ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید بن ابی حسین نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث نے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ عصر کی نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا کہ حسن رضی اللہ عنہ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ آپ نے ان کو اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا: میرے باپ تم پر قربان ہوں تم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شباہت ہے۔ علی کی نہیں۔ یہ سن کر علی رضی اللہ عنہ ہنس رہے تھے (خوش ہو رہے تھے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3542]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3542
حدیث حاشیہ: حضرت حسن رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت مشابہ تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ جناب حسین رضی اللہ عنہ بہت مشابہ تھے۔ ان دونوں میں اختلاف نہیں ہے۔ وجوہ مشابہت مختلف ہوں گے بعض نے کہا کہ حضرت حسن نصف اعلیٰ بدن میں مشابہ تھے اور حضرت حسین نصف اسفل میں۔ غرض یہ کہ دونوں شاہزادے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تصویر تھے۔ اس حدیث سے رافضیوں کا بھی رد ہوا جو جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور مخالف خیال کرتے ہیں کیوں کہ یہ قصہ آپ کی وفات کے بعد کا ہے، کوئی بے وقوف بھی ایسا خیال نہیں کرسکتا۔ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی آل و اولاد کے خیر خواہ اور جاں نثار بن کر رہے۔ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3542