ابوسعید نے کہا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں اور مسجدوں پر سرخ (لال)، زرد رنگ، مت کرو کیونکہ اس سے لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (اس طرح پختہ بنوانے سے) لوگ مساجد پر فخر کرنے لگیں گے۔ مگر ان کو آباد بہت کم لوگ کریں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم بھی مساجد کی اسی طرح زبیائش کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: Q446]
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے میرے والد ابراہیم بن سعید نے صالح بن کیسان کے واسطے سے، ہم سے نافع نے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور ستون اسی کی کڑیوں کے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کسی قسم کی زیادتی نہیں کی۔ البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بڑھایا اور اس کی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی بنیادوں کے مطابق کچی اینٹوں اور کھجوروں کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی کڑیوں ہی کے رکھے۔ پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی عمارت کو بدل دیا اور اس میں بہت سی زیادتی کی۔ اس کی دیواریں منقش پتھروں اور گچھ سے بنائیں۔ اس کے ستون بھی منقش پتھروں سے بنوائے اور چھت ساگوان سے بنائی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ/حدیث: 446]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 446
حدیث حاشیہ: مسجدنبوی زمانہ رسالت مآب ﷺ میں جب پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو اس کا طول وعرض تیس مربع گز تھا۔ پھر غزوئہ خیبر کے بعد ضرورت کے تحت اس کا طول وعرض پچاس مربع گز کردیاگیا۔ حضرت عمر ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں مسجدنبوی کو کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے مستحکم کیا اورستون لکڑیوں کے بنائے۔ حضرت عثمان ؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے پختہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ ؓ مدینہ میں آئے توآپ نے ایک حدیث نبوی سنائی کہ آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک دن میری مسجد کی تعمیر پختہ بنیادوں پر ہوگی۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ حدیث سن کر بطور خوشی حضرت ابوہریرہ ؓ کو پانچ سودینار پیش کيے۔ بعدکے سلاطین اسلام نے مسجدنبوی کی تعمیرواستحکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موجودہ دور حکومت سعودیہ (خلدها اللہ تعالیٰ) نے مسجد کی عمارت کو اس قدر طویل وعریض اورمستحکم کردیاہے کہ دیکھ کر دل سے اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول کرے۔ احادیث و آثارکی بناپر حد سے زیادہ مساجد کی ٹیپ ٹاپ کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ یہودونصاریٰ کا دستور تھا کہ وہ اپنے مذہب کی حقیقی روح سے غافل ہوکر ظاہری زیب وزینت پر فریفتہ ہوگئے۔ یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے، جن کے مینارے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں مگرتوحید وسنت اور اسلام کی حقیقی روح سے ان کو خالی پایا جاتاہے۔ إلا ماشاءاللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 446
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:446
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مسجد نبوی کی تعمیر کچی اینٹوں سے ہوئی، چھت پر کھجور کی شاخیں اور ستونوں کے لیے کھجور کے تنے استعمال کیے گئے۔ احادیث میں اشارات ملتے ہیں کہ فتح خیبر کے بعد اس کے رقبے میں کچھ تو سیع کی گئی، لیکن دوران تعمیر میں جو سامان استعمال کیا گیا وہ پہلے جیسا ہی تھا۔ حضرت عمر ؓ کے عہد میں اگرچہ مال و دولت کی فراوانی تھی اس کے باوجود انھوں نے اس کے طول و عرض یا قبلے کی جانب دو صفوں کا اضافہ کیا، لیکن سامان تعمیر اور انداز تعمیر وہی برقرار رکھا جو پہلے تھا، یعنی کچی اینٹیں کھجور کی شاخوں کی چھت اور اس کے تنوں کے ستون وغیرہ لیکن حضرت عثمان ؓ کے دور خلافت میں سامان تعمیر اورانداز تعمیر دونوں میں تبدیلی آئی۔ انھوں نے اپنی گرہ سے ازواج مطہرات رضوان اللہ عنھن اجمعین کے حجرات کو خرید کر مسجد میں شامل کر دیا اور مسجد کے طول و عرض میں اضافہ فرمایا، اس کے علاوہ کچی اینٹوں کی جگہ نقش دار پتھر انھیں جوڑنے کے لیے چونا استعمال ہوا اور ستون بھی پتھروں کے بنائے گئے، چھت پر کھجور کی شاخوں کے بجائے سا گوان کی کٹریاں استعمال کی گئیں۔ حضرت عثمان ؓ کے اس مخلصانہ عمل پر اعتراضات بھی ہوئے جن کے متعلق انھیں منبر پر کھڑے ہو کر جواب دہی کرنی پڑی۔ ہم ان کی وضاحت حدیث نمبر4500 میں کریں گے۔ بہر حال مسجد کے طول و عرض میں بقدر اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس کی مضبوطی کے لیے بہترین اور قیمتی ساز و سامان استعمال کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں اور سادگی کی رعایت کرتے ہوئے اسی پر شکوہ اورعالی شان بھی بنایا جا سکتا ہے۔ 2۔ محدث ابن منیرؒ نے کہا ہے کہ جب لوگ اپنے ذاتی مکانات پختہ بنانے لگیں اور اس کی زیبائش و آرائش پر روپیہ خرچ کرنے لگیں تو ایسے حالات میں اگر مساجد کی تعمیر میں بھی یہی طرز عمل اختیار کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں تاکہ مساجد کی اہانت نہ ہو۔ حافظ ابن حجر ؒ نے اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: اگر مسجد کی زیب و زینت نہ کرنے کی وجہ صرف سلف صالحین کی پیروی ہو تو پھر یہ موقف صحیح ہے، لیکن اگر نقش و نگار کو نظر انداز کرنے کی علت یہ ہو کہ اس قسم کی زیبائش و آرائش نمازی کے خشوع وخضوع میں خلل انداز ہوتی ہو تو پھر اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ (فتح الباري: 700/1) لیکن ہم اس حقیقت کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس پر فتن دور میں لوگوں نے مساجد کی تزئین و آرائش پر بہت توجہ دے رکھی ہے بالخصوص محراب اور اس کے دائیں بائیں آئینہ اور رنگین ٹائیلوں کا استعمال پھر پیش بہا فانوس اسی زمرے میں آتے ہیں جن سےرسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، بلا شبہ مسجد میں تعمیر مضبوط بنیادوں پر ہونی چاہیے، نیز اسےشاندار اور پُر شوکت بنانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔ لیکن تزیین پر روپیہ صرف کرنا اسراف و تبذیر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ مساجد کی تزیین کا سلسلہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے شروع ہوا صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا آخری دور تھا، متعدد اہل علم اس وقت اندیشہ فتنے کی بنا پر خاموش رہے۔ 3۔ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اس تزیین و آرائش کے متعلق اظہار ناپسندیدگی اس بنا پر تھا کہ اس سے دنیا میں انہماک اور غلو آجاتا ہے جس سے انسان آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ مساجد کی تزیین کے متعلق حضرت عمر ؓ سے ممانعت منقول ہے۔ آپ نے شاید اس واقعے سے استنباط فرمایا ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو جہم ؓ کی منقش چادر واپس کردی تھی اور فرمایا تھا کہ اس نے مجھے میری نماز سے غافل کردیا تھا۔ (شرح ابن بطال: 97/2) لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس واقعے کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے ممکن ہے کہ حضرت عمر ؓ کے پاس اس کے متعلق کوئی خاص ہدایت موجود ہو، کیونکہ سنن ابن ماجہ میں روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا کہ جب کسی قوم میں بدعملی پھیلتی ہے تو وہ اپنی عبادت گاہوں کو بڑی زیب و زینت سے سجانا شروع کردیتے ہیں، لیکن اس کی سند میں جبارہ بن مغلس راوی ایسا ہے جس کے متعلق آئمہ جرح و تعدیل نے کلام کیا ہے۔ (فتح الباري: 689/1) تاہم پہلے زمانے میں اگر مسلمان سلاطین وامراء مساجد عالی شان اور پختہ نہ بناتے تو آج بلا د کفر میں ان کا نام و نشان مٹ چکا ہوتا، جیسا کہ جامع قرطبہ مآثر اندلس اور مساجد ہندوستان وغیرہ ہیں، اگرچہ بلا د کفر میں یہ مساجد مسلمانوں کی نوحہ خوانی کرتی ہیں، تاہم ان کا باقی رہنا اس بات کی علامت ہے کہ کبھی ان مقامات پر اسلام کا بول بالا تھا اور آج مسلمانوں کی پست ہمتی کی وجہ سے وہاں کفار قابض ہیں۔ (إنااللہ وإناإلیه راجعون) بعض مسلمان سلاطین نے ان تمام تغیرات کو جو عہد نبوی عہد فاروقی اور عہد عثمانی میں ہوئے نشانات لگا کر ممتاز کردیا ہے اس کے بعد جو تعمیری تبدیلیاں آئی ہیں وہ ایک دوسرے سے ممتاز نہیں ہیں۔ البتہ ترکی کا انداز تعمیر رنگ سے ممتاز کردیا گیا ہے موجودہ دور میں حکومت سعودیہ نے مسجد نبوی کی عمارت اس قدر طویل وعریض کردی ہے کہ اسے دیکھ کر دل باغ باغ ہو جاتاہے اور بےساختہ دل سے اس حکومت کے دوام کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے اور قیامت کے دن ان کے لیے ذریعہ نجات بنائے، لیکن دوسرے ممالک میں مسلمانوں کی مساجد جن کے مینارتو آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں، مگر یہ مساجد تو حید و سنت کی آبیاری اور حقیقی اسلام کی سر بلندی سے عاری اور نمازیوں سے خالی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان مساجد کو توحید و سنت کے مرکز بنائے اور نمازیوں سے آباد فرمائے۔ آمین!
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 446
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 451
´مساجد کی تعمیر کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی، مجاہد کہتے ہیں: اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا، البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس میں اضافہ کیا، اور اس کی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی بنیادوں کے مطابق کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی نئی لکڑی کے لگائے، مجاہد کی روایت میں «عمده خشبا» کے الفاظ ہیں، پھر عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی عمارت میں تبدیلی کی اور اس میں بہت سارے اضافے کئے، اس کی دیواریں منقش پتھروں اور گچ (چونا) سے بنوائیں، اس کے ستون منقش پتھروں کے بنوائے اور اس کی چھت ساگوان کی لکڑی کی بنوائی۔ مجاہد کی روایت میں «وسقفه الساج» کے بجائے «وسقفه بالساج» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حدیث میں مذکور ( «قصة») کے معنی گچ کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 451]
451۔ اردو حاشیہ: علامہ ابن بطال وغیرہ نے فرمایا ہے کہ یہ روایت دلیل ہے کہ تعمیر مساجد اور ان کی آرائش ہمیشہ میانہ روی سے ہونی چاہیے۔ باوجود یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں فتوحات کے باعث مال کی بہتات تھی مگر انہوں نے مسجد کو تبدیل نہیں کیا۔ صرف چھت کی شاخیں اور بوسیدہ ستون تبدیل کیے۔ ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی تنگ دامانی کے باعث اسے وسیع اور خوبصورت بنایا مگر اس میں کوئی غلو نہ تھا، اس کے باوجود بعض صحابہ نے ان پر تنقید کی۔ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان پہلا شخص ہے جس نے مساجد کو آراستہ کیا اور یہ صحابہ کا بالکل آخری دور ہے۔ مگر اکثر اہل علم فتنے کے خوف سے خاموش رہے۔ [عون المعبود] کچھ نے نقد بھی کیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 451