بن عبداللہ سے فرمایا کہ تم دونوں ابو سعید ؓکے پاس جاؤ اور ان سے حدیث سنو، چنانچہ وہ دونوں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ(حضرت ابو سعید خدری ؓ) اور ان کے بھائی اپنے باغ کو پانی دے رہے تھے، جب انھوں نے ہمیں دیکھا تو تشریف لائے اور اپنی چادر لپیٹ کر بیٹھ گئے، اس کے بعد فرمایا کہ ہم مسجد نبوی کی تعمیر کے لیے ایک ایک اینٹ اٹھا کر لارہے تھے جبکہ حضرت عمار بن یاسر ؓ دو، اینٹیں اٹھا کر لارہے تھے۔ اچانک نبی کریم ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے ان کے سر سے غبار جھاڑتے ہوئے فرمایا: ”افسوس!عمار(رضي اللہ تعالیٰ عنه) کوا یک باغی گروہ قتل کرے گا۔ عمار انھیں اللہ کی طرف دعوت دیں گے اور وہ انھیں آگ کی طرف بلائیں گے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2812]
حدیث حاشیہ: بعض اسلاف کا خیال ہے کہ وضو کے پانی کی تری خشک نہیں کرنی چاہیے اسی طرح آثار جہاد (گرد غبار) اپنے جسم پر باقی رکھنے چاہئیں۔ امام بخاری ؒنے اس "وہم " کو دور کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت عمار بن یاسر ؓکے سر سے گرد غبار صاف کیا تھا اس سے معلوم ہوا کہ صفائی کے پیش نظر جہاد کے آثار دور کرنے میں کوئی حرج نہیں اسی طرح وضو کے بعد منہ ہاتھ صاف کرنا بھی جائز ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2812