الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
32. بَابُ غَزْوَةُ ذَاتِ الرِّقَاعِ:
32. باب: غزوہ ذات الرقاع کا بیان۔
حدیث نمبر: 4137
وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَخْلٍ فَصَلَّى الْخَوْفَ". وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ نَجْدٍ صَلَاةَ الْخَوْفِ" , وَإِنَّمَا جَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَّامَ خَيْبَرَ.
اور ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھائی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف غزوہ نجد میں پڑھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (سب سے پہلے) غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4137]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4137 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4137  
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی شرح میں حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
وکذالك أخرجھا إبراهیم الحربي في کتاب غریب الحدیث عن جابر قال غزا رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم محارب خصفة بنخل فرأوا من المسلمین غرة فجاءرجل منھم یقال له غورث بن الحارث حتی قام علی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بالسیف فذکرہ وفیه فقال الأعرابی غیر أني أعاھدك أن لا أقاتلك ولا أکون مع قوم یقاتلونك فخلی سبیله فجآء إلی أصحابه فقال جئتکم من عند خیر الناس وَقَدْ ذَكَرَ الْوَاقِدِيُّ فِي نَحْوِ هَذِهِ الْقِصَّة أَنه أَسْلَمَ وَأَنَّهُ رَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَاهْتَدَى بِهِ خلق كثير۔
(فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ رسو ل کریم ﷺ نے ایک کھجور وں کے علاقہ میں خصفہ نامی قبیلے پر جہاد کیا اور واپسی میں مسلمان ایک جگہ دو پہر میں آرام لینے کے لیے متفرق ہو کر جگہ جگہ درختوں کے نیچے سو گئے۔
اس وقت اس قبیلہ کا ایک آدمی غورث بن حارث نامی ننگی تلوار لے کر رسول کریم ﷺ کے سر ہانے کھڑا ہو گیا۔
پس یہ سارا ماجرا ہوا اور اس میں یہ بھی ہے بعد میں جب وہ دیہاتی نا کام ہو گیا تو اس نے کہا کہ میں آپ سے ترک جنگ کا معاہدہ کر تا ہوں اور اس بات کا بھی کہ میں آپ سے لڑنے والی قوم کا ساتھ نہیں دوں گا۔
آنحضرت ﷺ نے اس کا راستہ چھوڑدیا اور وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا میں کہ ایسے بزرگ شخص کے پاس سے آیا ہوں کہ جو بہترین قسم کا آدمی ہے۔
واقدی نے ایسے ہی قصہ میں یہ بھی ذکر کیا ہے کہ بعد میں وہ شخص مسلمان ہو گیا اور اپنی قوم میں واپس آیا اور اس کے ذریعہ بہت سی مخلوق نے ہدایت حاصل کی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4137   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4137  
حدیث حاشیہ:

نجد اونچی زمین کو کہتے ہیں جبکہ نشیبی زمین غور یا تہامہ کہلاتی ہے اور ذات رقاع کا علاقہ بھی نجد میں ہے، گویا غزوہ نجد سے مراد غزوہ ذاتِ رقاع ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے غزوہ نجد، یعنی غزوہ ذات رقاع میں صلاۃ خوف پڑھی تھی اورحضرت ابوہریرہ ؓ محاصرہ خیبر کے دنوں میں مسلمان ہوکر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےتھے۔

اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا کہ غزوہ ذات رقاع غزوہ خیبر کے بعد ہواہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ ایام خیبر میں مسلمان ہوئے۔
پھر انہوں نے اسلام لانے کےبعد غزوہ ذات رقاع میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صلاۃِ خوف ادا کی۔
ابوداؤد کی روایت میں تفصیل ہے کہ مروان بن حکم نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے پوچھا:
کیا آپ نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ صلاۃِ خوف پڑھی ہے؟ حضرت ابوہریرہ نے فرمایا:
ہاں پڑھی ہے۔
مروان نے کہا:
کب پڑھی تھی۔
حضرت ابوہریرہ نے کہا:
غزوہ نجد کے دوران میں جہاد کے موقع پر پڑھی تھی۔
(سنن أبي داود، صلاة السفر، حدیث: 1240 و فتح الباري: 535/7)

واضح رہے کہ صلاۃِ خوف کے متعلق کتب حدیث میں مختلف کیفیات آتی ہیں، حالات وجگہ کے پیش نظر جو صورت مناسب ہو اس پر عمل کرنا چاہئے اور یہ امیر وقت کی صوابدید پر موقوف ہے۔
واللہ اعلم۔
ضروری یادداشت:
غزوہ خندق کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح وکامرانی سے ہمکنار کیا۔
اس طرح مدینہ طیبہ میں مسلمانوں کا اقتدار مضبوط ہوگیا اور جنگ اُحد کے بعد آس پاس کے بدوؤں نے اودھم مچارکھا تھا اور مسلمانوں کو سخت مشکلات میں الجھا رکھا تھا، وہ نہایت ظالمانہ طریقے سے داعیان اسلام پرحملے کرکے انھیں موت کے گھاٹ اتاردیتے تھے، اب ان کی جرءت اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ وہ مدینہ طیبہ پر چڑھائی کی سوچ رہے تھے۔
رسول اللہ ﷺ کو ان دنوں اطلاع ملی کہ بنوعطفان کے دوقبیلےبنومحارب اور بنوثعلبہ لڑائی کے لیے بدوؤں اور دیہاتیوں کی نفری فراہم کررہے ہیں۔
یہ خبر ملتے ہی آپ ﷺ نے نجد پر یلغار کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ ان سنگ دل بدوؤں پر خوف طاری ہوجائے اور وہ دوبارہ مسلمانوں کے خلاف پہلے جیسی سنگین کا روائیوں کی جرائت نہ کریں۔
جب آپ نے یلغار کی تو بدو خوف زدہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔
اہل سیر نے اس سلسلے میں ایک معین غزوے کا نام ذکر کیا ہے جو سرزمین نجد میں پیش آیا اور وہ اسی غزوے کو غزوہ ذات رقاع قراردیتے ہیں۔
اس کا مقصد بدوؤں کی شوکت پرکاری ضرب لگانا تھا تاکہ انھیں مدینے کی طرف منہ کرنے کی جرءت نہ ہو۔
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت اسی غزوے سے متعلق احادیث بیان کی ہیں۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4137