ہم سے ابن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کے غلام نافع نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب عیسیٰ ابن مریم تم میں اتریں گے (تم نماز پڑھ رہے ہو گے) اور تمہارا امام تم ہی میں سے ہو گا۔“ اس روایت کی متابعت عقیل اور اوزاعی نے کی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3449]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3449
حدیث حاشیہ: آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ ابن مریم ؑ کےآسمان سےنازل ہونے پرامت اسلامیہ کااجماع ہے۔ آیت قرآنی ﴿وإن مِن أَھلِ الکِتَابِ الخ﴾ اس عقیدہ پرنص قطعی ہےاوراحادیث صحیحہ اس بارے میں موجود ہیں۔ اس زمانہ آخر میں چند نیچری قسم کےلوگوں نےاس عقیدہ کا انکار کیا اور پنجاب کےایک شخص مرزا قادیانی نے اس انکار کوبہت کچھ اچھالا اورجملہ مسلمانان سلف وخلف کے خلاف ان کی موت کاعقیدۂ باطلہ مشہورد کیا، جوصریح باطل ہے۔ کسی بھی راسخ الایمان مسلمان کوایسے بدعقیدہ لوگوں کی ہفوات سےمتاثر نہیں ہوناچاہیے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3449
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3449
لغوی توضیح: «اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ» تمہارا امام تم میں سے ہو گا، یعنی جب عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہو گا تو وہ نماز نہیں پڑھائیں گے بلکہ اس وقت تم میں موجود کوئی شخص ہی نماز پڑھائے گا۔ [كشف المشكل لا بن الجوزي 882/1، فيض القدير 74/5]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 96
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3449
حدیث حاشیہ: 1۔ ”تمہارا امام تم میں سے ہوگا۔ “ نزول مسیح کے وقت نماز ادا کرنے کا وقت ہوگا اورجماعت تمہارا امام، یعنی حضرت مہدی کرائیں گے جیسا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ نازل ہوں گے تو مسلمانوں کا امیر ان سے کہے گا: آئیں ہمیں نماز پڑھائیں۔ وہ جواب دیں گے: نہیں،تم ایک دوسرے کے امیر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو یہ بزرگی بخشی ہے۔ (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 395(156) واضح رہے کہ پہلی نماز تو امام مہدی پڑھائیں گے اور سیدناعیسیٰ ؑ ان کی اقتدا میں نماز پڑھیں گے لیکن اس کے بعد دوسری نمازیں خود حضرت عیسیٰ ؑ پڑھائیں گے جیساکہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ اس جملے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ تمہارے خلیفہ ہوں گے اورتمہارے دین پر ہوں گے اورقرآن کے مطابق فیصلہ کریں گے، انجیل پر عمل نہیں کریں گے۔ لیکن پہلے معنی زیادہ وزنی معلوم ہوتے ہیں۔ 2۔ حضرت عیسیٰ ؑ کے نازل ہونے کی کیفیت یہ ہوگی کہ آپ ہلکے زرد رنگ کی چادریں پہنے ہوئے، دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے سفید مینار کے پاس مشرقی دمشق میں نزول فرمائیں گے۔ جب سرنیچا کریں گے تو موتیوں کی طرح قطرے ٹپکتے نظر آئیں گے اور جب اپنا سر اٹھائیں گے تو بھی یہی کیفیت ہوگی۔ کافر ان کی سانس کی بوپاتے ہی مرجائے گا اور ان کی سانس حد نظر تک پہنچے گی،پھر وہ دجال کو تلاش کریں گے تو اسے باب لد پر پائیں گے پھر اسے قتل کریں گے۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7373(2937) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دجال میری اُمت میں نکلے گا اور چالیس تک رہے گا۔ ۔ ۔ راوی کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہیں چالیس دن فرمایا یا چالیس سال۔ ۔ ۔ پھر اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیجے گا۔ وہ ایسے ہوں گے جیسے عروہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دجال کو تلاش کرکے اسے ہلاک کردیں گے۔ پھر سات سال تک لوگ اس طرح رہیں گے کہ دوآدمیوں کے درمیان کوئی دشمنی نہیں ہوگی۔ “(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7381(2940) حضرت نواس بن سمعان کی روایت میں ہے کہ دجال اس دنیا میں چالیس دن رہے گا۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7373(2937) بہرحال حضرت عیسیٰ ؑ کو زندہ آسمان پراٹھا لیا گیاتھا۔ وہ آسمانوں میں زندہ ہیں اور قیامت کے قریب نازل ہوں گے اوردجال کو قتل کرکے اس زمین میں کتاب وسنت کا جھنڈا گاڑیں گے۔ مشہور تابعی حضرت حسن فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! حضرت عیسیٰ اللہ کے پاس زندہ ہیں، لیکن جب وہ نازل ہوں گے تو سب لوگ آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ (تفسیر طبري: 14/6) مشہور امام ابوالحسن اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: اس امر پر امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان کی طرف اٹھالیا ہے۔ (الإبانة عن أصول الدیانة، ص: 34) حضرت عیسیٰ ؑ زمین پر اترنے کے بعدچالیس سال تک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے اورشریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ کریں گے۔ (مسند أحمد: 75/6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب معراج ہوا تو آپ نے سیدنا ابراہیم ؑ،سیدناموسیٰ ؑ،اورسیدنا عیسیٰ ؑ سے ملاقات کی اورباہم قیامت کا تذکرہ ہوا۔ بالآخر حضرت عیسیٰ ؑ سے قیامت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: میرے ساتھ قیامت سے پہلے (نزول کا) وعدہ کیا گیا ہے لیکن اس کاوقت اللہ ہی کومعلوم ہے۔ آپ نے خروج دجال کاذکر کیا اور فرمایا: میں نازل ہوکر اسے قتل کروں گا۔ (سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4081 و المستدرك للحاکم: 384/2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے دس نشانیوں کاذکر کیاہے ان میں سے حضرت عیسیٰ ؑ کا نازل ہونا بھی ہے۔ (صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7285(2901) قرب قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کے اترنے میں یہ حکمت ہے کہ اس میں یہودیوں کی تردید ہے جنھوں نے کہا کہ ہم نے انھیں قتل کردیا ہے تواللہ تعالیٰ اس طرح ان کی تکذیب کرے گا کہ انھوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل نہیں کیا بلکہ وہ خود انھیں(یہودیوں کو) قتل کریں گے، نیز عیسائیوں کے باطل دعووں کے بطلان کا اظہار کریں گے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3449