الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
74. بَابُ قِصَّةُ عُمَانَ وَالْبَحْرَيْنِ:
74. باب: عمان اور بحرین کا قصہ۔
حدیث نمبر: 4383
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، سَمِعَ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، جَابِرَ بْنَ عَبْدِ الله رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ قَدْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ لَقَدْ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا ثَلَاثًا"، فَلَمْ يَقْدَمْ مَالُ الْبَحْرَيْنِ حَتَّى قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَدِمَ عَلَىأَبِي بَكْرٍ أَمَرَ مُنَادِيًا، فَنَادَى: مَنْ كَانَ لَهُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَيْنٌ أَوْ عِدَةٌ فَلْيَأْتِنِي، قَالَ جَابِرٌ: فَجِئْتُ أَبَا بَكْرٍ فَأَخْبَرْتُهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَوْ جَاءَ مَالُ الْبَحْرَيْنِ أَعْطَيْتُكَ هَكَذَا وَهَكَذَا ثَلَاثًا"، قَالَ: فَأَعْطَانِي، قَالَ جَابِرٌ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ ذَلِكَ، فَسَأَلْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ الثَّالِثَةَ فَلَمْ يُعْطِنِي، فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أَتَيْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُكَ فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي، فَقَالَ: أَقُلْتَ تَبْخَلُ عَنِّي وَأَيُّ دَاءٍ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ قَالَهَا ثَلَاثًا، مَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ، وَعَنْ عَمْرٍو، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: جِئْتُهُ، فَقَالَ لِي أَبُو بَكْرٍ: عُدَّهَا، فَعَدَدْتُهَا، فَوَجَدْتُهَا خَمْسَ مِائَةٍ، فَقَالَ: خُذْ مِثْلَهَا مَرَّتَيْنِ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا کہ انہوں نے محمد بن المنکدر سے سنا، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا جب میرے پاس بحرین سے روپیہ آئے گا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ بھر کر روپیہ دوں گا، لیکن بحرین سے جس وقت روپیہ آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی تھی۔ اس لیے وہ روپیہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور انہوں نے اعلان کروا دیا کہ اگر کسی کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرض یا کسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی وعدہ ہو تو وہ میرے پاس آئے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ان کے یہاں آ گیا اور انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اگر بحرین سے میرے پاس روپیہ آیا تو میں تمہیں اتنا اتنا تین لپ بھر کر دوں گا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ان سے ملاقات کی اور ان سے اس کے متعلق کہا لیکن انہوں نے اس مرتبہ مجھے نہیں دیا۔ میں پھر ان کے یہاں گیا اس مرتبہ بھی انہوں نے نہیں دیا۔ میں تیسری مرتبہ گیا، اس مرتبہ بھی انہوں نے نہیں دیا۔ اس لیے میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کے یہاں ایک مرتبہ آیا۔ آپ نے نہیں دیا، پھر آیا اور آپ نے نہیں دیا۔ پھر تیسری مرتبہ آیا ہوں اور آپ اس مرتبہ بھی نہیں دے رہے ہیں۔ اگر آپ کو مجھے دینا ہے تو دے دیجئیے ورنہ صاف کہہ دیجئیے کہ میرا دل دینے کو نہیں چاہتا، میں بخیل ہوں۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم نے کہا ہے کہ میرے معاملہ میں بخل کر لو، بھلا بخل سے بڑھ کر اور کیا عیب ہو سکتا ہے۔ تین مرتبہ انہوں نے یہ جملہ دہرایا اور کہا میں نے تمہیں جب بھی ٹالا تو میرا ارادہ یہی تھا کہ بہرحال تمہیں دینا ہے۔ اور اسی سند سے عمرو بن دینار سے روایت ہے، ان سے محمد بن علی باقر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں حاضر ہوا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک لپ بھر کر روپیہ دیا اور کہا کہ اسے گن لو۔ میں نے گنا تو پانچ سو تھا۔ فرمایا کہ دو مرتبہ اتنا ہی اور لے لو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4383]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريوعدني رسول الله أن يعطيني هكذا وهكذا
   صحيح البخاريلو قد جاء مال البحرين قد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا
   صحيح البخاريلو قد جاءني مال البحرين لقد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا
   صحيح البخاريلو جاء مال البحرين أعطيتك هكذا ثلاثا
   صحيح البخاريلو قد جاء مال البحرين لقد أعطيتك هكذا وهكذا ثلاثا
   صحيح مسلملو قد جاءنا مال البحرين لقد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا
   مسندالحميدييا جابر لو قد جاء مال البحرين لأعطيتك هكذا، وهكذا، وهكذا
   مسندالحميديقلت تبخل عني، وأي الداء أدوأ من البخل؟ فما منعتك من مرة إلا وأنا أريد أن أعطيك

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4383 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4383  
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق ؓ کے فرمانے کا یہ مطلب تھا کہ میں اپنے حصے یعنی خمس میں سے دینا چاہتاہوں۔
خمس خاص خلیفہ اسلام کو ملتا ہے پھر وہ مختار ہیں جسے چاہیں دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4383   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4383  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں بحرین کا کوئی قصہ نہیں اور عمان ہی کا ذکر ہے البتہ اس حدیث میں بحرین سے مال آنے کا ذکر ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین کی طرف کسی کو بھیجا تھا، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بادشاہوں کی طرف وفود بھیجے۔
اس ضمن میں عمان کے بادشاہ جلندی کے دو بیٹوں جیفر اور عیاذ کی طرف حضرت عمرو بن عاص ؓ کو بھیجا، باقی حضرات رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے واپس آگئے لیکن عمرو بن عاص ؓ ابھی بحرین میں تھے۔
کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی۔
وہ آپ کی وفات کے بعد مدینہ طیبہ آئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمان اور بحرین قریب قریب تھے اور آپ نے وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے بادشاہوں کی طرف وفود روانہ کیےتھے۔
(فتح الباري: 120/8)

ایک روایت میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ حضرت علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے بحرین کا مال آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ دونوں ہاتھوں سے لپ بھرو، پھر اسے شمار کرو، وہ پانچ صد تھے۔
آپ نے حضرت جابر ؓ کو دو دفعہ مزید پانچ پانچ سودرہم دیے۔
(صحیح البخاري، الشهادات، حدیث: 2683)
ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے ایک ہزار پانچ سو درہم دیے۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3146)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4383   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1268  
1268-امام محمد الباقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے جابر! جب اگر ہمارے پاس بحر ین کا مال آئے گا تو میں تمہیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔‏‏‏‏ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، بحرین کا مال نہیں آیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آیا، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اعلان کرنے کے لیے کہا: کہ جس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ادائیگی کرنی ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہو، تو وہ آجائے۔ سیدنا جاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1268]
فائدہ:
اس حدیث میں ایک پیش گوئی اور معجزہ ہے کہ بحرین سے مال آئے گا، اور آیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا اور تقسیم کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعدہ کرتے تھے اور کئی وعدوں کی پاسداری نہ کر سکے اور دنیا سے کوچ کر گئے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1269  
1269-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہتھیلیاں ملا کر تین مرتبہ مجھے دیا۔ ابن منکدرنامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اس کے بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ دیجئے، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا، میں پھران کے پاس آیا اور انہیں کہا: امجھے کچھ دیجئے، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا میں پھر ان کے پاس آیا میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ دیجئے، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا میں نے کہا: اے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ! میں نے آپ سے کچھ مانگا ہے، آپ مجھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1269]
فائدہ:
قوم کا امیر بہت دانا ہوتا ہے، اگر امیر کسی وقت کسی شخص سے تعاون روک دے اور دوسرے سے تعاون کر دے اور اس کی نیت ہو کہ کسی اور موقع پر اس سے تعاون کر دوں گا، تو اس کا مقصود حوصلہ شکنی نہیں ہوتا، انسان حریص ہے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بخیل نہیں تھے، اگر بخیل ہوتے تو اپنا سارا مال صدقہ نہ کرتے، اور آپ کی خدمات ایک مکمل تاریخ ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1268   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2296  
2296. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اگر بحرین کا خراج آیا تو میں تجھے اس طرح (دونوں لپ بھر کر) دوں گا لیکن بحرین کا خراج آنے سے پہلے ہی نبی ﷺ وفات پا گئے۔ جب بحرین کا خراج آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے منادی کرائی کہ نبی ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا اس کا آپ پر قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: نبی ﷺ نے مجھے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے لپ بھر روپے دیے۔ میں نے انھیں گنا تو پانچ سو تھے۔ انھوں نے فرمایا: اس سے دوگنا (مزید) لےلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2296]
حدیث حاشیہ:
سب تین لپ ہو گئے۔
آنحضرت ﷺ نے تین لپ کا وعدہ فرمایا تھا جیسے دوسری روایت میں ہے جس کو امام بخاری ؒ نے شہادات میں نکالا، اس کی تصریح ہے۔
باب کا مطلب اس سے یوں نکالا کہ حضرت ابوبکر ؓ جب آنحضرت ﷺ کے خلیفہ اور جانشین ہوئے تو گویا آپ کے سب معاملات اور وعدوں کے وہ کفیل ٹھہرے اور ان کو ان وعدوں کا پورا کرنا لازم ہوا۔
(قسطلانیؒ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2296   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2598  
2598. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔ پھر حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے منادی کرائی کہ نبی کریم ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا آپ پر اس کا کوئی قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں گیا اوربتایا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے تین لپ بھر کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2598]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ نے جابر کو مشروط طور پر بحرین کے مال آنے پر تین لپ مال ہبہ فرمادیا، مگر نہ مال آیا اور نہ آپ پورا کرسکے۔
بعد میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے آپ کا وعدہ پورا فرمایا۔
اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2598   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2683  
2683. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی کریم ﷺ فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے مال آیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: جس شخص کا نبی کریم ﷺ کے ذمے قرض ہو یا اس سے آپ نے کوئی وعدہ کیا ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: میں نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کیا: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے اتنا اتنا مال دیں گے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ پھیلائے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے میرے ہاتھ میں پانچ سو، پھر پانچ سو، پھر پانچ سو درہم دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2683]
حدیث حاشیہ:
گویا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عہد نبوی کو پورا کر دکھایا، اس سے بھی یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ وعدہ کو پورا کرنا ہی ہوگا۔
خواہ بذریعہ عدالت ہی ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2683   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2296  
2296. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اگر بحرین کا خراج آیا تو میں تجھے اس طرح (دونوں لپ بھر کر) دوں گا لیکن بحرین کا خراج آنے سے پہلے ہی نبی ﷺ وفات پا گئے۔ جب بحرین کا خراج آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے منادی کرائی کہ نبی ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا اس کا آپ پر قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: نبی ﷺ نے مجھے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے لپ بھر روپے دیے۔ میں نے انھیں گنا تو پانچ سو تھے۔ انھوں نے فرمایا: اس سے دوگنا (مزید) لےلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2296]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا التزام کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے جو اشیاء انھیں ادا کرنا ہے، خواہ وعدے کی شکل میں ہوں یا قرض کی صورت میں۔
اس التزام سے وہ آپ کے ذمہ لازم ہوگئے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ ایفائے عہد کو پسند کرتے تھے، اس لیے سیدنا ابو بکر ؓ نے اسے بدستور نافذ کیا۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ ہاتھ پھیلا کردینے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے ابوبکر ؓ نے تین لپ بھر کردیے، یعنی آپ کے وعدے کو پوراپورا ادا کیا۔
(فتح الباري: 599/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2296   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2598  
2598. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔ پھر حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے منادی کرائی کہ نبی کریم ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا آپ پر اس کا کوئی قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں گیا اوربتایا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے تین لپ بھر کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2598]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ سے مشروط طور پر ہبہ کا وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین سے مال آیا تو تجھے اتنا دوں گا، مگر مال نہ آیا اور نہ آپ اسے پورا کر سکے حتیٰ کہ آپ وفات پا گئے، بعد میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے آپ کا وعدہ پورا فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتے تھے اور خود بھی اس پر عمل پیرا تھے، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کے طریقے کی اقتدا کرتے ہوئے آپ کا وعدہ پورا کیا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ اگر کسی نے کوئی ہبہ یا وعدۂ ہبہ کیا ہو تو مکارم اخلاق کا تقاضا ہے کہ اسے پورا کیا جائے، اگرچہ شرعی اعتبار سے اس کا پورا کرنا واجب نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2598   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3164  
3164. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: اگرہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تمھیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو اس کے بعد بحرین کا مال آیا۔ تب حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: جس کسی سے رسول اللہ ﷺ نے کوئی وعدہ کیا ہو وہ میرے پاس آئے (میں وعدہ پورا کروں گا)، چنانچہ میں حضرت ابو بکرؓکے پاس گیا اورعرض کی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگربحرین کا مال آیا تو میں تجھے اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مجھ سے فرمایا: تم اس سے لپ بھرلو۔ میں نے ایک لپ بھری تو انھوں نے مجھے فرمایا کہ اب اسے شمار کرو۔ میں نے انھیں شمار کیا تو وہ پانچ سو ہوئے۔ پھر انھوں نے مجھے ایک ہزار پانچ سودیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3164]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒنے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا ہے کہ بحرین کے مال فے اور جزیے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وعدہ پورا کرنے سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
دراصل بحرین سے جزیے کا مال آیا تھا اورجزیہ بھی فے میں سے ہے جو جنگ کے بغیر حاصل ہوتا ہے۔

امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ مال فے جزیہ اور خراج وغیرہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ جہاں چاہے جیسے چاہے خرچ کرسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صوابدیدی اختیارات کی وجہ سے حضرت جابر ؓ کو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا جسے حضرت ابوبکر ؓ نے پورا کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3164