الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2876
´کفن کا کپڑا بھی مردے کے مال میں داخل ہے اس کی دلیل کا بیان۔`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ احد کے دن قتل کر دیے گئے، اور ان کے پاس ایک کمبل کے سوا اور کچھ نہ تھا، جب ہم ان کا سر ڈھانکتے تو ان کے دونوں پاؤں کھل جاتے اور جب دونوں پاؤں ڈھانکتے تو ان کا سر کھل جاتا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر اذخر ڈال دو ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الوصايا /حدیث: 2876]
فوائد ومسائل:
1۔
میت کے قرض کی ادائیگی اور وصیت پر عمل سے پیشتر کفن دفن کا اہمتام لازمی ہے۔
اگر وار ث یا کوئی دوسرا شخص ا س کا اہتمام نہ کرے تو یہ خرچ خود اس کے مال سے لیا جائےگا۔
اگر مرنے والے کا کل مال اس کے کفن دفن پر خرچ ہوجائے۔
تو دیگر وارث وغیرہ محروم ہوں گے۔
2۔
ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی معاشی حالت بہت تنگ تھی۔
4۔
حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کی اپنی ہی چادر میں کفن دیا گیا۔
مذید کا اہتمام نہیں کیا جا سکا تھا۔
4۔
حضرت مصعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کل مال یہی تھا۔
اس لئے اسی میں سے ان کا کفن تیار کیا گیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2876
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3155
´کفن مہنگا بنانا مکروہ ہے۔`
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جنگ احد میں قتل ہو گئے تو انہیں کفن دینے کے لیے ایک کملی کے سوا اور کچھ میسر نہ آیا، اور وہ کملی بھی ایسی چھوٹی تھی کہ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو پیر کھل جاتے تھے، اور اگر ان کے دونوں پیر ڈھانپتے تو سر کھل جاتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کملی سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر کچھ اذخر (گھاس) ڈال دو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3155]
فوائد ومسائل:
1۔
اصل یہی ہے کہ کفن میت کے اپنے مال میں س ہو۔
2۔
کفن میں ایک چاددر بھی کفایت کرجاتی ہے۔
3۔
کفن کا کپڑا تنگ ہو تو سر ڈھانپ کر پائوں پر گھاس وغیرہ ڈال دی جائے۔
4۔
ہمارے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور سلف صالحین کی زندگی انتہائی کفاف (گزارے) والی تھی۔
کہ بعض کےلئے پورا کفن بھی میسر نہ ہوتا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3155
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1276
1276. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا، ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا جوئی تھا۔ اب ہمارا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے تھا۔ ہم میں سے بعض حضرات فوت ہوئے توانھوں نے دنیامیں اپنے اجر کا کچھ حصہ بھی نہیں کھایا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک چکا ہے۔ اور وہ چن چن کر کھا رہے ہیں۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ جنگ احد میں شہید ہوئے تو ہمیں (ان کے ترکے میں) کفن کے لیے ایک چھوٹی سی چادر کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ جب ہم ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اورجب پاؤں ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے قدموں پر اذخر نامی گھاس ڈال دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1276]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے، کیونکہ حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا کفن جب ناکافی رہا تو ان کے پیروں کو اذخرنامی گھاس سے ڈھانک دیا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1276
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6448
6448. حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی تو ہمارا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہ لیا۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے (ترکےمیں) صرف ایک چادر چھوڑی تھی، جب ہم بطور کفن ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں چھپاتے تو سر ننگا ہو جاتا، چنانچہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ اور ہم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن کے پھل دنیا میں خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6448]
حدیث حاشیہ:
یعنی ان کو دنیا کی فتوحات ہوئیں، خوب مال ودولت ملا اور وہ اپنی زندگی آرام سے گزار رہے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6448
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3897
3897. حضرت ابووائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔ اس سے مقصود صرف اللہ تعالٰی کی رضا تھی، چنانچہ ہمارا ثواب اللہ کے ذمے ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی تھے کہ انہوں نے دنیا میں کچھ مفاد حاصل نہ کیا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر ؓ ہیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے تو انہوں نے صرف ایک کمبل چھوڑا۔ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تھے تو پاؤں کھل جاتے اور جب پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر کچھ اذخر گھاس رکھ دیں۔ اور ہم میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کا پھل پک چکا ہے اور وہ چن چن کر کھا رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3897]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ تو غنیمت اور دنیا کامال واسباب ملنے سے پہلے گزر چکے اور بعض زندہ رہے ان کا میوہ خوب پھلا پھولا یعنی دین کے ساتھ انہوں نے اسلامی ترقی وکشادگی کا دور بھی دیکھا اور وہ آرام وراحت کی زندگی بھی پا گئے۔
سچ ہے ﴿إن معَ العسرِ یُسراً﴾ بے شک تنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3897
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4082
4082. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ اس سے ہمارا مقصد صرف اللہ تعالٰی کی رضا جوئی تھا۔ اس بنا پر ہمارا ثواب تو اللہ کے ذمے ہو گیا۔ اب ہم میں سے کچھ لوگ تو گزر گئے یا دنیا سے چلے گئے۔ انہوں نے دنیا میں اپنے ثواب سے کچھ نہ پایا۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ ہیں۔ وہ اُحد کے روز شہید کیے گئے۔ انہوں نے صرف ایک چادر چھوڑی۔ جب ہم اس کے ساتھ ان کا سر ڈھانپتے تھے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور جب ان کے پاؤں چھپائے جاتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا۔ نبی ﷺ نے ہمیں فرمایا: ”اس چادر سے ان کا سر چھپا دو اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دو یا ڈال دو۔“ اور ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا پھل دنیا میں پک چکا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4082]
حدیث حاشیہ:
فائدہ اٹھانے والے وہ صحابہ کرام جوبعد مین اقطارارض کے وارث ہوکر وہاں کےتاج وتخت کےمالک ہوئے اور اللہ نےان کو دنیا میں بھی خوب دیا اور آخرت میں بھی اجرعظیم کےحق دارہوئے اورجولوگ پہلے ہی شہید ہوگئے، ان کا سارا ثواب آخرت کےلیے جمع ہوا۔
دنیا میں انہوں نےاسلام ترقی کا دور نہیں دیکھا۔
ان میں حضرت مصعب بن عمیر جیسے نوجوان اسلام کےسچے فدائی بھی تھے جن کا ذکر یہاں کیا گیا ہے۔
یہ قریشی نوجوان اسلام کےاولین مبلغ تھےجو ہجرت نبوی سےپہلے ہی مدینہ آکر اشاعت اسلام کا اجر عظیم حاصل فرما رہے تھے۔
ان کی تفصیلی حالات باربار مطالعہ کےقابل ہیں جو کسی دوسری جگہ تفصیل سےلکھے گئے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4082
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1276
1276. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا، ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔ ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا جوئی تھا۔ اب ہمارا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے تھا۔ ہم میں سے بعض حضرات فوت ہوئے توانھوں نے دنیامیں اپنے اجر کا کچھ حصہ بھی نہیں کھایا۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ بھی ایسے لوگوں میں سے تھے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا پھل پک چکا ہے۔ اور وہ چن چن کر کھا رہے ہیں۔ حضرت مصعب بن عمیر ؓ جنگ احد میں شہید ہوئے تو ہمیں (ان کے ترکے میں) کفن کے لیے ایک چھوٹی سی چادر کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ جب ہم ان کا سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتے تھے اورجب پاؤں ڈھانپتے تو سر ظاہر ہو جاتا۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے قدموں پر اذخر نامی گھاس ڈال دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1276]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کفن کم پڑ جائے تو سر ڈھانپنے کو ترجیح دی جائے، کیونکہ سر، پاؤں سے افضل ہے۔
اور پاؤں پر اذخر یا کوئی اور گھاس وغیرہ ڈال دی جائے۔
لوگوں کے سامنے دست سوال نہ پھیلایا جائے۔
اس مسئلے کے لیے درج ذیل حدیث سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ شہدائے اُحد کے دو، دو آدمیوں کو ایک ہی کپڑے میں جمع کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1343)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
اگر میت کے ترکے میں اسی قدر کفن دستیاب ہو تو اس پر ہی اکتفا کیا جائے۔
اسے دفن کرنے کے لیے مزید کسی چیز کا انتظار نہ کیا جائے۔
(2)
اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو کفن دینے کی کیفیت بیان ہوئی ہے، جبکہ مستدرک حاکم میں حضرت حمزہ ؓ کو بھی اسی طرح کفن دینے کی روایت بیان ہوئی ہے۔
(فتح الباري: 181/3)
اس حدیث میں صدر اول کے مسلمانوں کے متعلق بیان ہوا ہے کہ وہ کس قسم کی دنیوی زندگی بسر کرتے تھے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ فقروفاقہ کی صعوبتیں برداشت کرنا نیک لوگوں کی منازل ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1276
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3897
3897. حضرت ابووائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی۔ اس سے مقصود صرف اللہ تعالٰی کی رضا تھی، چنانچہ ہمارا ثواب اللہ کے ذمے ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ایسے بھی تھے کہ انہوں نے دنیا میں کچھ مفاد حاصل نہ کیا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر ؓ ہیں۔ وہ جنگ اُحد میں شہید ہوئے تو انہوں نے صرف ایک کمبل چھوڑا۔ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تھے تو پاؤں کھل جاتے اور جب پاؤں ڈھانپتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم ان کا سر ڈھانپ دیں اور ان کے پاؤں پر کچھ اذخر گھاس رکھ دیں۔ اور ہم میں سے کچھ ایسے ہیں کہ جن کا پھل پک چکا ہے اور وہ چن چن کر کھا رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3897]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم آپ کی اجازت سے مدینہ طیبہ ہجرت کرکے آئے کیونکہ آپ کے ہمراہ تو صرف حضرت ابوبکر ؓ اور حضرت عامر بن فہیرہ ؓ تھے۔
ہجرت کرنے والوں سے کچھ ایسے تھے جو دنیا کا مال وسباب ملنے سے پہلے اللہ کوپیارے ہوگئے اور کچھ زندہ رہے۔
ان کا میوہ پھلا پھولا۔
انھوں نے دینی ترقی کے ساتھ ساتھ دنیاوی کشادگی کا دور بھی دیکھا اورآرام وراحت کی زندگی گزاری جیسا کہ قرآن کریم میں ہے کہ ہرتنگی کے بعد آسانی ہوتی ہے۔
(الم نشرح: 94: 6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3897
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3914
3914. (دوسری سند کے ساتھ یہی روایت ہے) حضرت خباب بن ارت ؓ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کی تو ہمارا مقصد صرف اللہ کی رضا تھی۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کا اجر بھی ضرور دے گا، چنانچہ ہم میں سے کچھ حضرات اللہ کو پیارے ہو گئے اور دنیا میں انہوں نے اپنا کوئی بدلہ نہیں پایا۔ ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر ؓ ہیں جو اُحد کی جنگ میں شہید ہو گئے۔ ہمیں ان کے سامان میں کوئی ایسی چیز نہ ملی جس میں ہم انہیں کفن دیتے۔ ایک کمبل کے علاوہ اور کچھ نہیں ملا، وہ بھی ایسا کہ اگر ہم اس سے ان کا سر چھپاتے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور اگر ان کے پاؤں چھپاتے تو سر کھلا رہتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ”ہم حضرت مصعب بن عمیر ؓ کا سر چھپا دیں اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔“ اور ہم میں سے بعض ایسے ہیں جن (کے اجر) کا پھل پک چکا ہے، جسے وہ چن چن کر کھا [صحيح بخاري، حديث نمبر:3914]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہجرت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کی اجازت سے ہجرت کی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کرکے آنے والے صرف حضرت ابوبکر ؓ اور ان کے غلام حضرت عامر بن فہیرہ ؓ تھے۔
2۔
حدیث نمبر۔
: 3914۔
کے فوائد، حدیث: 3897 کے تحت ملاحظہ کریں۔
3۔
واضح رہے کہ حضرت خباب بن ارت ؓ نے یہ حدیث اس وقت بیان کی کہ جب وہ بیمار ہوئے اور ابووائل راوی حدیث ان کی بیمار پرسی کرنے کے لیے ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6448)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3914
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4082
4082. حضرت خباب بن ارت ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی ﷺ کے ساتھ ہجرت کی۔ اس سے ہمارا مقصد صرف اللہ تعالٰی کی رضا جوئی تھا۔ اس بنا پر ہمارا ثواب تو اللہ کے ذمے ہو گیا۔ اب ہم میں سے کچھ لوگ تو گزر گئے یا دنیا سے چلے گئے۔ انہوں نے دنیا میں اپنے ثواب سے کچھ نہ پایا۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ ہیں۔ وہ اُحد کے روز شہید کیے گئے۔ انہوں نے صرف ایک چادر چھوڑی۔ جب ہم اس کے ساتھ ان کا سر ڈھانپتے تھے تو ان کے پاؤں کھل جاتے اور جب ان کے پاؤں چھپائے جاتے تو ان کا سر ننگا ہو جاتا۔ نبی ﷺ نے ہمیں فرمایا: ”اس چادر سے ان کا سر چھپا دو اور ان کے پاؤں پر اذخر گھاس رکھ دو یا ڈال دو۔“ اور ہم میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا پھل دنیا میں پک چکا ہے اور وہ اس سے خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4082]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ کی شہادت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
انھوں نے دنیا میں اسلامی ترقی کا دور نہیں دیکھا، ان کا سارا ثواب آخرت میں جمع ہوگیا۔
یہ قریشی نوجوان اسلام کے اولین مبلغ تھے، جنھوں نے ہجرت نبوی سے پہلے مدینہ طیبہ آکر نشراسلام کا فریضہ ادا کیا اورجن صحابہ کرام ؓ نے اسلامی ترقی کو دیکھا وہ بعد میں اقطارِ ارض کے وارث ہوکرتاج وتخت کے وارث ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے انھیں دنیا میں بہت کچھ دیا اور آخرت میں بھی اجر عظیم کے حقدار ہوئے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4082
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6432
6432. حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: ہم نے نبی کریم ﷺ کے ہمراہ ہجرت کی تھی۔۔۔ اس کے بعد اپنا واقعہ بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6432]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان احادیث میں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کے واقعات کو ایک خاص تسلسل سے بیان کیا گیا ہے کہ پہلے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہجرت کی۔
ہجرت کرنے والوں میں کچھ ایسے حضرات بھی تھے جنہوں نے دنیا سے کچھ حاصل نہ کیا۔
ان میں سے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ بھی تھے جنہیں وفات کے بعد پورا کفن بھی نصیب نہ ہوا۔
ایسے لوگ فتوحات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا آرام نہ پا سکے بلکہ انہوں نے اپنی ساری نیکیاں آخرت کے لیے ہی جمع کر لیں۔
کچھ لوگوں نے فتوحات کا زمانہ پایا۔
انہوں نے اس کے نتیجے میں دنیا آرام اور مال و متاع حاصل کیا اور بڑے بڑے مکانات تعمیر کیے۔
انہیں اس قدر دولت ملی کہ پانی مٹی کے علاوہ انہیں اپنی دولت کا کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔
(2)
گرمی، سردی اور بارش وغیرہ سے محفوظ رہنے کے لیے اگرچہ مکان ضروری ہے لیکن بے جا عمارتیں کھڑی کرنا، محض فخر و مباہات اور نمودونمائش کے لیے کئی کئی منزلہ پلازے تعمیر کرنا اسلامی مزاج کے خلاف ہے، اسے کسی صورت میں اچھا کام نہیں کہا جا سکتا۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا ان احادیث سے یہی مقصود ہے کہ انسان کا بڑی بڑی عمارتوں پر اپنی دولت صرف کرنا دنیا کی زیب و زینت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اسلام کا مزاج قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا۔
واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6432
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6448
6448. حضرت ابو وائل سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم نے حضرت خباب بن ارت ؓ کی عیادت کی تو انہوں نے فرمایا: ہم نے نبی ﷺ کے ہمراہ اللہ تعالٰی کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی تو ہمارا اجر اللہ کے ذمے ثابت ہو گیا۔ ہم میں سے کچھ ساتھی اللہ کو پیارے ہوگئے اور انہوں نے اپنے اجر سے کچھ نہ لیا۔ ان میں حضرت مصعب بن عمیر ؓ جو غزوہ احد میں شہید ہوئے تھے۔ انہوں نے (ترکےمیں) صرف ایک چادر چھوڑی تھی، جب ہم بطور کفن ان کا سر ڈھانپتے تو ان کے پاؤں چھپاتے تو سر ننگا ہو جاتا، چنانچہ نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ان کا سر ڈھانپ دیں اور پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دیں۔ اور ہم میں سے کچھ وہ بھی ہیں جن کے پھل دنیا میں خوب پکے اور وہ مزے سے چن چن کر کھا رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6448]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پہلے پہلے مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کر کے آئے اور مدینہ طیبہ میں لوگوں کو قرآن پڑھانے پر مقرر ہوئے۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3925)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عقبہ اُولیٰ کے انصار کے ہمراہ ہی روانہ کر دیا تھا تاکہ وہ انہیں دین اسلام کی تعلیم دیں۔
(فتح الباري: 336/11)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ اچانک حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے پیوند لگی ہوئی دھاری دار اونی چادر زیب تن کر رکھی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اس حالت کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امیرانہ زندگی کو دیکھا تھا۔
(جامع الترمذي، صفة القیامة، حدیث: 2476) (2)
ہجرت کے بعد حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے فتوحات کا زمانہ نہیں پایا، اسی فقیرانہ حالت میں شہید ہوئے۔
کچھ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایسے بھی تھے کہ فتوحات کے باوجود انہوں نے اپنی حالت میں کوئی تبدیلی لانا گوارا نہیں کی جیسا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ تھے۔
اکثر حضرات نے فتوحات کا زمانہ پایا، انہیں مال و دولت ملا اور انہوں نے اپنی زندگی آرام اور سکون سے گزاری لیکن اس مال و دولت نے ان کا دماغ خراب نہیں کیا بلکہ انہوں نے اپنی دولت کو آخرت بنانے میں صرف کیا۔
(3)
حدیث کے ظاہری الفاظ کا تقاضا ہے کہ جن لوگوں نے ہجرت کے بعد مال و دولت حاصل کیا ان کے اخروی ثواب سے کٹوتی ہو گی جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔
(فتح الباري: 336/11)
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6448