ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ قریب ہے کہ عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام تمہارے درمیان ایک عادل حاکم کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے، سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے والا نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنيا وما فيها» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإن من أهل الكتاب إلا ليؤمنن به قبل موته ويوم القيامة يكون عليهم شهيدا»”اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو عیسیٰ کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3448]
ليوشكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكما عدلا فيكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد حتى تكون السجدة الواحدة خيرا من الدنيا وما فيها
لينزلن ابن مريم حكما عادلا فليكسرن الصليب وليقتلن الخنزير وليضعن الجزية ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3448
حدیث حاشیہ: آیت کامطلب یہ ہواکہ قیامت کےقریب جو یہود و نصاریٰ ہوں گے اور حضرت عیسیٰ ان زمانے میں نازل ہوں گےتو اس زمانے کےاہل کتاب ان کے اوپر آئیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سےایسا ہی منقول ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3448
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3448
حدیث حاشیہ: 1۔ آیت کریمہ کا مطلب یہ ہواکہ قیامت کے قریب جو یہود نصاریٰ ہوں گے حضرت عیسیٰ ؑ ان کے زمانے میں نازل ہوں گے۔ اس وقت تمام اہل کتاب ان پر ایمان لے آئیں گے۔ صلیب توڑنے سے مراد نصرانیت کو ختم کرنا ہے۔ ساری دنیا میں صرف ایک ہی دین، یعنی اسلام نافذ ہوگا۔ حضرت عیسیٰ ؑ اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کے نازل ہونے سے پہلے جزیہ (ٹیکس) باقی رہے گا کیونکہ ہم مال کے محتاج ہیں جبکہ ان کے نازل ہونے کے بعد اس قدر مال کی بہتات ہوجائے گی کہ جذیے وغیرہ کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ اس لیے اسے ختم کردیا جائے گا، نیز جب اہل کتاب مسلمان ہوجائیں گے تو جزیہ کن لوگوں سے لینا ہے۔ عدل وانصاف کے باعث برکات نازل ہوں گی اور خیرات کی بارشیں ہوں گی۔ اس وقت زمین اپنے تمام خزانے باہر نکال دے گی۔ کیونکہ اس وقت کوئی بھی مال ودولت کی طرف خیال نہیں کرےگا، اس لیے اس زمانے میں اللہ کاقرب مال خرچ کرنے سے نہیں بلکہ عبادات بدنیہ سے ملے گا، حتی کہ ایک سجدہ دنیا ومافیها سے بڑھ کرہوگا۔ 2۔ بہرحال قرب قیامت کے وقت حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان سے نازل ہونے پر اُمت اسلامیہ کا اجماع ہے اور اس سلسلے میں احادیث حد تواتر کو پہنچتی ہیں جنھیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3448
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2222
´عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا` «. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْبُيُوعِ: 2222]
� لغوی توضیح: «لَيُوْشِكَنَّ» عنقریب ایسا ہو گا۔ «حَكَماً» یعنی حکمراں جو شریعت محمدی کے مطابق فیصلے کرے گا، معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نبی بھی آئے گا تو اسے آپ کی ہی شریعت پر چلنا ہو گا تو پھر آپ کی بات کے مقابلے میں کسی امام یا بزرگ کی بات کیا حیثیت ہے۔ «اَلْمُقْسِطْ» عدل کرنے والا۔ «يَكْسِرُ الصَّلِيْبَ» صلیب توڑ دیں گے، یعنی حقیقت میں صلیب توڑ کر نصاریٰ کے عقائد کی تردید کر دیں گے۔ «يَضَعُ الْجِزْيَةَ» جزیہ ختم کر دیں گے، یعنی کفار سے صرف اسلام ہی قبول کریں گے اور اگر کوئی اسلام قبول نہیں کرتا تو اس سے جنگ کریں گے۔ «يُفِيْضُ الْمَال» مال زیادہ ہو جائے گا، کیونکہ ظلم کا خاتمہ اور عدل و انصاف کا قیام لوگوں میں خیر و برکت کے نزول کا باعث بنے گا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 95
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4078
´فتنہ دجال، عیسیٰ بن مریم اور یاجوج و ماجوج کے ظہور کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک عیسیٰ بن مریم عادل حاکم اور منصف امام بن کر نازل نہ ہوں، وہ آ کر صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، اور جزیہ کو معاف کر دیں گے، اور مال اس قدر زیادہ ہو گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 4078]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس وقت اسلامی قانون یہ ہے کہ یہودی یا عیسائی اسلامی حکومت میں اپنے مذہب پر قائم رہ سکتے ہیں بشرطیکہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کریں اور جزیہ ادا کریں۔ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ حکم عیسیٰ علیہ السلام کے نزول تک ہے۔ نزول مسیح کے بعد قانون یہ ہوگا کہ یہودی یا عیسائی اسلام قبول کریں یا جنگ کریں اور مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ 2۔ یہ حدیث مرزا احمد قادیانی کے دعوی مسیحیت کی واضح تردید ہے کیونکہ اس میں نازل ہونے والے مسیح کی کوئی علامت نہیں پائی جاتی۔ ان کا نام حضرت عیسی ٰ علیہ السلام ہے۔ اس کا نام غلام احمد تھا۔ اس کی والدہ کا نام سیدہ مریم علیہا السلام ہے۔ اس کی ماں کا نام چراغ بی بی تھا۔ وہ آسمان سے نازل ہونگے یہ قادیان میں پیدا ہوا۔ وہ لوگوں میں انصاف کریں گے۔ یہ عیسائی انگریزوں کی عدالتوں سے انصاف کا طالب تھا۔ وہ حکمران ہوں گے۔ اس نے عیسائی جج ایف ڈوئی کی عدالت میں اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ اپنے مخالفوں کے مرنے کی پیش گوئی نہیں کریگا۔ وہ انصاف کرنے والے ہوں گے۔ اس نے پچاس حصوں کی کتاب تصنیف کرنے کا وعدہ کرکے پیشگی رقم وصول کرکے پانچ حصوں کی کتاب براہین احمدیہ شائع کی۔ وہ بھی کہنے کو پانچ حصے لیکن در حقیقت دو حصوں پر مشتمل ہے۔ وہ صلیب کو توڑیں گے۔ اس کے مذہب کی بنیاد اولي الامر (کافر انگریزوں) کی اطاعت پر ہے۔ وہ مال تقسیم کریں گے۔ یہ اپنے مریدوں سے چند وصول کرکے گزارہ کرنے والا تھا۔ وہ دجال کو قتل کریں گے۔ اس نے دجال کا مطلب انگریز قوم بیان کیا اور ان کی اطاعت کو فرض قراردیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نماز کے امام ہونگے۔ مرزا نے اپنی مسجد میں ایک اور شخص کو امام مقرر کر رکھا تھا اور خود اس کے پیچھے نماز پڑھتا تھا۔ وہ دمشق کی مسجد میں نازل ہوں گے۔ اس نے دمشق کو دیکھا تک نہیں۔ الغرض مرزا غلام احمد قادیانی میں حضرت عیسی ٰابن مریم علیہما السلام والی کوئی علامت موجود نہیں بلکہ اس کا کردار اور اس کی پیش گوئیاں اس کی تکذیب کے لیے کافی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4078
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2233
´عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے نزول کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! عنقریب تمہارے درمیان عیسیٰ بن مریم حاکم اور منصف بن کر اتریں گے، وہ صلیب کو توڑیں گے، سور کو قتل کریں گے، جزیہ ختم کر دیں گے، اور مال کی زیادتی اس طرح ہو جائے گی کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہو گا“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الفتن/حدیث: 2233]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: علماء کا کہنا ہے کہ دیگر انبیاء کو چھوڑ کر عیسیٰ علیہ السلام کے نزول میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ اس نزول سے یہود کے اس زعم کو کہ انہوں نے عیسیٰ کو قتل کیا ہے، باطل کرنا مقصود ہے، چنانچہ نزول عیسیٰ سے ان کے جھوٹ کی قلعی کھل جائے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2233
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:253
فائدہ: اس حدیث میں تصویروں کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ تصویر سے ہر وہ تصویر مراد ہے جسے تصویر کہا جا تا ہو، خواہ وہ ہاتھ سے بنی ہو، خواہ کیمرے سے بنی ہو، خواہ مٹی سے بنی ہو۔ موجودہ دور میں تصویر ایک بہت بڑا فتنہ بن چکی ہے، ہر طرف لڑکیوں کی ایسی ننگی تصاویر ہیں جو ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہیں۔ فتنۂ تصویر کے خلاف بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ تصویر کو دیکھ کر اسے پھاڑ دینا چاہیے، نیز اس حدیث سے فوٹوگرافر کی بہت زیادہ مذمت ثابت ہوتی ہے، جو بغیر کسی ڈر کے دن رات لوگوں کی تصویر میں بنا رہے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 253
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1128
1128- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”عنقریب سیدنا عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تمہارے درمیان ایک انصاف کرنے والے ثالث اور حکمران کے طور پر نازل ہوں گے وہ صلیب کو توڑدیں گے، خنزیر کو مار دیں گے، جزیے کوختم کردیں گے اور مال کو پھیلا دیں گے، یہاں تک کہ اسے کوئی لینے والا نہیں ہوگا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1128]
فائدہ: اس حدیث میں سیدنا عیسٰی علیہ السلام کے متعلق پیش گوئی ہے کہ وہ قرب قیامت اتریں گے، انصاف کریں گے، عیسائیوں کے خلاف جہاد کریں گے، صلیب کو توڑیں گے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موجودہ عیسائی جھوٹے لوگ ہیں، اسی لیے تو عیسٰی علیہ السلام کے خلاف جنگ کریں گے، یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ خنزیر کو قتل کرنا درست ہے ٹیکس کو عیسٰی علیہ السلام ختم کر یں گے، اور مال و دولت بہت ہی عام ہوگا حتی کہ صدقہ لینے والا کوئی نہیں ہوگا ان تمام چیزوں پر ہمارا ایمان ہے، یاد رہے عیسٰی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بن کر نازل ہوں گے، اور قرآن و حدیث کے مطابق زندگی گزاریں گے، اور قرآن و حدیث کا ہی پرچار کر یں گے، اور یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ عیسٰی علیہ السلام آسمانوں پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں، اور وہ آسمانوں پر زندہ ہیں، اور اس پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ عیسٰی علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس نازل ہوں گے۔ ([الـمـعـجم الكبير طبراني: 1/217 حديث: 590] حافظ الهيثمي نے کہا:´رجالہ ثقات ``، ”اس کے راوی ثقہ ہیں“۔ (مجمع الزوائد: 8 / 205) اور اس پر بھی ہمارا ایمان ہے کہ عیسٰی علیہ السلام فلسطین میں لُد شہر کے دروازے کے پاس دجال کو قتل کریں گے، اس کے بعد وہ چالیس (سال، یا ماہ یا دن) تک امام عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے۔ [مسند أحمدحديث: 24971 سنده حسن] سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو عیسٰی بن مریم علیہ السلام کو ملے، ان کو میرا سلام کہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1127
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 391
حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! عیسیٰ بن مریم ؑ یقیناً حاکم عادل بن کر اتریں گے، ضرور صلیب کو توڑ ڈالیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ موقوف کردیں گے۔ اور ضرور ہی جوان اونٹوں کو چھوڑ دیا جائے گا، اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی۔ اور یقیناً لوگوں کے دلوں سے عداوت ِ باہمی، بغض و حسد ختم ہو جائے گا اور لازماً لوگوں کو مال کی دعوت دی جائے گی، تو اسے کوئی قبول نہیں کرے گا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:391]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: : (1) قِلَاصٌ: قلوصٌ کی جمع ہے، نوجوان اونٹ۔ (2) لَا يُسْعَى عَلَيْهَا: ان پر محنت و مشقت نہیں کی جائے گی، مال و دولت کی کثرت اور لوگوں کی دنیا سے بے نیازی و بے رغبتی، اور آخرت کی فکر کی بنا پر لوگوں کی توجہ آخرت کی طرف ہو گی، زکاۃ قبول کرنے والا کوئی نہیں رہے گا، سب آخرت کی فکر کرنے والے ہوں گے، اس لیے اونٹوں سے لوگ کام نہیں لیں گے۔ (3) الشَّحْنَاءُ: عداوت و دشمنی، اور بغض و کینہ۔ (4) تَبَاغُضٌ: باہمی بغض۔ (5) تَحَاسُد: ایک دوسرے سے حسد و کینہ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 391
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2476
2476. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم میں ابن مریم ایک منصف حاکم بن کر نمودار ہو جائیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، نیز جزیہ ختم کردیں گے۔ اس وقت مال کی بہتات ہوگی یہاں تک کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2476]
حدیث حاشیہ: یہ نہایت صحیح اور متصل حدیث ہے اور اس کے راوی سب ثقہ اور امام ہیں۔ ا س میں صاف لفظوں میں یہ مذکور ہے کہ قیامت کے قریب حضرت عیسیٰ ؑ دنیا میں نازل ہوں گے۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ موجود ہیں اور حق تعالی ٰنے ان کو زندہ آسمان کی طر ف اٹھا لیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔ صلیب اور تثلیت نصرانیوں کی مذہبی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ آخر زمانہ میں آسمان سے دنیا میں آکر دین محمدی پر عمل کریں گے اور غیر اسلامی نشانات کو ختم کر ڈالیں گے۔ اس باب کو منعقد کرنے اور اس حدیث کو یہاں لانے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ اگر کوئی صلیب کو توڑ ڈالے یا سور کو مار ڈالے تو اس پر ضمان نہ ہوگا۔ قسطلانی ؒنے کہا کہ یہ جب ہے کہ وہ حربیوں کا مال ہو، اگر ذمی کا مال ہو جس نے اپنی شرائط سے انحراف نہ کیا ہو اور عہد پر قائم ہو تو ایسا کرنا درست نہیں ہے کیوں کہ ذمیوں کے مذہبی حقوق اسلام نے قائم رکھے ہیں اور ان کے مال و جان اور مذہب کی حفاظت کے لیے پوری گارنٹی دی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2476
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2222
2222. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس وقت وہ حاکم منصف ہوں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اور مال اس طرح بہے گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2222]
حدیث حاشیہ: اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ سور نجس العین ہے اس کی بیع جائز نہیں ورنہ حضرت عیسیٰ ؑ اسے قتل کیوں کرتے۔ اور نیست و نابود کیوں کرتے۔ جزیہ موقوف کرنے سے یہ غرض ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ فرمائیں گے یا مسلمان ہو یا قتل ہو۔ جزیہ قبول نہ کریں گے۔ اس حدیث سے صاف حضرت عیسیٰ ؑ کا قیامت کے قریب اترنا اور حکومت کرنا اور صلیب توڑنا، جزیہ موقوف کرنا یہ سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اور تعجب ہوتا ہے اس شخص کی عقل پر جو قادیانی مرزا کو مسیح موعود سمجھتا ہے۔ اللهم ثبتنا علی الحق و جنّبنا من الفتن ما ظهر منها و ما بطن (وحیدی) قتل خنزیر سے مراد یہ کہ یأمر بإعدامه مبالغة في تحریم أکله و فیه توبیخ عظیم للنصاری الذین یدعون أنهم علی طریقة عیسی ثم یستحلون أکل الخنزیر و یبالغون في محبته۔ یعنی حضرت عیسیٰ ؑ اپنے دور حکومت میں خنزیر کی نسل کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں گے۔ اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغہ کا بیان ہے اوراس میں ان عیسائیوں کے لیے بڑی ڈانٹ ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، پھر خنزیر کھانا حلال جانتے ہیں اوراس کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا از سلف تا خلف یہ اعتقاد رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ بن مریم ؑ آسمان پر زندہ ہیں اور وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہو کر شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اس کے تحت حکومت کریں گے۔ حدیث مذکورہ میں آنحضرت ﷺ نے حلفیہ بیان فرمایا ہے کہ وہ بالضرور نازل ہوں گے چوں کہ آج کل فرقہ قادیانیہ نے اس بارے میں بہت کچھ دجل پھیلا کر بعض نوجوانوں کے دماغوں کو مسموم کر رکھا ہے۔ لہٰذا چند دلائل کتاب و سنت سے یہاں پیش کئے جاتے ہیں جو اہل ایمان کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ نص قطعی ہے جس سے حیات مسیح ؑ روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ ﴿وَإِنْ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ إِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا﴾(النساء: 159) یعنی جب حضرت عیسیٰ ؑ آسمان سے نازل ہوں گے تو کوئی اہل کتاب یہودی اور عیسائی ایسا باقی نہ رہے گا جو آپ پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوںگے۔ حیات مسیح کے لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ ہے کہ وہ قرب قیامت نازل ہوں گے اور جملہ اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔ دوسری آیت یہ ہے: ﴿وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا﴾(157) ﴿بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾(النساء: 158-157) یعنی یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ ؑ کو قتل کیا نہ ان کو پھانسی دی، یقینا ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ رفع سے مراد رفع مع الجسد ہے یعنی جسم مع روح، اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ وہاں زندہ موجود ہیں۔ یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ تیسری آیت یہ ہے ﴿إِذْ قَالَ اللَّهُ يَاعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ﴾(آل عمران: 55) یعنی جس وقت کہا اللہ نے، اے عیسیٰ تحقیق لینے والا ہوں میں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کریں گے تیری اوپر ان لوگوں کے کہ کافر ہوئے قیامت کے دن تک۔ یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر ؒ کا ہے۔ آگے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یہود کے عالموں نے ا س وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے تورات کے حکم سے خلاف بتلاتا ہے اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لادیں، جب وہ پہنچے حضرت عیسی ؑ کے یار سرک گئے۔ اس شنابی میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک صورت ان کی رہ گئی۔ اس کو پکڑ کر لائے پھر سولی پر چڑھایا۔ توفی کے اصل و حقیقی معنی أخذ الشيئ وافیا کے ہیں جیسا کہ بیضاوی و قسطلانی اور رازی وغیرہم نے لکھا ہے۔ اور موت توفی کے معنی مجازی ہیں نہ حقیقی، اسی واسطے بغیر قیام قرینہ کے موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اور یہاں کوئی قرینہ موت کا قائم نہیں ہے اس لیے اصل و حقیقی معنی یعنی اخذ الشی و افیا مراد لئے جائیں گے۔ اور انسان کا وافیا لینا یہی ہے کہ مع روح و جسم کے لیا جائے۔ وهو المطلوب۔ لہٰذا یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ چوتھی آیت ﴿وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِ هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ﴾(الزخرف: 61) اور تحقیق وہ عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے۔ پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ہے راہ سیدھی۔ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ المراد بذلك نزوله قبل یوم القیامة قال مجاهد و إنه لعلم للساعة أي آیة للساعة خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامة و هکذا روي عن أبي هریرة و ابن عباس و أبي العالیة و أبي ملك و عکرمة و الحسن و قتادة و ضحاك و غیرهم و قد تواترت الأحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم أنه أخبر بنزول عیسی بن مریم علیه السلام قبل یوم القیامة إماما عدلا و حکما مقسطاً (ابن کثیر) یعنی یہاں مراد عیسیٰ ؑ ہیں۔ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ وہ قیامت کی نشانی ہوں گے۔ یعنی قیامت کی علامت قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ ؑ کا آسمان سے نازل ہونا ہے اور ابوہریرہ ؓ اور ابن عباس ؓ اور ابوالعالیہ اور ابومالک اور عکرمہ اور حسن اور قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں متواتر احادیث صحیحہ موجود ہیں کہ حضرت عیسیٰ ؑ قیامت کے قریب امام عادل اور حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے۔ آیات قرآنی کے علاوہ ان جملہ احادیث صحیحہ کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے ایک یہ حدیث بخاری بھی ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ پس حیات مسیح کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور یہ کتاب اللہ و احادیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے جو اس کا انکار کرے وہ قرآن و احادیث کا انکاری ہے۔ ایسے منکروں کے ہفوات پر ہرگز توجہ نہ کرنی چاہئے۔ تفصیل کے لیے بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔ اہل ایمان کے لیے اس قدر بھی کافی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2222
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2222
2222. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!عنقریب تم میں حضرت عیسیٰ ؑ ابن مریم نازل ہوں گے۔ اس وقت وہ حاکم منصف ہوں گے۔ صلیب توڑ ڈالیں گے۔ خنزیر کو قتل کریں گے۔ جزیہ ختم کردیں گے اور مال اس طرح بہے گا کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہ ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2222]
حدیث حاشیہ: (1) امام بخاری ؒ نے یہ حدیث کتاب البیوع میں اس لیے ذکر کی ہے کہ جو شے حرام ہو اور اس کی بیع جائز نہ ہواسے مار ڈالنا جائز ہے۔ خنزیر کی بیع کو رسول اللہ ﷺ نے حرام قرار دیا ہے، اس اعتبار سے اس کا مار ڈالنا جائز ہے۔ لیکن ذمیوں (کافر جو مسلمانوں کی سلطنت میں رہتے ہوں) کے خنزیر کو مارنا جائز نہیں کیونکہ وہ ان کے نزدیک مال ہے اور ہمیں ان کے مال ضائع کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (2) سیدنا عیسیٰ ؑ مطلق طور پر خنزیر کو مار ڈالیں گے کیونکہ ان کے زمانے میں کوئی ذمی نہیں ہوگا بلکہ اہل کتاب سب مسلمان ہوجائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صلیب بھی توڑ ڈالیں گے۔ حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں: قتل خنزیر سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے دور میں خنزیر کی نسل کشی کا حکم جاری کریں گے، اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغے کا بیان ہے اور عیسائیوں کے لیے سخت وعید ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی کے مدعی ہیں لیکن خنزیر کھانا حلال سمجھتے ہیں اور اس کی محبت میں مبالغے کرتے ہیں۔ (فتح الباري: 522/4) (3) متعدد آیات قرآنیہ اور احادیث شریفہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ آسمان پر زندہ ہیں، قرب قیامت کے وقت وہ نازل ہوں گے اور شریعت محمد یہ نافذ کریں گے۔ (4) مذکورہ حدیث کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حلفاً بیان فرمایا ہے کہ وہ ضرور نازل ہوں گے۔ لیکن امین احسن اصلاحی نے اس موقع پر بھی دجل سے کام لے کر لکھا ہے کہ نصارٰی کی یہ روایت ہمارے ہاں بھی آگئی ہے...... قرآن میں کہیں نہیں ہے کہ مسیح ؑ دوبارہ آئیں گے۔ اتنا بڑا عقیدہ قرآن میں ہونا چاہیے تھا، اخبار آحاد پر ہم کوئی عقیدہ قائم نہیں کرسکتے۔ (تدبرحدیث: 509/1) حضرت اصلاحی نے اس حدیث کی سند پر بھی بحث کی ہے، لکھا ہے کہ اس میں ایک راوی تو ابن شہاب ہیں جن کے متعلق میں اپنی رائے کا اظہار کرتا آرہا ہوں۔ دوسرے راوی سعید بن مسیّب ہیں۔ ان سے مجھے پہلے بڑا حسن ظن رہا ہے کہ مدینہ کے جید علماء میں سے ہیں۔ میں ان کی تعریف کرتا کہ فقہ میں ان کا بڑا مقام ہے لیکن میں نے جب ان کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کی رائے پڑھی تو معلوم ہوا کہ یہ شیعوں کے ساتھ شیعہ اور سنیوں کے ساتھ سنی ہیں تو میں بڑا مایوس ہوا۔ (تدبرحدیث: 507/1) ہمارے نزدیک اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں جو اس "امام" نے لکھا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق جرح وتعدیل کے کسی امام نے بھی حضرت سعید بن مسیّب کے متعلق ایسا نہیں لکھا۔ عقیدۂ نزول کے متعلق ہم اپنی گزارشات آئندہ کتاب الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم کے تحت بیان کریں گے۔ بإذن الله.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2222
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2476
2476. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم میں ابن مریم ایک منصف حاکم بن کر نمودار ہو جائیں۔ وہ صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے، نیز جزیہ ختم کردیں گے۔ اس وقت مال کی بہتات ہوگی یہاں تک کہ اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2476]
حدیث حاشیہ: (1) صلیب، نصرانیوں کا شعار اور ان کی مذہبی علامت ہے۔ حضرت عیسیٰ ؑ کا جب ظہور ہو گا تو وہ دین محمدی پر عمل کریں گے اور غیر اسلامی نشانات ختم کر دیں گے۔ ان حالات میں اگر کوئی صلیب توڑ ڈالے اور خنزیر قتل کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔ اس وقت تمام عیسائی اور یہودی مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں گے۔ خلافت اسلامیہ کے ساتھ جب دوسری قومیں جنگ و قتال پر اتر آئیں اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے کوشاں ہوں تو حربی اقوام کے ساتھ ایسا برتاؤ جائز ہے۔ اگر وہ عیسائی ہوں تو ان کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا جائے گا۔ امن پسند غیر مسلم اقوام اور ذمی حضرات کی جان و مال اور عزت و آبرو اور ان کے مذہب کو اسلام نے پوری پوری آزادی عطا فرمائی ہے۔ (2) اسلام میں اگرچہ اہل کتاب سے جزیہ قبول کر لیا جاتا ہے اور انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جاتا لیکن یہ حکم حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے وقت ختم ہو جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسا ہی فرمایا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2476
الشيخ محمد حسین میمن حفظہ الله، احادیث تطبیق،صحیح بخاری 2222
... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم (عیسیٰ علیہ السلام) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔“ ... [صحیح بخاری، ح: 2222]
نزول عیٰسی علیہ السلام امتی یا نبی؟ «عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول ”والذي نفسي بيده ليو شكن أن ينزل فيكم ابن مريم حكماً مقسطاً. يكسر الصليب ويقتل الخنزير ويضع الجزية ويفيض المال حتى لا يقبله أحد“ .» ”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے قریب ہے کہ تم میں عیٰسی علیہ السلام بطور حاکم، انصاف کرنے والے بن کر اتریں گے صلیب توڑیں گے سور کو قتل کریں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے مال کی فراوانی ہو گی یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔“(کوئی صدقہ کھانے والا نہیں ہو گا) [تخريج: رواه البخاري 2222، و مسلم 155، والترمذي وابن ماجه، واحمد 240/2]
جبکہ دوسری روایت میں اس طرح ہے: «عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الأنبياء اخواة لعلات أمهاتهم شتٰى ودينهم واحد وأنا أولى الناس بعيسى ابن مريم لانه لم يكن بيني وبينه نبي وهو خليفتي على أمتى وهو نازل .... الخ» ”سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انبیائے کرام آپس میں علاتی بھائی ہیں ان کی مائیں الگ الگ ہیں اور ان کا دین ایک ہے میں تمام لوگوں سے زیادہ عیٰسی ابن مریم کے قریب ہوں کیونکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں آیا اور وہ میری امت پر میرے خلیفہ ہو کر اتریں گے“۔ [تاريخ دمشق جلد 50 صفحه 258، فتوىٰ حديثیه صفحه 28-29]
اس روایت پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ جب عیٰسی علیہ السلام امتی بن کر اتریں گے تو جزیہ کو کیسے ختم کریں گے؟ کیوں کہ امتی کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ شریعت میں کسی چیز کا اضافہ کرے یا کسی چیز میں کمی کرے۔ جبکہ پہلی روایت میں جزیہ کے ختم کرنے کا ذکر موجو ہے۔ تطبیق:
➊ اول یہ کہ سیدنا عیٰسی علیہ السلام کے نزول کے وقت لوگ خوب مالدار ہوں گے اور اتنے مالدار ہونگے کہ ان کو مال کی ضرورت ہی نہیں ہو گی، فقر، مسکنت، اور وہ تمام مصارف زکوٰۃ جس کا اللہ تعالیٰ نے [سورۃ توبه آيت: 60] میں ذکر کیا ہے مفقود ہو جائے گا پس زکوٰۃ کا کوئی مستحق نہیں رہے گا تو ایسی حالت میں زکوٰۃ کی فرضیت بھی ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح جزیہ کو اللہ تعالیٰ نے اہل ذمہ پر اس لئے مقرر فرمایا ہے کہ اسے جہاد اور محتاجوں وغیرہ میں لگایا جائے۔ جب یہ بھی نہیں رہے گا تو جزیہ کی فرضیت بھی ساقط ہو جائے گی۔
➋ دوسرا جواب یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر میں اپنے اس مہمان سے جو میرے پاس آیا ہوا ہو یوں کہوں کہ آپ کو میرا بھائی آپ کے گھر چھوڑ دے گا۔ یہ جملہ کہہ کر اپنے مہمان سے اجازت لے کر چلا جاتا ہوں۔ کچھ دیر میں میرا بھائی آتا ہے اور میرے مہمان کو انکی مطلوبہ جگہ پر چھوڑ دیتا ہے غور فرمائیں۔ میں نے اپنے بھائی کو یہ حکم نہیں دیا کہ آپ مہمان کو مطلوبہ جگہ پہنچا دو۔ بلکہ میرا بھائی میرے انداز بیان سے اس بات کو خوب سمجھ گیا کہ مجھے یہ حکم دیا جا رہا ہے۔ قارئین کرام! یہ ایک ایسی مثال ہے جو آئے دن ہمارے ساتھ پیش آتی رہتی ہیں۔
اس طرح اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیٰسی علیہ السلام جزیہ کو ختم کریں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے عیٰسی علیہ اسلام کو یہ تعلیم مل رہی ہے کہ آپ جزیہ کو معاف کریں۔ جیسا کہ اوپر والی مثال میں بھائی کو حکم ملا تھا۔ نیز ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ میرے خلیفہ ہونگے۔
خلیفہ اسی کو کہتے ہیں جو اپنے سے پہلے کی شریعت کو آگے لے کر چلے اس میں رد و بدل نہیں کر سکتا۔ ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: «عليكـم بـسـنـتـي وسـنـة الـخـلفاء الراشدين المهديين تمسكوا بها وعضوا عليها بالنو اجد.» تم پر میری سنت کو اختیار کرنا اور خلفا راشدین جو ہدایت پر ہیں کی سنت کو اختیار کرنا لازم ہے۔ اس سنت کو مضبوطی سے پکڑنا اور داڑھوں کے ساتھ تھامے رکھنا۔۔۔۔۔ [رواه احمد، وابو داؤد، والترمذي، وابن ماجه، بحواله مشكاة المصابيح كتاب الايمان باب الاعتصام بالكتاب والسنة، ح: 165 وقال الاستاذ حافظ زبير على زئي حفظه الله تعالى، حديث صحيح رواه احمد 126/4، 127، ح: 17275، وابوداؤد 4607، الترمذى 2676، وقال حسن صحيح، وابن ماجه 43 من حديث العرباضي بن سارية رضى الله عنه، وصححه ابن حبان: موارد 102، والحاكم 96,95/1، وقال هذا حديث صحيح ليس له علة ووافقة الذهبي]
معلوم ہوا کہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع بھی لازم اور ضروری ہے اور ان کی اتباع دراصل رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اتباع ہے کیونکہ خلفاء راشدین نبی صلى الله عليه وسلم کی سنت ہی کی اتباع کرتے ہیں۔ سیدنا عیٰسی علیہ السلام بھی خلیفہ راشد ہونگے لہذا ان کی اتباع ہر مسلمان کے لئے لازم و ضروری ہو گی۔