الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْمَغَازِي
کتاب: غزوات کے بیان میں
17. بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ:
17. باب: غزوہ احد کا بیان۔
حدیث نمبر: 4048
أَخْبَرَنَا حَسَّانُ بْنُ حَسَّانَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ , حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ , عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنَّ عَمَّهُ غَابَ عَنْ بَدْرٍ , فَقَالَ: غِبْتُ عَنْ أَوَّلِ قِتَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَئِنْ أَشْهَدَنِي اللَّهُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَرَيَنَّ اللَّهُ مَا أُجِدُّ , فَلَقِيَ يَوْمَ أُحُدٍ فَهُزِمَ النَّاسُ , فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعْتَذِرُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ هَؤُلَاءِ يَعْنِي الْمُسْلِمِينَ , وَأَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا جَاءَ بِهِ الْمُشْرِكُونَ , فَتَقَدَّمَ بِسَيْفِهِ فَلَقِيَ سَعْدَ بْنَ مُعَاذٍ , فَقَالَ: أَيْنَ يَا سَعْدُ إِنِّي أَجِدُ رِيحَ الْجَنَّةِ دُونَ أُحُدٍ؟ فَمَضَى فَقُتِلَ فَمَا عُرِفَ حَتَّى عَرَفَتْهُ أُخْتُهُ بِشَامَةٍ , أَوْ بِبَنَانِهِ وَبِهِ بِضْعٌ وَثَمَانُونَ مِنْ طَعْنَةٍ وَضَرْبَةٍ وَرَمْيَةٍ بِسَهْمٍ.
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ان کے چچا (انس بن نضر) بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے، پھر انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی ہی لڑائی میں غیر حاضر رہا۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے مجھے کسی اور لڑائی میں شرکت کا موقع دیا تو اللہ دیکھے گا کہ میں کتنی بے جگری سے لڑتا ہوں۔ پھر غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمانوں کی جماعت میں افراتفری پیدا ہو گئی تو انہوں نے کہا: اے اللہ! مسلمانوں نے آج جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس کے لیے معذرت خواہ ہوں اور مشرکین نے جو کچھ کیا میں تیرے حضور میں اس سے اپنی بیزاری ظاہر کرتا ہوں۔ پھر وہ اپنی تلوار لے کر آگے بڑھے۔ راستے میں سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان سے کہا، سعد! کہاں جا رہے ہو؟ میں تو احد پہاڑی کے دامن میں جنت کی خوشبو سونگھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ آگے بڑھے اور شہید کر دیئے گئے۔ ان کی لاش پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ آخر ان کی بہن نے ایک تل یا ان کی انگلیوں کے پور سے ان کی لاش کو پہچانا۔ انکو اسّی (80) سے زیادہ زخم بھالے اور تلوار اور تیروں کے لگے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي/حدیث: 4048]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريإني أجد ريحها من دون أحد قال سعد فما استطعت يا رسول الله ما صنع قال أنس فوجدنا به بضعا وثمانين ضربة بالسيف أو طعنة برمح أو رمية بسهم ووجدناه قد قتل وقد مثل به المشركون فما عرفه أحد إلا أخته ببنانه قال أنس كنا نرى أو نظن أن هذه الآية نزلت فيه وفي أشباهه من
   صحيح البخاريإني أجد ريح الجنة دون أحد فمضى فقتل فما عرف حتى عرفته أخته بشامة أو ببنانه وبه بضع وثمانون من طعنة وضربة ورمية بسهم

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4048 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4048  
حدیث حاشیہ:
ابن شکوال نے کہا اس شخص کا نام عمیر بن حمام ؓ تھا۔
مسلم کی روایت میں ہے کہ عمیر بن حمام ؓ نے جنگ احد کے دن کچھ کھجوریں نکالیں ان کو کھانے لگے پھر کہنے لگے ان کھجورں کے تمام کرنے تک اگر میں جیتا رہا تو یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی چنانچہ جاکر لڑنے لگے اور مارے گئے۔
اسد الغابہ میں ہے کہ عمیر بدر کے دن مارے گئے اور یہ سب انصار میں پہلے شخص تھے جو اللہ کی راہ میں جنگ میں مارے گئے۔
ابن اسحاق نے روایت کی ہے کہ عمیر بن حمام ؓ جب کافروں سے جنگ بدر میں بھڑ گئے تو یہ کہنے لگے کہ اللہ کے پاس جاتا ہوں۔
توشہ ووشہ کچھ نہیں البتہ خدا کا ڈر اور آخرت میں کام آنے والا عمل اور جہاد پر صبر ہے۔
بے شک خدا کا ڈر نہایت مضبوط کرنے والا امر ہے۔
انس بن نضر انصاری ؓ کو عمر بن خطاب ؓ ملے جو گھبرائے ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا بڑا غضب ہو گیا۔
آنحضرت ﷺ شہید ہو گئے۔
انس ؓ نے کہا کہ پھر اب ہم تم زندہ رہ کر کیا کریں گے۔
آنحضرت ﷺ کا خدا تو زندہ ہے۔
اس دین پر لڑ کر مرو جس پر پیغمبر لڑ ے یہ کہہ کر انس بن نضر ؓ کافروں کی صف میں گھس گئے اور لڑتے رہے یہاں تک کہ شہید ہوگئے۔
کہتے ہیں احد کی جنگ میں کافروں کا جھنڈا طلحہ بن ابی طلحہ نے سنبھالا اس کو حضرت علی ؓنے مارا۔
پھر عثمان بن ابی طلحہ نے اس کو امیر حمزہ نے مارا۔
پھر ابو سعید بن ابی طلحہ نے اس کو سعد بن ابی وقاص ؓ نے مارا۔
پھر نافع بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو عاصم بن ثابت انصاری ؓ نے مارا۔
پھر حارث بن طلحہ بن ابی طلحہ نے اس کو بھی عاصم نے مارا۔
پھر کلاب بن ابی طلحہ نے اس کو زبیر ؓ نے مارا۔
پھر جلاس بن طلحہ نے پھر ارطاۃ بن شرحبیل نے اس کو حضرت علی ؓ نے مارا۔
پھر شریح بن قارض نے وہ بھی مارا گیا۔
پھر صواب ایک غلام نے اس کو سعد بن ابی وقاص ؓ یا حضرت علی ؓ یا قزمان ؓ نے مارا۔
اس کے بعد کافر بھاگ نکلے (وحیدی)
اس حدیث کے ذیل میں حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم کی ایک اور تقریر درج کی جاتی ہے جو توجہ سے پڑھنے کے لائق ہے۔
فرماتے ہیں۔
مسلمانو! ہمارے باپ دادا نے ایسی ایسی بہادریاں کرکے خون بہا کر اسلام کو دنیا میں پھیلایا تھا اور اتنا بڑا وسیع ملک حاصل کیا تھا جس کی حد مغرب میں تونس اور اندلس یعنی ہسپانیہ تک اور مشرق میں چین برہما تک اور شمال میں روس تک اور جنوب میں ولایات روم وایران و توران و ہندوستان وعرب وشام ومصر وافریقہ ان کے زیر نگیں تھیں۔
ہماری عیاشی اور بے دینی نے اب یہ نوبت پہنچائی ہے کہ خاص عرب کے سوا حل اور بلاد بھی کافروں کے قبضے میں آرہے ہیں اور ملک تو اب جا چکے ہیں اب جتنا رہ گیا ہے اس کو بنا لو خواب غفلت سے بیدار ہو تو قرآ ن وحدیث کو مضبوط تھا مو۔
وما علینا إلا البلاغ (وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4048   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4048  
حدیث حاشیہ:

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت انس بن نضر ؓ غزوہ بدر کے وقت مدینہ طیبہ میں موجود تھے۔
شاید اپنے کسی کام کے لیے کہیں باہر گئے ہوں۔
اگرچہ غزوہ بدر سے پہلے بھی کفار کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں لیکن غزوہ بدر پہلی جنگ عظیم تھی جو کفر و اسلام کے درمیان برپا ہوئی۔

حضرت انس بن نضر ؓنے احد کے دامن میں جنت کی خوشبو کو سونگھار یہ خوشبو حقیقی تھی یا اسے مجازی معنی پر محمول کیا جائے؟ حافظ ابن حجر ؒ نے دونوں معنی بیان کیے ہیں لیکن ہمارے نزدیک اسے مجازی معنی پر محمول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ اسے ظاہری اور حقیقی معنی پر محمول کرنے میں عافیت ہے روایات میں ہے کہ جب مومن کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ جنت کو دیکھتا اور اس کی مہک سے محفوظ ہوتا ہے خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اگر مرنے والا مقرب لوگوں میں سے ہے تو اس کے لیے خوشبو ئیں جنت کی نعمتیں اور آرام و سکون ہو گا۔
(الواقعة: 88۔
89)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4048