فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 309
´کپڑے میں تھوک لگ جانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کا کنارہ پکڑا، اس میں تھوکا، اور اسے مل دیا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 309]
309۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ تھوک پاک ہے۔ ایک شاذ قول ہے کہ تھوک منہ سے نکلنے کے بعد پلید ہو جاتا ہے مگر یہ بلادلیل ہے۔
➋ کپڑے میں تھوک کر کپڑے کو آپس میں مل لینا مجلس میں تھوکنے کا مہذب طریقہ ہے۔ گندگی نہیں پھیلتی اور آدمی گنوار نہیں لگتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 309
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 729
´مساجد کو خوشبو میں بسانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھا تو غضبناک ہو گئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا، انصار کی ایک عورت نے اٹھ کر اسے کھرچ کر صاف کر دیا، اور اس جگہ پر خلوق خوشبو مل دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے کیا ہی اچھا کیا۔“ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 729]
729 ۔ اردو حاشیہ:
➊ مذکورہ روایت کو محقق کتاب نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین میں سے بعض نے اسے صحیح اور بعض نے حسن قرار دیا ہے اور انھی کی رائے اقرب الی الصواب معلوم ہوتی ہے کیونکہ دیگر صحیح روایات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ کہ دیگر روایات میں مذکور مضمون کی اس روایت سے تردید یا مخالفت بھی نہیں ہوتی، لہٰذا مذکورہ روایت قابل عمل ہے۔ مزید دیکھیے: [سلسلة الأحادیث الصحیحة للألباني: 120/7، حدیث: 3050، و سنن ابن ماجه بتحقیق الدکتور بشار عواد، حدیث: 762]
➋ مسجد میں گند لگا ہو تو اسے کھرچ کر یا صاف کر کے خوشبو لگا دینا اچھا عمل ہے۔ خلوق ایک رنگ دار خوشبو ہے جسے عورتیں استعمال کرتی ہیں کیونکہ مرد کے لیے رنگ دار خوشبو کا استعمال منع ہے، البتہ مسجد کو یہ خوشبو لگانا جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 729
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:405
405. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے ایک دفعہ قبلے کی جانب کچھ تھوک دیکھا تو آپ کو سخت ناگواری ہوئی حتی کہ اس کے اثرات آپکے چہرہ انور پر دیکھے گئے۔ آپ (خود) کھڑے ہوئے اور اپنے دست مبارک سے صاف کر کے فرمایا:”تم میں سے جب کوئی اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے اور اس کا رب اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے، لہذا تم میں سے کوئی (بحالت نماز) اپنے قبلے کی طرف نہ تھوکے بلکہ بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے تھوکے۔“پھر آپ ﷺ نے اپنی چادر کے گوشے میں تھوکا اور اسے الٹ پلٹ کیا، اور فرمایا:”اس طرح بھی کر سکتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:405]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس باب کی روایات میں تین چیزوں کو باعث نفرت قراردیاگیا ہے:
نخامہ:
سینے کا بلغم۔
مخاط:
ناک سے بہنے والی رطوبت۔
بصاق:
منہ کاتھوک۔
مسجد کے معاملے میں ان تینوں کاحکم یکساں ہے کہ یہ چیزیں جہاں کہیں نظر آئیں انھیں فوراً زائل کردیا جائے۔
احترام مسجد کا تقاضاہے کہ مسجد کے خادم یا موذن کاانتظار کیے بغیر ہردیکھنے والا اسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
2۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنا حرام ہے، اگرچہ مسجد سے باہر ہی کیوں نہ ہو۔
اس کی سنگینی حدیث میں بایں الفاظ بیان کی گئی ہے۔
کہ جو شخص قبلے کی طرف تھوکتا ہے قیامت کے دن جب یہ شخص اللہ کے حضور پیش ہوگا تو اس کا تھوک اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان ہوگا۔
(سنن أبي داود، الأطعمة، حدیث: 3824)
ایک روایت میں ہے کہ قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکنے والے کو جب قیامت کے دن اٹھایا جائے گا تو اس کاتھوک اس کے چہرے پر ہوگا۔
(صحیح ابن خذیمة: 278/2، حدیث: 1313)
حضرت سائب بن خلاد بیان کرتے ہیں کہ ایک امام مسجد نے دوران نماز میں قبلے کی جانب منہ کرکے تھوک دیا تو رسول اللہ ﷺ نے اسے امامت سے معزول کرکے فرمایا:
”تو نے اللہ اور اس کےرسول ﷺ کو ایذادی ہے۔
“ (سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 481)
3۔
دوسری روایت میں سامنے نہ تھوکنے کی یہ وجہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس اس کے سامنے ہوتی ہے۔
(صحیح البخاري، حدیث: 406)
اس سے قبلے کی عظمت معلوم ہوتی ہے، نیز اس کی تاویل کی کوئی ضرورت نہیں۔
اگرچہ اس حدیث کے پیش نظر معتزلہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ حاضر وناضر ہے۔
یہ ان کی کھلی جہالت ہے، کیونکہ اگرایسا ہوتاتو بائیں جانب یا پاؤں تلے تھوکنا بھی منع ہوتا۔
(فتح الباري: 658/1)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے ان لوگوں کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے عرش پر ہے، لیکن حافظ صاحب ؒ کی جلالت قدر کے باوجود ان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ متعدد آیات اور بکثرت احادیث اس امر کے متعلق قطعی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے مستوی علی العرش ہے۔
تمام ائمہ سنت کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش معلیٰ پر مستوی ہے اور ہرجگہ اس کی معیت سے مراد اس کی قدرت کاملہ اور وسیع علم ہے۔
بعض اہل علم کا موقف ہے کہ قدرت اور علم اللہ تعالیٰ کی دوالگ الگ صفات ہیں۔
معیت سے قدرت کاملہ اور وسیع علم مرادلینا بھی ایک قسم کی تاویل ہے جس کی ممانعت ہے، لہذا معیت کو بھی اپنے معنی میں ہی رکھا جائےاور یہ موقف اختیار کیاجائے کہ اللہ تعالیٰ اپنی شان کے مطابق ہر ایک کے ساتھ ہے۔
یہ موقف بھی وزنی اور خاصا محتاط ہے۔
اللہ تعالیٰ کے اسماء اور اس کی صفات کے متعلق مکمل بحث آئندہ کتاب التوحید میں آئے گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 405
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:412
412. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے سامنے یا اپنی دائیں جانب نہ تھوکے بلکہ اسے بائیں جانب یا بائیں پاؤں تلے تھوکنا چاہئے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:412]
حدیث حاشیہ:
قاضی عیاض ؒ نے صراحت کی ہے کہ نماز میں دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت بھی اس وقت ہے جبکہ کوئی دوسری صورت ممکن ہو اور اگر مجبوری ہو تو دائیں جانب بھی تھوکا جا سکتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ کپڑے کے موجود ہونےکی صورت میں کوئی مجبوری نہیں ہو سکتی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہماری رہنمائی فرمائی ہے کہ ایسی صورت میں کپڑے میں تھوک کر اسے مسل دیا جائے۔
علامہ خطابی ؒ کہتے ہیں کہ اگر بائیں جانب کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو پھر پاؤں کے نیچے یا اپنے کپڑے میں تھوکنا متعین ہے، جیسا کہ ابو داؤد کی ایک روایت میں ہے اگر بائیں جانب کوئی دوسرا نمازی ہو تو پاؤں کے نیچے تھوک کر اسے مسل دیا جائے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 478)
اور اگر پاؤں کے نیچے کوئی قالین یا صف وغیرہ بچھی ہوتو پھر کپڑے ہی میں تھوک لینا چاہیے، اگر کپڑا بھی موجود نہ ہو توایسی صورت میں اس کا نگل لینا ہی امر ممنوع کے ارتکاب سے اولیٰ معلوم ہوتا ہے۔
(فتح الباری: 661/1)
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 412
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:417
417. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے قبلے کی سمت ناک کی رطوبت لگی ہوئی دیکھی تو آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا اور اس کی ناگواری آپ کے چہرے سے ظاہر ہوئی یا اس وجہ سے آپ کی ناگواری اور اس کی گرانی معلوم ہوئی۔ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے راز و نیاز کی باتیں کرتا ہے یا (فرمایا کہ) اس کا پروردگار اس کے اور قبلے کے درمیان ہوتا ہے، لہذا وہ اپنے قبلے کی جانب نہ تھوکے بلکہ وہ اپنی بائیں جانب یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوکے۔“ اس کے بعد آپ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوکا۔ پھر آپ نے اس کے ایک حصے کو دوسرے حصے پرمل دیا اور فرمایا:”اس طرح بھی کر سکتا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:417]
حدیث حاشیہ:
1۔
دوران نماز میں اگر تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو دو صورتیں پہلے بیان ہو چکی ہیں۔
ایک بائیں جانب اور دوسری بائیں پاؤں کے نیچے۔
اس کے آداب و شرائط بھی بیان ہو چکے ہیں، ایک تیسری صورت کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کہ اپنے کپڑے میں تھوک کر اسے مل دینا چاہیے مگر اس تیسری صورت کو امام بخاری ؒ نے مقید کیا ہے کہ کپڑے میں لے کر رگڑنے کی صورت اس وقت جب تھوک نمازی پر غالب آجائے اور نمازی اس کے غلبے کے وقت دائیں بائیں جانب کا امتیاز نہ کر سکے، ایسی مجبوری میں اسے کپڑے میں لے کر مل دینا چاہیے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں جس قید کا ذکر کیا ہے، وہ حدیث میں موجودنہیں۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
”عنوان کے الفاظ سے امام بخاری ؒ نے ان روایات کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن میں تھوک کے غلبے کی قید موجود ہے جیسا کہ امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا ہے کہ ایسے حالات میں نمازی اپنی بائیں جانب یا اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لے لیکن اگر تھوک عجلت پر مجبور کرے تو اسے اپنے کپڑے میں اس طرح لے لے۔
پھر اس کے ایک کنارے کو دوسرے پررگڑدے اسی طرح ابو داؤد میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نمازی اپنے کپڑے میں تھوکے پھر ایک کنارے کو دوسرے سے رگڑ دے۔
یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں لیکن امام بخاری ؒ کی شرط کے مطابق نہیں ہیں، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں ان کی طرف اشارہ کردیا ہے کہ جن احادیث میں یہ تفصیل نہیں انھیں مفصل احادیث پر محمول کیا جائے۔
“ (فتح الباري: 665/1)
واللہ أعلم۔
2۔
امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنے عناد ین سے بیشتر احادیث کے عموم کی تخصیص اطلاق کی تقیید یا خصوص کی تعیم کرتے ہیں بعض اوقات حدیث میں کوئی ابہام ہوتا ہے تو عنوان میں کسی لفظ کا اضافہ کر کے اس کی وضاحت کر دیتے ہیں اس قسم کے تراجم کو شارح کہا جاتا ہےمختصر یہ ہے اگر نماز میں تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے تو موقع و محل کے مطابق ان تفصیلات پر عمل کیا جائے جو روایات سابقہ میں مذکورہیں اور ان میں ایک مجبور کن صورت مذکورہ حدیث میں بیان ہوئی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 417
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:531
531. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی نماز پڑھتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے مناجات کرتا ہے، اس لیے وہ اپنی دائیں جانب نہ تھوکے، البتہ بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتا ہے۔“ اس روایت میں سعید (بن ابی عروبہ) اپنے شیخ حضرت قتادہ سے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں: ”نمازی کو اپنے سامنے یا آگے نہیں تھوکنا چاہئے لیکن بائیں جانب یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔“ شعبہ کی روایت میں ہے: ”اپنے سامنے یا دائیں جانب نہ تھوکے، بائیں جانب یا قدموں کے نیچے تھوک لے۔“ حمید نے حضرت انس ؓ سے اس طرح نقل کیا ہے: ”قبلے کی جانب یا دائیں طرف نہ تھوکے، ہاں! اگر بائیں جانب یا قدموں کے نیچے تھوک لے تو کوئی حرج نہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:531]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبل ازیں مقررہ اوقات پر نماز ادا کرنے کی اہمیت و افادیت، نیز وقت مقرر سے مؤخر کر کے نماز ادا کرنے کی مذمت بیان ہوئی تھی۔
اس باب کا مقصد یہ ہے کہ نماز اللہ کی بارگاہ میں باریابی حاصل کر کے مناجات کا نام ہے جو بہت بڑا اعزاز ہے۔
اس کے لیے مقررہ اوقات کی پابندی ضروری ہے۔
نماز مؤخر کر کے ادا کرنا گویا اس اعزاز سے محروم ہو نے کے مترادف ہے۔
اللہ کے ہاں یہ ناپسندیدہ عمل ہے کہ بندہ اس کی بارگاہ میں جائے اور اوقات کی نزاکت کا خیال نہ رکھے۔
(فتح الباري: 21/2) (2)
اس حدیث میں مناجات کو اجمال کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
دوسری روایات میں اس کی تفصیل ذکر کی گئی ہے، چنانچہ حدیث قدسی میں ہے:
” اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میں نے نماز (مراد فاتحہ)
کو اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے اور بندے کو وہی ملے گا جس کا سوال کرے گا، چنانچہ جب بندہ ﴿الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“ میرے بندے نے میری حمد کی۔
“ اور جب بندہ ﴿الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
میرے بندے نے میری ثنا کی۔
اور جب بندہ ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے:
میرے بندے نے میری عظمت کا اعتراف کیا اور جب بندہ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے،اور بندے کو اس کی طلب کردہ چیز ضرور دی جائے گی۔
اور جب بندہ ﴿اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ﴾ ﴿صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ﴾ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اس کا تعلق میرے بندے سے ہے اور بندے کو اس کی طلب کردہ چیز دی جاتی ہے۔
“ (صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 878(395)
اس بنا پر بندے کو دوران مناجات میں خلاف ادب چیزوں سے احتراز کرنا چاہیے، یعنی اپنے دائیں اور سامنے کی طرف تھوکنے سے پر ہیز کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 531
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1214
1214. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، اس لیے وہ اپنے آگے یا دائیں جانب نہ تھوکے بلکہ اپنی بائیں جانب قدم کے نیچے بائیں جانب تھوکے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1214]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے بائیں جانب قدم کے نیچے تھوکنے کا جواز معلوم ہوتا ہے، لہٰذا دوران نماز میں بوقت ضرورت ایسا کرنے سے نماز خراب نہیں ہو گی، البتہ سامنے اور دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت ہے۔
مسجد میں پختہ فرش ہونے کی وجہ سے تھوک دفن نہ ہو سکے تو تھوکنے کے لیے رومال وغیرہ استعمال کرنا چاہیے۔
(2)
پھونک مارنا بھی کسی شدید ضرورت کے پیش نظر جائز ہے، بلاوجہ دوران نماز میں پھونک مارنا خشوع کے خلاف ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1214