محمد بن بشار نے مجھ سے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے بیان کیا، ہم سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار پڑیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہما عیادت کے لیے آئے اور عرض کیا: ام المؤمنین! آپ تو سچے جانے والے کے پاس جا رہی ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر کے پاس (عالم برزخ میں ان سے ملاقات مراد تھی)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3771]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3771
حدیث حاشیہ: 1۔ قافلے کے ہر اول دستے کو فرط کہا جاتا ہے جو قافلے کے آگے ہوتا ہے اور اس کے لیے ضروری انتظامات کرتا ہے اور صدق، فرط کی صفت ہے۔ 2۔ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ آپ سے پہلے تشریف لے گئے ہیں اورآپ ان سے جاملیں گی۔ انھوں نے آپ کے لیے جنت میں اعلیٰ مکان تیار کررکھاہے۔ آپ کو فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ آپ کو خوش ہونا چاہیے کہ آپ کے سچے نمائندے وہاں موجود ہیں جو آپ کے جنت میں لے جائیں گے۔ 3۔ حضرت ابن عباس ؓ کا یہ ارشاد محض عقل پر مبنی نہیں تھا بلکہ انھوں نے اس سلسلے میں ضرور رسول اللہ ﷺ سے سنا ہوگا۔ اس میں حضرت عائشہ ؓ کے لیے فضیلتِ عظیمہ ہے۔ یہ اعزاز کسی دوسری عورت یا بیوی کو حاصل نہیں ہوا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3771