ابن شہاب نے بیان کیا اور مجھے عبدالرحمٰن بن مالک مدلجی نے خبر دی، وہ سراقہ بن مالک بن جعشم کے بھتیجے ہیں کہ ان کے والد نے انہیں خبر دی اور انہوں نے سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ ہمارے پاس کفار قریش کے قاصد آئے اور یہ پیش کش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اگر کوئی شخص قتل کر دے یا قید کر لائے تو اسے ہر ایک کے بدلے میں ایک سو اونٹ دیئے جائیں گے۔ میں اپنی قوم بنی مدلج کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ان کا ایک آدمی سامنے آیا اور ہمارے قریب کھڑا ہو گیا۔ ہم ابھی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے کہا سراقہ! ساحل پر میں ابھی چند سائے دیکھ کر آ رہا ہوں میرا خیال ہے کہ وہ محمد اور ان کے ساتھی ہی ہیں ( صلی اللہ علیہ وسلم )۔ سراقہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں سمجھ گیا اس کا خیال صحیح ہے لیکن میں نے اس سے کہا کہ وہ لوگ نہیں ہیں میں نے فلاں فلاں آدمی کو دیکھا ہے ہمارے سامنے سے اسی طرف گئے ہیں۔ اس کے بعد میں مجلس میں تھوڑی دیر اور بیٹھا رہا اور پھر اٹھتے ہی گھر گیا اور لونڈی سے کہا کہ میرے گھوڑے کو لے کر ٹیلے کے پیچھے چلی جائے اور وہیں میرا انتظار کرے، اس کے بعد میں نے اپنا نیزہ اٹھایا اور گھر کی پشت کی طرف سے باہر نکل آیا میں نیزے کی نوک سے زمین پر لکیر کھینچتا ہوا چلا گیا اور اوپر کے حصے کو چھپائے ہوئے تھا۔ (سراقہ یہ سب کچھ اس لیے کر رہا تھا کہ کسی کو خبر نہ ہو ورنہ وہ بھی میرے انعام میں شریک ہو جائے گا) میں گھوڑے کے پاس آ کر اس پر سوار ہوا اور صبا رفتاری کے ساتھ اسے لے چلا، جتنی جلدی کے ساتھ بھی میرے لیے ممکن تھا، آخر میں نے ان کو پا ہی لیا۔ اسی وقت گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور مجھے زمین پر گرا دیا۔ لیکن میں کھڑا ہو گیا اور اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اس میں سے تیر نکال کر میں نے فال نکالی کہ آیا میں انہیں نقصان پہنچا سکتا ہوں یا نہیں۔ فال (اب بھی) وہ نکلی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن میں دوبارہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو گیا اور تیروں کے فال کی پرواہ نہیں کی۔ پھر میرا گھوڑا مجھے تیزی کے ساتھ دوڑائے لیے جا رہا تھا۔ آخر جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت سنی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف کوئی توجہ نہیں کر رہے تھے لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ باربار مڑ کر دیکھتے تھے، تو میرے گھوڑے کے آگے کے دونوں پاؤں زمین میں دھنس گئے جب وہ ٹخنوں تک دھنس گیا تو میں اس کے اوپر گر پڑا اور اسے اٹھنے کے لیے ڈانٹا میں نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے پاؤں زمین سے نہیں نکال سکا۔ بڑی مشکل سے جب اس نے پوری طرح کھڑے ہونے کی کوشش کی تو اس کے آگے کے پاؤں سے منتشر سا غبار اٹھ کر دھوئیں کی طرح آسمان کی طرف چڑھنے لگا۔ میں نے تیروں سے فال نکالی لیکن اس مرتبہ بھی وہی فال آئی جسے میں پسند نہیں کرتا تھا۔ اس وقت میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو امان کے لیے پکارا۔ میری آواز پر وہ لوگ کھڑے ہو گئے اور میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس آیا۔ ان تک برے ارادے کے ساتھ پہنچنے سے جس طرح مجھے روک دیا گیا تھا۔ اسی سے مجھے یقین ہو گیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت غالب آ کر رہے گی۔ اس لیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ کی قوم نے آپ کے مارنے کے لیے سو اونٹوں کے انعام کا اعلان کیا ہے۔ پھر میں نے آپ کو قریش کے ارادوں کی اطلاع دی۔ میں نے ان حضرات کی خدمت میں کچھ توشہ اور سامان پیش کیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول نہیں فرمایا مجھ سے کسی اور چیز کا بھی مطالبہ نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ ہمارے متعلق راز داری سے کام لینا لیکن میں نے عرض کیا کہ آپ میرے لیے ایک امن کی تحریر لکھ دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعہ پر تحریر امن لکھ دی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے۔ ابن شہاب نے بیان کیا اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات زبیر رضی اللہ عنہ سے ہوئی جو مسلمانوں کے ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام سے واپس آ رہے تھے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سفید پوشاک پیش کی۔ ادھر مدینہ میں بھی مسلمانوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ سے ہجرت کی اطلاع ہو چکی تھی اور یہ لوگ روزانہ صبح کو مقام حرہ تک آتے اور انتظار کرتے رہتے لیکن دوپہر کی گرمی کی وجہ سے (دوپہر کو) انہیں واپس جانا پڑتا تھا۔ ایک دن جب بہت طویل انتظار کے بعد سب لوگ آ گئے اور اپنے گھر پہنچ گئے تو ایک یہودی اپنے ایک محل پر کچھ دیکھنے چڑھا۔ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھا سفید سفید چلے آ رہے ہیں۔ (یا تیزی سے جلدی جلدی آ رہے ہیں) جتنا آپ نزدیک ہو رہے تھے اتنی ہی دور سے پانی کی طرح ریتی کا چمکنا کم ہوتا جاتا۔ یہودی بے اختیار چلا اٹھا کہ اے عرب کے لوگو! تمہارے یہ بزرگ سردار آ گئے جن کا تمہیں انتظار تھا۔ مسلمان ہتھیار لے کر دوڑ پڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام حرہ پر استقبال کیا۔ آپ نے ان کے ساتھ داہنی طرف کا راستہ اختیار کیا اور بنی عمرو بن عوف کے محلہ میں قیام کیا۔ یہ ربیع الاول کا مہینہ اور پیر کا دن تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں سے ملنے کے لیے کھڑے ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے رہے۔ انصار کے جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی کو سلام کر رہے تھے۔ لیکن جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا۔ اس وقت سب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عمرو بن عوف میں تقریباً دس راتوں تک قیام کیا اور وہ مسجد (قباء) جس کی بنیاد تقویٰ پر قائم ہے وہ اسی دوران میں تعمیر ہوئی اور آپ نے اس میں نماز پڑھی پھر (جمعہ کے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور صحابہ بھی آپ کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے۔ آخر آپ کی سواری مدینہ منورہ میں اس مقام پر آ کر بیٹھ گئی جہاں اب مسجد نبوی ہے۔ اس مقام پر چند مسلمان ان دنوں نماز ادا کیا کرتے تھے۔ یہ جگہ سہیل اور سہل (رضی اللہ عنہما) دو یتیم بچوں کی تھی اور کھجور کا یہاں کھلیان لگتا تھا۔ یہ دونوں بچے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کی پرورش میں تھے جب آپ کی اونٹنی وہاں بیٹھ گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاءاللہ یہی ہمارے قیام کی جگہ ہو گی۔ اس کے بعد آپ نے دونوں یتیم بچوں کو بلایا اور ان سے اس جگہ کا معاملہ کرنا چاہا تاکہ وہاں مسجد تعمیر کی جا سکے۔ دونوں بچوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ! ہم یہ جگہ آپ کو مفت دے دیں گے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مفت طور پر قبول کرنے سے انکار کیا۔ زمین کی قیمت ادا کر کے لے لی اور وہیں مسجد تعمیر کی۔ اس کی تعمیر کے وقت خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اینٹوں کے ڈھونے میں شریک تھے۔ اینٹ ڈھوتے وقت آپ فرماتے جاتے تھے کہ ”یہ بوجھ خیبر کے بوجھ نہیں ہیں بلکہ اس کا اجر و ثواب اللہ کے یہاں باقی رہنے والا ہے اس میں بہت طہارت اور پاکی ہے“ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے تھے کہ ”اے اللہ! اجر تو بس آخرت ہی کا ہے پس، تو انصار اور مہاجرین پر اپنی رحمت نازل فرما۔“ اس طرح آپ نے ایک مسلمان شاعر کا شعر پڑھا جن کا نام مجھے معلوم نہیں، ابن شہاب نے بیان کیا کہ احادیث سے ہمیں یہ اب تک معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شعر کے سوا کسی بھی شاعر کے پورے شعر کو کسی موقعہ پر پڑھا ہو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب مَنَاقِبِ الْأَنْصَارِ/حدیث: 3906]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3906
حدیث حاشیہ: واقعہ ہجرت اجمال اور تفصیل کے ساتھ موقع بہ موقع کئی جگہ بیان میں آیا ہے۔ تاریخ اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، 27 صفر13نبوت پنج شنبہ12 ستمبر621 ء کی تاریخ تھی کہ رسول کریم ﷺ حضرت ا بوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر شہر مکہ سے نکلے مکہ سے چار۔ پانچ میل کے فاصلہ پر کوہ ثور ہے جس کی چڑھائی سر توڑ ہے۔ آپ بصد مشقت پہاڑ کے اوپر جاکر ایک غار میں قیام پذیر ہوئے۔ الحمد للہ1970 ء کے حج مبارک کے موقعہ پر میں بھی اس غار تک جاکر وہاں تھوڑی دیر تاریخ ہجرت کو یاد کرچکا ہوں۔ نبی اکرم ﷺ کا تین دن وہاں قیام رہا چو تھی شب میں وہاں سے ہر دو بزرگ عازم مدینہ ہوئے۔ عامر بن فہیرہ ؓ اور عبد اللہ بن اریقط ؓ کو بھی معاونین سفر کی حیثیت سے ساتھ لے گئے۔ مدینہ کی جانب یکم ربیع الاول روز دو شنبہ16 ستمبر622ء کو روانگی ہوئی۔ مکہ والوں نے آپ ہر دو کی گرفتاری کے لئے چاروں طرف جاسوس دوڑادیئے تھے۔ جن میں ایک سراقہ بن جعشم (رضي اللہ عنه) بھی تھا جو اپنی گھوڑی پر سوار مسلح رابغ سے کچھ آگے آنحضرت ﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا مگر آپ کی بد دعا سے گھوڑی کے پیر زمین میں دھنس گئے اور سراقہ سمجھ گیا کہ ایک سچے رسول اللہ ﷺ پر حملہ آسان نہیں ہے جس کے ساتھ اللہ کی مدد ہے۔ آخر وہ امن کا طلب گار ہوا اور تحریری طور پر اسے امان دے دی گئی۔ غار سے نکل کر پہلے ہی دن آپ کا گزر ام معبد کے خیمہ پر ہوا تھا جو قوم خزاعہ سے تھی اور سرراہ مسافروں کی خدمت کے لئے مشہور تھی۔ الاستیعاب میں ہے کہ جب سراقہ واپس ہونے لگا تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا سراقہ اس وقت تیری کیا شان ہو گی جب کسریٰ کے شاہی کنگن تیرے ہاتھوں میں پہنائے جائیں گے سراقہ ؓ احد کے بعد مسلمان ہوئے اور خلافت فاروقی میں مدائن فتح ہوا اور کسریٰ کا تاج اور زیورات دربار خلافت میں آئے تو حضرت عمر ؓ نے سراقہ ؓ کو بلا کر اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن پہنا دیئے اور زبان سے فرمایا اللہ اکبر اللہ کی بڑی شان ہے کہ کسریٰ کے کنگن سراقہ اعرابی کے ہاتھوں میں پہنادیئے۔ خیمہ ام معبد پر آنحضرت ﷺ نے آرام فرمایا۔ وہاں سے روانہ ہونے پر راستہ میں بریدہ اسلمی ملا جو آپ کی تلاش میں نکلا تھا مگر آپ سے ہم کلام ہونے پر اپنے ستر ساتھیوں کے ساتھ مسلمان ہوگیا۔ نیز راستہ ہی میں زبیر بن عوام ؓ بھی ملے جو شام سے آرہے تھے اور مسلمانوں کا تجارت پیشہ گروہ بھی ان کے ساتھ تھا انہوں نے نبی کریم ﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے لئے سفید پارچا جات پیش کئے۔ 8 ربیع الاول روز دو شنبہ13 نبوی مطابق23 ستمبر کو آپ قبا میں پہنچ گئے۔ پنچ شنبہ تک یہا ں قیام فرمایا اور اس دوران میں مسجد قبا کی بھی بنیاد رکھی اسی جگہ شیر خدا حضرت علی مرتضیٰ ؓ بھی یہاں پہنچ گئے۔ 12 ربیع الاول 1ھ مطابق 27 ستمبر 622ء بروز جمعہ آپ قبا سے روانہ ہوئے جمعہ کا وقت بنو سالم کے گھر وں میں ہوگیا۔ یہاں آپ نے سو آدمیوں کے ساتھ جمعہ پڑھا جو اسلام میں پہلا جمعہ تھا۔ اس کے بعد آپ یثرب کی جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے اور آج ہی سے شہر کا نام مدینہ النبی ہو گیا۔ عامر بن فہیرہ ؓ جو آپ کے ساتھ سفر میں تھا یہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا غلام تھا۔ حضرت اسماء ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی صاحبزادی ہیں انہوں نے توشہ ایک چمڑے کے تھیلے میں رکھا اور اس کا منہ باندھنے کے لئے اپنے کمر بند کے دو ٹکڑے کر دیئے اور اس سے تھیلے کا منہ باندھا اس روز سے اس خاتون کا لقب ذات النطاقین ہوگیا۔ عبد اللہ بن اریقط راستہ کا ماہر تھا اور عاص بن وائل سہمی کے خاندان کا حلیف تھا۔ جس نے عربی قاعدہ کے مطابق پیالہ میں ہاتھ ڈبو کر اس کے ساتھ حلف کی تھی ایسے پیالے میں کوئی رنگ یا خون بھر ا جاتا تھا۔ سراقہ بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے پانسے کئے اور فال کھولی کہ مجھ کو آنحضرت ﷺ کا پیچھا کرنا چاہیئے یا نہیں مگر فال میرے خلاف نکلی کہ میں ان کا کچھ نقصان نہ کر سکو ں گا۔ عرب تیروں پر فال کھولا کرتے تھے۔ ایک پر کام کرنا لکھتے دوسرے پر نہ کرنا لکھتے پھر تیر نکالنے میں جونسا تیر نکلتا اس کے مطابق عمل کرتے۔ سراقہ نے پروانہ امن حاصل کرکے اپنے ترکش میں رکھ لیا تھا۔ روایت میں لفظ یزول بھم السراب کے الفاظ ہیں۔ سراب وہ ریتی جو دھوپ میں پانی کی طرح چمکتی ہے۔ حافظ نے کہا بعض نے اس کا مطلب یوں کہا ہے کہ آنکھ میں ان کے آنے کی حرکت معلوم ہو رہی تھی لیکن نزدیک آچکے تھے۔ یہ یہودی کا ذکر ہے جس نے اپنے محل کے اوپر سے سفر میں آئے ہوئے نبی کریم ﷺ کو دیکھ کر اہل مدینہ کو بشارت دی تھی کہ تمہارے بزرگ سردار آ پہنچے۔ شروع میں مدینہ والے رسول کریم ﷺ کو نہ پہچان سکے اس لئے حضرت ابو بکر ؓ آپ پر کپڑے کا سایہ کرنے کھڑے ہو گئے۔ ابوبکر ؓ بوڑھے سفید ریش تھے اور آنحضرت ﷺ کی مبارک ڈاڑھی سیاہ تھی۔ لہٰذا لوگوں نے ابوبکر ؓ ہی کو پیغمبر سمجھا ابوبکر ؓ کو جلدی سفید ی آگئی تھی ورنہ عمر میں وہ آنحضرت ﷺ سے دو اڑھائی برس چھوٹے تھے۔ آخر حدیث میں ذکر ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت آپ نے ایک رجز پڑھا جس میں خیبر کے بوجھ کا ذکر ہے۔ خیبر سے لوگ کھجور انگور وغیرہ لاد کر لایا کرتے تھے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ خیبر کا بوجھ اس بوجھ کے مقابلہ پر جو مسلمان تعمیر مسجد نبوی کے لئے پتھر اور گارے کی شکل میں اٹھا رہے تھے کچھ بھی نہیں ہے وہ دنیا میں کھاپی ڈالتے ہیں اور یہ بوجھ تو ایسا ہے جس کا ثواب ہمیشہ قائم رہے گا۔ جس مسلمان کا شعر آنحضرت ﷺ نے پڑھا تھا وہ عبد اللہ بن رواحہ ؓ تھے حدیث ہجرت کے بارے میں یہ چند وضا حتی نوٹ لکھے گئے ہیں ورنہ تفصیلات بہت کچھ ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3906
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3906
حدیث حاشیہ: 1۔ جب کچھ مسلمان ہجرت کرکے مدینہ طیبہ چلے آئے تو کفارمکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ اگرمحمد ﷺ مکہ مکرمہ میں ہمارے ہاتھوں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یہ خطرہ ہمارے کنڑول میں نہیں رہے گا، لہذا اس کا علاج فوری طور پر سوچناچاہیے۔ اس غرض سے انھوں نے دارلندوہ میں ایک میٹنگ رکھی اور شرکائے مجلس سے اس کے متعلق تجاویز اور آراء طلب کیں۔ کسی نے کہا: اسے پایہ زنجیر کرکے قید کردیا جائے۔ شیطان، جو اس مجلس میں انسانی روپ دھار کر موجود تھا، کہنے لگا: یہ تجویز درست نہیں کیونکہ اس کے پیروکار اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اسے چھڑانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ دوسرے نے کہا کہ اسے یہاں سے جلا وطن کردیا جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم روز کی بک بک سے نجات پاجائیں گے۔ شیطان نے کہا: یہ تجویز بھی درست نہیں کیونکہ اس شخص کے کلام وبیان میں اتناجادو ہے کہ وہ جہاں جائے گا وہاں اس کے جاں نثار پیدا ہوجائیں گے پھر وہ انھیں لے کر کسی وقت بھی آپ پرحملہ آور ہوسکتا ہے بعد میں ابوجہل بولا: ہم سب قبائل میں سے ایک ایک جوان لے لیں اور یہ سب مل کرمحمد ﷺ پر یکبار حملہ کردیں اور اسے جان سے مارڈالیں۔ اب یہ توظاہرہے کہ بنو عبد مناف سب قبیلوں سے لڑائی کاخطرہ مول نہیں لے سکتے، لامحالہ خون بہا کا فیصلہ ہوگا جو سب قبائل مل کرادا کریں گے۔ یہ سن کرشیطان کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور اس نے اس رائے کو بہت پسند کیا۔ پھر اس کام کے لیے وقت بھی اسی مجلس میں طے ہوگیا کہ فلاں رات یہ سب نوجوان مل کر محمد ﷺ کے گھر کا محاصرہ کرلیں اور جب وہ باہرنکلے تو یکبارگی اس پر حملہ کرکے اس کا کام تمام کردیں۔ ادھر یہ مشورے ہورہے تھے ادھر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی اپنے نبی کو اس مجلس کی کارروائی سے مطلع کردیا اورآپ کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ”اے نبی! وہ وقت یاد کریں جب کافر آپ کے متعلق خفیہ تدبیریں سوچ رہے تھے کہ آپ کو قید کردیں یا مارڈالیں یا جلاوطن کردیں، وہ بھی تدبیریں کررہے تھے ور اللہ بھی تدبیرکررہاتھا اور اللہ ہی سب سے اچھی تدبیر کرنے والا ہے۔ “(الأنفال: 30/8) چنانچہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ اسی رات قاتلوں کے گروہ نے آپ کا محاصرہ کرنے کا پروگرام بنارکھا تھا۔ وہ بروقت اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ جب صبح تک آپ برآمد نہ ہوئے تو وہ خود اندر داخل ہوگئے۔ کیادیکھتے ہیں کہ گھر میں سیدنا علی ؓ کے علاوہ اور کوئی موجود نہیں۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ آپ جاچکے ہیں تو ان کی برہمی کی کوئی انتہا نہ رہی کیونکہ اللہ نے اس پورے ہاؤس کی پاس کردہ تدابیرکو بری طرح ناکام بنادیا تھا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے قبل تین مقامات پر اختصار سے اسے بیان کیا ہے۔ چنانچہ حدیث: 476۔ میں اس کا پہلاحصہ بیان ہوا ہے۔ پھرحدیث 2263۔ میں ذکر ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور ابوبکر ؓ نے بنودیل کے ایک آدمی کو ملازم رکھا جو انھیں ساحل سمندر کے راستے سے لے گیا۔ اور حدیث 2297 میں ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیاہے کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا، اس وقت سے اپنے والدین کو دین اسلام کے تابع پایا اور ابوبکر ؓ چار ماہ تک اپنی بکریوں کو کیکر کے پت کھلاتے رہے۔ اب اس مقام پر امام بخاری ؒ نے پوری حدیث کو تفصیل سے بیان کیاہے۔ 3۔ تاریخ اسلام میں ہجرت کی بڑی اہمیت ہے۔ رسول اللہ ﷺ 27 سفر 13نبوت بمطابق 12ستمبر 622ء بروز جمعرات حضرت ابوبکر ؓ کو ساتھ لے کر مکہ مکرمہ سے نکلے۔ مکے سے چار پانچ میل کے فاصلے پر کوہ نور ہے۔ وہاں جاکر آپ نے تین دن تک ایک غار میں قیام فرمایا۔ اس کے بعد یکم ربیع الاول بمطابق 16ستمبر 622ء بروز سوموار آپ مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ایک ہفتہ سفر جاری رکھنے کے بعد 8ربیع الاول 13نبوت بمطابق 23ستمبر 622ء بروز سوموار مدینہ سے متصل قباء نامی بستی میں پہنچ گئے۔ جمعرات تک یہاں آرام فرمایا۔ اس دوران میں آپ نے مسجد قباء کی بنیادرکھی۔ 12ربیع الاول 1ہجری جمعہ کے دن آپ قباء سے روانہ ہوئے۔ بنوسالم کے گھروں تک پہنچے تھے کہ جمعہ کا وقت ہوگیا۔ آپ نے اس مقام پر مسلمانوں کے ہمراہ جمعہ اداکیا۔ فراغت کے بعد آپ یثرب کی جنوبی جانب سے شہر میں داخل ہوئے جسے مدینہ طیبہ کے نام سے موسوم کیاجاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے حضرت ابوایوب انصاری ؓ کے ہاں قیام فرمایا اور مسجد نبوی کی بنیاد رکھی جس کا مذکورہ حدیث کے آخر میں ذکر ہے۔ 4۔ رسول اللہ ﷺ نے جس مسلمان کا شعر پڑھاتھا وہ سیدنا عبداللہ بن رواحہ ؓ ہیں جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ حدیث ہجرت کے متعلق یہ چند وضاحتی نوٹ ہیں۔ اس کی تفصیلات تو بہت زیادہ ہیں۔ قارئین کرام کتب سیرت کی طرف رجوع کریں۔ واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3906