ہم سے قبیصہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن مہدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اور ان سے ان کے والد ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بتاؤ کیا جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ کے مقابلے میں بہتر ہیں؟“ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے کہا کہ وہ تو تباہ و برباد ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں یہ چاروں قبیلے بنو تمیم، بنو اسد، بنو عبداللہ بن غطفان اور بنو عامر بن صعصعہ کے قبیلوں سے بہتر ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ/حدیث: 3515]
أرأيتم إن كان جهينة ، ومزينة ، وأسلم ، وغفار خيرا عند الله من أسد ، وغطفان ومن بني عامر بن صعصعة ، هل خابوا وخسروا ؟ ، قالوا : نعم ، فإن جهينة ، ومزينة ، وأسلم ، وغفارا خير من أسد ، وغطفان ، ومن بني عامر بن صعصعة
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3515
حدیث حاشیہ: جاہلیت کے زمانہ میں جہینہ، مزینہ، اسلم اور غفار کے قبیلے بنی تمیم، بنی اسد، بنی عبداللہ بن غطفان اور بنی عامر بن صعصعہ وغیرہ قبیلوں سے کم درجہ کے سمجھے جاتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو انہوں نے اسے قبول کرنے میں پیش قدمی کی، اس لیے شرف فضیلت میں بنو تمیم وغیرہ قبائل سے یہ لو گ بڑھ گئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3515
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3515
حدیث حاشیہ: مذکور قبائل قابل تعریف اس لیے قراردیے گئے کہ انھوں نے بہت جلد اسلام قبول کرلیا اور بہترین اخلاق کے حامل تھے، نیز ان کے دل نرم اور گداز تھے۔ اس کے برعکس بنو اسد وغیرہ رسول اللہ ﷺ کے بعد طلحہ بن خویلد کے ساتھ مل کر مرتد ہوگئے تھے اور بنوتمیم بھی مدعیہ نبوت سجاح کے ساتھ مل کر دین اسلام سے پھر گئے تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان قبائل کے مقابلے میں جہینہ، مزینہ، اسلم اورغفار کو بہتر قراردیاہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3515