ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے اور انہوں نے ابووائل سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ جب علی رضی اللہ عنہ نے عمار اور حسن رضی اللہ عنہما کو کوفہ بھیجا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے تیار کریں تو عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا: مجھے بھی خوب معلوم ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں آزمانا چاہتا ہے کہ دیکھے تم علی رضی اللہ عنہ کی اتباع کرتے ہو (جو برحق خلیفہ ہیں) یا عائشہ رضی اللہ عنہا کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الصحابة/حدیث: 3772]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3772
حدیث حاشیہ: حضرت عائشہ ؓ لوگوں کے بھڑکانے میں آگئیں، اور حضرت علی ؓ سے اس بات پر لڑنے کو مستعد ہوگئیں کہ وہ حضرت عثمان ؓ کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیتے، حضرت علی ؓ یہ کہتے تھے کہ پہلے سب لوگوں کو ایک ہوجانے دو، پھر اچھی طرح دریافت کرکے جس پر قتل ثابت ہوگا اس سے قصاص لیاجائے گا، خدا کے حکم سے یہ آیت مراد ہے ﴿وقرنَ في بیوتکن﴾(الأحزاب: 33) جو خاص آنحضرت ﷺ کی بیویوں کے لیے اتری ہے، یہاں تک کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ فرماتی تھیں میں تو اونٹ پرسوار ہوکر حرکت کرنے والی نہیں جب تک آنحضرت ﷺ سے نہ مل جاؤں یعنی مرتے دم تک اپنے گھر میں رہوں گی، حافظ نے کہا حضرت عائشہ ؓ اور حضرت طلحہ ؓ اور زبیر ؓ یہ سب حضرات مجتہد تھے، ان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں میں آپس میں اتفاق کرادینا ضروری ہے، اور یہ اس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک کہ حضرت عثمان ؓ کے قاتلین سے قصاص نہ لیاجاتا۔ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3772
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3772
حدیث حاشیہ: 1۔ جنگ جمل کے موقع پر حضرت علی ؓ نے حضرت عمار بن یاسر ؓ اور حضرت حسن ؓ کو کوفے روانہ کیا تاکہ لوگوں کو ان کا ساتھ دینے پر آمادہ کیا جائے۔ دراصل حضرت عائشہ ؓ، حضرت طلحہ ؓ، اورحضرت زبیر ؓ یہ سب حضرات مجتہد تھے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ مسلمانوں کا باہمی اتفاق بہت ضروری ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قاتلین عثمان ؓ سے قصاص نہ لیاجائے۔ حضرت علی ؓ کا موقف تھا کہ پہلے سب لوگوں کو ایک ہوجانے دو، پھر اچھی طرح دریافت کرکے جس پر قتل ثابت ہوگا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ 2۔ اس حدیث میں اس کی اتباع سے مراد اللہ کی اتباع ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امام وقت کی اطاعت کی جائے، اس کے خلاف خروج نہ کیاجائے۔ بہرحال اس معاملے میں حضرت عائشہ ؓ کا اجتہاد مبنی برحقیقت نہ تھا، لیکن اس کا احساس انھیں بعد میں ہوا۔ ۔ ۔ رضي اللہ تعالیٰ عنها۔ ۔ ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3772