مجھ سے شجاع بن ولید نے بیان کیا ‘ انہوں نے نضر بن محمد سے سنا ‘ کہا ہم سے صخر بن جویریہ نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ عبداللہ، عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے تھے، حالانکہ یہ غلط ہے۔ البتہ عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنا ایک گھوڑا لانے کے لیے بھیجا تھا ‘ جو ایک انصاری صحابی کے پاس تھا تاکہ اسی پر سوار ہو کر جنگ میں شریک ہوں۔ اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے نیچے بیٹھ کر بیعت لے رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ کو ابھی اس کی اطلاع نہیں ہوئی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے پہلے بیعت کی پھر گھوڑا لینے گئے۔ جس وقت وہ اسے لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو وہ جنگ کے لیے اپنی زرہ پہن رہے تھے۔ انہوں نے اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درخت کے نیچے بیعت لے رہے ہیں۔ بیان کیا کہ پھر آپ اپنے لڑکے کو ساتھ لے گئے اور بیعت کی۔ اتنی سی بات تھی جس پر لوگ اب کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے ابن عمر رضی اللہ عنہما اسلام لائے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4186]
يبايع عند الشجرة وعمر لا يدري بذلك فبايعه عبد الله ثم ذهب إلى الفرس فجاء به إلى عمر وعمر يستلئم للقتال فأخبره أن رسول الله يبايع تحت الشجرة قال فانطلق فذهب معه حتى بايع رسول الله فهي التي يتحدث الناس أن ابن عمر أسلم
أشهدت بيعة الرضوان مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال نعم قال قلت فما كان عليه قال قميص من قطن وجبة محشوة ورداء وسيف ورأيت النعمان بن مقرن المزني قائما على رأسه قد رفع أغصان الشجرة عن رأسه والناس يبايعونه