ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے یونس نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سعید بن مسیب نے اور انہیں جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے بنو مطلب کو تو خیبر کے خمس میں سے عنایت فرمایا ہے اور ہمیں نظر انداز کر دیا ہے حالانکہ آپ سے قرابت میں ہم اور وہ برابر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یقیناً بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہیں۔ جبیر بن مطعم رضی اللہ نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو (خمس میں سے) کچھ نہیں دیا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4229]
لم يقسم لبني عبد شمس ولا لبني نوفل من الخمس شيئا كما قسم لبني هاشم و بني المطلب قال وكان أبو بكر يقسم الخمس نحو قسم رسول الله غير أنه لم يكن يعطي قربى رسول الله كما كان يعطيهم رسول الله وكان عمر يعطيهم ومن كان بعده منهم
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4229
حدیث حاشیہ: کیونکہ عبد مناف کے چار بیٹے تھے ہاشم مطلب عبد شمس اور نوفل۔ ہاشم کی اولاد میں آنحضرت ﷺ تھے اور نوفل کی اولاد میں جبیر بن مطعم ؓ عبد شمس کی اولاد میں حضرت عثمان غنی ؓ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4229
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4229
حدیث حاشیہ: عبدِ مناف کے چار بیٹے تھے: مطلب، ہاشم، عبدشمس،اور نوفل۔ ہاشم کی اولاد میں سے رسول اللہ ﷺ اور حضرت علی ؓ تھے جبکہ حضرت عثمان ؓ عبد شمس اور حضرت جبیر بن معطم ؓ بنونوفل سے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے خمس خیبر سے ذوی القربیٰ کا حصہ بنومطلب کو دیا لیکن عبدشمس اور نوفل کی اولاد میں سے کسی کو نہ دیا۔ اس پر حضرت عثمان ؓ اور حضرت جبیر ؓ نے اعتراض کیا کہ جیسے بنو مطلب آپ کے قریبی ہیں ویسے ہی بنو عبدشمس اوربنو نوفل بھی قریبی ہیں کہ یہ سب عبد مناف میں جمع ہوجاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ جاہلیت اور اسلام میں بنومطلب اور بنو ہاشم ایک ہی چیز تھے، جب ان پر کوئی مصیبت آتی تو دونوں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے، چنانچہ خیف بن کنانہ میں بنو مطلب،بنوہاشم کے ساتھ جا کررہے جبکہ عبد شمس اور نوفل نے ان کا ساتھ چھوڑدیاتھا، اس لیے بنو مطلب کو جو حصہ ملا ہے وہ بنوہاشم کی مدد واعانت کی وجہ سے ہے اور بنوعبدشمس اور بنونوفل نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا، اس لیے انھیں کوئی حصہ نہیں دیا گیا، لہذا تمہارا اعتراض برمحل نہیں۔ واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4229
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 524
´صدقات کی تقسیم کا بیان` سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے بنو عبدالمطلب کو خیبر کے خمس میں حصہ عنایت فرمایا ہے اور ہمیں نظرانداز فرمایا حالانکہ ہم اور وہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم رشتہ کے اعتبار سے) ایک ہی مرتبہ کے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بنو عبدالمطلب اور بنو ہاشم ایک ہی چیز ہیں۔“(بخاری)[بلوغ المرام/حدیث: 524]
لغوی تشریح 524: مِن خُمُسِ خَیبَر خمس میں ”خا“ اور ”میم“ دونوں پر ضمہ ہے۔ مال غنیمت کی تقسیم سے پہلے کل اموال کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے لیا جانے والا مال خمس کہلاتا ہے۔ ٘وَنَحنُ وَھُم سے یہاں بنو المطلب مراد ہیں۔ ٘بِمَنزِلَۃٍ وَّاحِدَۃٍ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت داری کے اعتبار سے ایک ہی چیز ہیں۔ یہ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق بنو عبد شمس بن عبدِمناف سے تھا، اور حضرت جبیر کا بنو نوفل بن عبدمناف سے تھا اس طرح دونوں ہاشم بن عبدمناف کے بھائی بنتے ہیں جسطرح مطلب بن عبدمناف۔ اس طرح یہ تینوں عبدشمس، نوفل اور مطلب، ہاشم کے ساتھ قرابتداری میں برابر ہیں۔ تو پھر جب قرابتداری کی بنا پر اگر مطلب کی اولاد استحقاق رکھتی ہے تو عبدشمس اور نوفل کی اولاد بھی استحقاق رکھتی ہے۔ أِنَّمَا بَنُو المُطَّلِبِ وَبَنُوھَاشِمِ شَیئٌ وَّاحِدٌ بنو مطلب اور بنو ھاشم ایک ہی چیز ہیں، اس لیے کہ جاہلیت اور عہدِاسلام میں ان کے مابین باہمی موالاۃ ہمیشہ سے چلی آرہی ہے جبکہ غیروں کے ساتھ ایسا تعلق نہیں ہے۔ یہ لوگ قرابتداروں کو دیے جانے والے حصے میں شریک ہیں، بخلاف دوسروں کے کہ وہ شامل نہیں ہیں، اگرچہ نسب میں یہ سب برابر ہیں۔ مصنف نے اس حدیث کو اس باب میں اس لیے بیان کیا ہے کہ بنومطلب بھی بنو ھاشم کیطرح زکاۃ لینے کی حرمت میں برابر کے شریک ہیں، یعنی دونوں کے لیے زکاۃ لینا حرام ہے۔
فائدہ 524: حضرت جبیر بن مطعم اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا ”ہم اور بنو مطلب برابر ہیں“ کہنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک تو یہ کہ جیسی وفاداری اور اطاعت گزاری بنومطلب کر رہے ہیں ویسی ہم بھی کر رہے ہیں۔ فرمانبرداری میں یکساں ہیں۔ دوسرا یہ کہ قرابتداری کے اعتبار سے بھی ہم میں اور ان میں زیادہ تفاوت نہیں، جتنا کچھ استحقاق قرابت انہیں آپ سے حاصل ہے اتنا ہی ہمیں بھی حاصل ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بنو عبدشمس میں سے اور حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نوفل کی اولاد میں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہاشم کی اولاد سے ہیں۔ ہاشم، مطلب، نوفل اور عبدشمس یہ چاروں عبدِمناف کے بیٹے تھے، اس طرح جبیر، عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم وغیرہ کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہی درجے کا ہے۔ حضرت جبیر و عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے سوال کا بھی یہی مطلب تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ یہ ٹھیک ہے نسب میں بنو عبدشمس اور بنو نوفل، بنومطلب کے برابر ہیں لیکن بنومطلب کی بنو ھاشم کیساتھ باہمی موالاۃ اسلام سے قبل دورِ جاھلیت میں بھی رہی ہے، بنو عبدشمس اور بنو نوفل کے برعکس کہ ان کے بنو ھاشم سے جاہلیت میں ایسے تعلقات نہیں رہے۔ اس لحاظ سے بنومطلب میرے (بنو ھاشم کے) زیادہ قریب ہیں۔ اس قربت کی بنا پر انہیں خمس میں سے دیا گیا ہے اور ان پر زکاۃ حرام ہے۔ اور بنو عبدشمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے نہیں دیا گیا اور نہ ان پر زکاۃ حرام ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 524
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4141
´باب:` جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غزوہ حنین کے اس خمس ۱؎ کے سلسلے میں آپ سے گفتگو کرنے آئے جسے آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب بن عبد مناف کے درمیان تقسیم کر دیا تھا، انہوں نے کہا کہ اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائی بنی مطلب بن عبد مناف میں مال فیٔ بانٹ دیا اور ہمیں کچھ نہ دیا، حالانکہ ہمارا رشتہ انہی لوگوں کے رشتہ کی طرح ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میں تو ہاشم اور مطلب کو ایک ہی سمجھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب قسم الفىء/حدیث: 4141]
اردو حاشہ: آپ کے جد امجد عبد مناف کے چار بیٹے تھے: ہاشم، مطلب، عبد شمس اور نوفل۔ رسول اللہ ﷺ ہاشم کی نسل سے تھے۔ مطلب، عبد شمس اور نوفل کی اولاد آپ کے چچا زاد تھے۔ غزوۂ حنین میں بہت زیادہ مال غنیمت حاصل ہوا۔ اس کے خمس کی مقدار بھی بہت زیادہ تھی۔ آپ نے اس سے بڑے بڑے عطیات دئیے۔ اپنے رشتہ داروں میں سے آپ نے اپنے خاندان بنو ہاشم اور اپنے چچا زاد بنو مطلب کے لوگوں کو عطیات دئیے مگر بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ بھی آپ کے چچا زاد تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ بنو عبد شمس میں سے تھے اور حضرت جبیر بن مطعم بنو نوفل میں سے تھے۔ وہ دونوں صورت حال کی وضاحت کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے او عرص کی کہ بنو ہاشم تو آپ کا خاندان ہے ان کو حصہ دینا بجا مگر بنو مطلب اور ہم آپ کے برابر کے رشتہ دار ہیں۔ بنو مطلب کو دینا اور ہمیں نہ دینا سمجھ میں نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ایک ہی ہیں۔ چونکہ مکہ مکرمہ میں جب رسول اللہ ﷺ ابتلاء کا شکار تھے تو بنو ہاشم کے ساتھ ساتھ بنو مطلب نے بھی آپ کی بھرپور مدد کی تھی لیکن بنو عبد شمس اور بنو نوفل مجموعی طور پر آپ سے لاتعلق رہے اور آپ کا ساتھ نہ دیا، اس لیے آپ نے عطیات دیتے وقت بنو مطلب کو اپنے ساتھ رکھا اور بنو نوفل اور بنو عبد شمس کو الگ رکھا۔ اور آپ اس سلسلے میں حق بجانب تھے۔ اس حدیث کو یہاں ذکر کرنے سے امام صاحب رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رشتے داروں کو خمس میں سے دیا۔ معلوم ہوا آپ کے رشتہ داروں کا خمس میں حصہ ہے لیکن حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ کیا اب بھی اہل بیت کا یہ حق قائم ہے اور کیا پورا خمس ان کا ہے؟ بحث گزر چکی ہے۔ (دیکھئے، حدیث: 4138)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4141
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2978
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔` سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ اور عثمان بن عفان دونوں اس خمس کی تقسیم کے سلسلے میں گفتگو کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ۱؎ جو آپ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب کے درمیان تقسیم فرمایا تھا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمارے بھائیوں بنو مطلب کو حصہ دلایا اور ہم کو کچھ نہ دلایا جب کہ ہمارا اور ان کا آپ سے تعلق و رشتہ یکساں ہے، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں ایک ہی ہیں ۲؎“ جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2978]
فوائد ومسائل: 1۔ اس روایت کا آخری حصہ (وکان ابو بکر۔ ۔ ۔ ) ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمھیں اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ) حضرت جبیر کے قول کا حصہ ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ امام زہری کا قول ہے۔ جو غلطی سے حضرت جبیر کے قول کے ساتھ درج ہو گیا ہے۔ غالباً اسی لئے امام بخای نے اپنے صحیح میں یہ حصہ ذکر نہیں کیا۔ (فتح الباري،کتاب فرض الخمس، باب و من الدلیل علی أن الخمس للإمام) فتح الباری کی عبارت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے۔ کہ ابو دائود کا جو نسخہ حافظ ابن حجر کے سامنے تھا، اس میں اس حصے کے درمیان (ما كان النبيُّ صلي الله عليه وسلم يُعطِيهِم) جتنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو عطا کرتے تھے۔ موجود نہ تھے۔ البتہ حافظ ابن حجرکہتے ہیں۔ کہ ذیلعی نے اس آخری حصے کے مدرج ہونے کی وضاحت کی ہے۔ اور یونس عن لیث ہی کی سند سے اس کو زیادہ تفصیل سے روایت کیاہے۔ (فتح الباری ایضاً)(ما كان النبي ....الخ) کے الفاظ کے بغیر امام زہری کے قو ل کا مفہوم یہ بنتا ہے۔ کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ ذوی القربیٰ کو خمس کا حصہ نہیں دیتے تھے۔ اس حصے کے ساتھ اصل مفہوم یہ بنتا ہے۔ کہ زوی القربیٰ کو مجموعی طور پر اتنا نہ دیتے کہ جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرماتے تھے۔ (اگلی حدیث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے۔ ) دوسری احادیث سے اس کی وجہ بھی سامنے آجاتی ہے۔ سنن نسائی میں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے یہ وضاحت آتی ہے کہ ان کے (اوران سے پہلے حضرت ابو بکر خود رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم کے) نزدیک خمس کے اس حصے کے اخراجات کی مدیں بیوگان کی شادی، بڑے خاندان والے کی خبر گیری ذوی القربیٰ میں سے مقروضوں کے قرض کی ادایئگی تھیں۔ (فتح الباري، أیضا، سنن نسائی، أول کتاب قسم الفیء) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نسبتاً زیادہ خوشحالی کی وجہ سے غالبا ً مجموعی طور پر زوی القربیٰ کی ان مدات کےلئے خرچ ہونے والی رقم کی مقدار کم ہوگئی تھی۔ اس لئے اب خمس میں سے زوی القربیٰ پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت کم اور عام بیوگان یتامیٰ اور مستحقین پر خرچ ہونے والی رقم کی نسبت زیادہ ہوگئی تھی۔ اگلی احادیث میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے۔ اور امام زہری نے اپنے قول میں اس بات کی وضاحت کی ہے۔
2۔ آیت کریمہ میں مذکور ذوی القربیٰ کے لفظ کی تشریح ازروئے سنت ان دو خاندانوں سے کی گئی۔ جو اقتصادی معاشرتی معاملات میں ہر طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ تھے۔ 3۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تعلق قبیلہ بنو عبد شمس سے ہے۔ اور حضرت جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بنونوفل سے۔ یہ دونوں خاندان بنوہاشم کے ساتھ اس طرح کا عملی اشتراک نہیں رکھتے تھے۔ جیسا بنوہاشم اور بنومطلب کے درمیان تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2978
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2881
´(مال غنیمت میں سے) خمس کی تقسیم کا بیان۔` جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ اور عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور خیبر کے خمس مال میں سے جو حصہ آپ نے بنی ہاشم اور بنی مطلب کو دیا تھا اس کے بارے میں گفتگو کرنے لگے، چنانچہ انہوں نے کہا: آپ نے ہمارے بھائی بنی ہاشم اور بنی مطلب کو تو دے دیا، جب کہ ہماری اور بنی مطلب کی قرابت بنی ہاشم سے یکساں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بنی ہاشم اور بنی مطلب کو ایک ہی سمجھتا ہوں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2881]
اردو حاشہ: فوائدومسائل:
(1) مال غنیمت کے پانچ حصے مجاہدین میں تقسیم کئے جاتے ہیں۔ ایک حصہ بیت المال کا ہوتا ہے۔ بیت المال کا یہ حصہ (خمس) جہاں مفاد عامہ کے معاملات پر خرچ کیا جاتا ہے۔ وہاں اس میں سے ایک حصہ رسول اللہ ﷺ کے رشتہ داروں کا ہے جنھیں زکوۃ وصدقات لینا حرام ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ﴾(الانفال 41/8) ”جان لو کہ تم جس قسم کی جو کچھ غنیمت حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ اللہ کا رسول کا (رسول کے) قرابت داروں کا یتیموں کا مسکینوں کااور مسافروں کا ہے۔“
(2) ہاشم مطلب عبد شمس اور نوفل سب عبد مناف کے بیٹے تھے۔ لیکن رسول اللہﷺ کے قرابت داروں کا حصہ صرف ہاشم اور مطلب کی اولاد کو ملتا ہے۔ انھی پر زکاۃ حرام ہے۔ عبد شمس اور نوفل کی اولاد اس میں شامل نہیں۔
(3) حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نوفل کی اولاد میں سے تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ عبد شمس کی اولاد میں سے تھے۔ انھیں خمس میں سے حصہ نہیں ملا۔ بنو ہاشم اور بنو مطلب کے ایک ہونے کی مختلف انداز سے وضاحت کی گئی ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ بنو مطلب نے اسلام سے پہلے بھی بنو ہاشم کا ساتھ دیا تھا اور شعب ابی طالب میں میں بنو ہاشم کے ساتھ رہے اور تکلیفیں برداشت کیں۔ جب کہ بنو نوفل اور بنو عبد شمس نے بائیکاٹ کرنے والوں کا ساتھ دیا اس لیے ان کا بائیکاٹ نہیں کیا گیا چنانچہ خمس کے استحقاق میں بھی بنو ہاشم اور بنو مطلب کو برابر رکھا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2881
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3140
3140. حضرت جبیر بن معطم ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں اور حضرت عثمان بن عفان ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے بنو مطلب کو تو مال دیاہے لیکن ہمیں نظر انداز کردیا ہے، حالانکہ ہم اور وہ آپ سے ایک ہی درجے کی قرابت رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بنو مطلب اور بنوہاشم تو ایک ہی چیزہیں۔“ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے حضرت جبیر بن مطعم ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے بنو شمس اور بنونوفل کو نہیں دیا تھا۔ ابن اسحاق ؒ کاکہناہے کہ عبد شمس، ہاشم اور مطلب ایک ماں سے تھے۔ ان کی والدہ کا نام عاتقہ بن مرہ تھا اور نوفل صرف باپ کی طرف سے ان کے بھائی تھے (ان کی ماں دوسری تھی)۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3140]
حدیث حاشیہ: 1۔ عبدمناف کے چار بیٹے تھے جو ہاشم مطلب، عبدشمس اور نوفل کے نام سے مشہور ہوئے۔ یہ چاروں بھائی اپنے والد کے بعد اپنی قوم کے سردار تھے اور قریش کے امور یہی سر انجام دیتے تھے۔ انھوں نےاپنی تجارت کے فروغ کے لیے دوسرے ممالک کے بادشاہوں سے امن حاصل کررکھا تھا۔ چنانچہ ہاشم نے شام اور روم مطلب نے حمیر، عبدشمس نے حبشہ اور نوفل نے ایران کے بادشاہوں سے تجارت کے لیے اجازت لے رکھی تھی۔ 2۔ بنو مطلب دور جاہلیت اور دور اسلام میں بنو ہاشم سے متعلق رہے اور رسول اللہ ﷺ سے ہمدردی میں پیش پیش تھے۔ بنا بریں جب قریش نے بائیکاٹ کی دستاویز تیار کی تو اس میں بنو ہاشم اور بنو مطلب کو بطور خاص ذکر کیا بنو شمس اور بنو نوفل کو اس بائیکاٹ سے باہر رکھا یعنی شعب ابی طالب میں بنو ہاشم اور بنو مطلب ہی محصور رہے۔ بنوشمس اور نوفل اگرچہ رسول اللہ ﷺ کے جد امجد کے چچا کی اولاد ہیں لیکن انھوں نے کسی بھی موقع پر آپ کا ساتھ نہیں دیا بلکہ وہ آپ سے جنگ و قتال کرتے رہے اور دوسرے قبائل کو بھی آپ سے لڑائی پر آمادہ کرتے رہے اس کے برعکس ہاشم اور مطلب میں بہت الفت تھی جس کا اثر ان کی اولاد میں بھی تھا۔ جاہلیت اور اسلام کے دور میں ان کی باہمی الفت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ نے انھیں شے واحد (ایک ہی چیز) قرار دیا تھا۔ 3۔ امام بخاری ؒ نے ابن اسحاق کے حوالے سے اس اثر پر تنبیہ کی ہے کہ اگر یہ تقسیم قرابت کی وجہ سے ہوتی تو بنو ہاشم اور بنو شمس مساوی تھے اس بنا پر بنو شمس کو ضرور حصہ ملنا چاہیے تھا لیکن یہ عطیہ کسی اور وجہ سے تھا اس میں قرابت داری کا لحاظ نہیں رکھا گیا واضح رہے کہ ہاشم مطلب عبدشمس اور نوفل کا باپ ایک اور مائیں مختلف تھیں کیونکہ نوفل واقدہ بنت عدی کے بطن سے ہے اور باقی تینوں کی ماں عاتکہ بنت مرہ ہے ان چاروں کاباپ "مناف" ایک ہے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبدشمس کی اولاد سے ہیں اور حضرت جبیر ؓ کا تعلق نوفل سے ہےرسول اللہ ﷺ نے خمس خیبرسے بنو مطلب اور بنو ہاشم کو دیا کیونکہ انھوں نے ہر وقت آپ کا ساتھ دیا اور انھیں اس ہمدردی کی وجہ سے اپنے ہی رشتے داروں (قریش) سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔ بنو شمس اور بنو نوفل کو کچھ نہ دیا کیونکہ انھوں نے ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کی تھی اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں رہے تھے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3140