ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کیوں نہ میں تمہیں دجال کے متعلق ایک ایسی بات بتا دوں جو کسی نبی نے اپنی قوم کو اب تک نہیں بتائی۔ وہ کانا ہو گا اور جنت اور جہنم جیسی چیز لائے گا۔ پس جسے وہ جنت کہے گا درحقیقت وہی دوزخ ہو گی اور میں تمہیں اس کے فتنے سے اسی طرح ڈراتا ہوں، جیسے نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا تھا۔“[صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ/حدیث: 3338]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3338
حدیث حاشیہ: اللہ پاک اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے دجال کو پہلے کچھ کاموں کی طاقت دے دے گا پھر بعد میں اس کی عاجزی ظاہر کردے گا، ایسی صورت خود بتادے گی کہ وہ خدا نہیں ہے۔ احادیث میں نوح ؑ کا ذکر آیا ہے باب سے یہی مناسبت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3338
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3338
حدیث حاشیہ: 1۔ دجال کا لفظ دجل سے ماخوذ ہے جس کے معنی جھوٹی بات کو خوبصورتی سے پیش کرنا ہیں۔ دجال کانام اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ بہت بڑا مکار، جھوٹ بولنے والا اور فریب کرنے والا ہوگا۔ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کی خصوصیت کی وجہ یہ ذکر ہوئی ہےکہ وہ پہلے نبی ہیں جنھوں نے اپنی قوم کو دجال سے ڈرایاہے۔ ان سے پہلے تمام انبیاء لوگوں کی تربیت کرتے تھے جس طرح باپ اپنی اولاد کی تربیت کرتا ہے۔ 2۔ دجال کے متعلق بہت سے اوصاف دیگر احادیث میں بیان ہوئے ہیں لیکن ان میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ دجال کی ایک آنکھ ختم ہوگی اور دوسری میں عیب ہوگا اسے ہر صورت میں ایک چشم یعنی کانا کہا جاسکتا ہے جبکہ اللہ رب العزت ایسا نہیں ہے۔ 3۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمانے کے لیے دجال کو پہلے کچھ کاموں کی طاقت دے گا پھر بعد میں اس کی عاجزی ظاہر کر دے گا۔ ایسی صورت حال خود ظاہر کردے گی کہ وہ رب نہیں۔ چونکہ ان احادیث میں حضرت نوح ؑ کا ذکر ہے اس لیے عنوان سے اتنی سی مطابقت کافی ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3338