ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد اور فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماء رضی اللہ عنہا نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ مدینہ ہجرت کر کے جانے لگے تو میں نے آپ دونوں کے لیے ناشتہ تیار کیا۔ میں نے اپنے والد (ابوبکر رضی اللہ عنہ) سے کہا کہ میرے پٹکے کے سوا اور کوئی چیز اس وقت میرے پاس ایسی نہیں جس سے میں اس ناشتہ کو باندھ دوں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ پھر اس کے دو ٹکڑے کر لو۔ چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا اور اس وقت سے میرا نام ذات النطاقین (دو پٹکوں والی) ہو گیا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسماء کو «ذات النطاقين.» کہا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3907]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3907
حدیث حاشیہ: یہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں ان کو ذات النطاقین کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہجرت کی رات میں اپنے پٹکے کو پھاڑ کر دو حصے کئے تھے ایک حصہ میں توشہ دان باندھا اور دوسرے کو مشکیزہ پر باندھ دیا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ سے دس سال بڑی تھیں ان ہی کے فرزند حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ کو حجاج ظالم نے قتل کرایا تھا اس حادثہ کے کچھ دن بعد ایک سو سال کی عمر پاکر حضرت اسماء ؓ نے73ھ میں انتقال فرمایا۔ رضي اللہ عنها و أرضاها آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3907
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3907
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے حضرت اسماء ؓ کو اپنا ازاربند پھاڑنے کا مشورہ دیا تھا وہ ان کے والد گرامی حضرت ابوبکر ؓ تھے۔ انھوں نے ہجرت کی رات اپنے پٹکے کو پھاڑ کر دوحصے کرلیے: ایک حصے سے توشہ دان باندھا اوردوسرے کو خود استعمال کیا۔ چونکہ اس کا ایک حصہ خود استعمال کیا، اس لیے اسے ذات النطاق بھی کہاجاتا ہے۔ (فتح الباري: 294/7۔ ) 2۔ حضرت ابن عباس ؓ کی روایت کو امام بخاری ؒ نے متصل سند سے بھی بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4665)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3907
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2979
2979. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر میں آپ کے لیے سفری کھانا تیار کیا۔ انھوں نےفرمایا: جب مجھے آپ کے توشہ دان اور پانی کے مشکیزے باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اپنے کمر بند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں انھیں باندھوں تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم اپنے کمر بند کے دو حصے کر لو۔ ایک سے پانی کے ظرف کو باندھوں اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2979]
حدیث حاشیہ: حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی کا نام اسماء ؓ ہے۔ یہ حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی والدہ ہیں۔ مکہ ہی میں اسلام لائیں۔ اس وقت تک صرف سترہ آدمیوں نے اسلام قبول کیا تھا۔ یہ حضرت عائشہ ؓ سے دس برس بڑی تھیں۔ اپنے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے بعد ۷۳ھ میں بعمر ایک سو سال آپ نے مکہ ہی میں انتقال فرمایا۔ باب کا مطلب یوں ثابت ہوا کہ آپ ﷺ کے لئے اس نیک خاتون نے ہجرت کے سفر کے وقت ناشتہ تیار کیا۔ اسی سے ہر سفر میں خواہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا۔ خاص طور پر فوجوں کے لئے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر متمدن حکومت کے لئے ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2979
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2979
2979. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا ارادہ فرمایا تو میں نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے گھر میں آپ کے لیے سفری کھانا تیار کیا۔ انھوں نےفرمایا: جب مجھے آپ کے توشہ دان اور پانی کے مشکیزے باندھنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو میں نے حضرت ابو بکر ؓ سے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اپنے کمر بند کے علاوہ کوئی چیز نہیں ملتی جس سے میں انھیں باندھوں تو حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: تم اپنے کمر بند کے دو حصے کر لو۔ ایک سے پانی کے ظرف کو باندھوں اور دوسرے سے توشہ دان کو۔ میں نے ایسا ہی کیا تو اس وجہ سے میرا نام ذات النطاقین رکھا گیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2979]
حدیث حاشیہ: (سُفره) وہ کھانا ہے جسے مسافر لوگ سفر میں اپنے ہمراہ لے جاتے ہیں۔ اس وقت اسے عموماً چمڑے کے بنے ہوئے توشہ دان میں رکھا جاتا تھا اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے لیے اس نیک خاتون نے سفر ہجرت کے لیے کھانا تیار کیا۔ اس سے ہر سفر میں خواہ وہ حج کا سفر ہو یا جہاد کا راشن ساتھ لے جانے کا اثبات ہوا اور ایسا کرنا توکل کے منافی نہیں جیسا کہ بعض صوفیا کا خیال ہے۔ یہ سفرہجرت تھا۔ سفر جہادکو اس پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔ فوج کے لیے راشن کا پورا انتظام کرنا ہر مہذب حکومت کے لیے ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2979