الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
29. بَابُ الصَّلاَةِ عَلَى النُّفَسَاءِ وَسُنَّتِهَا:
29. باب: اس بارے میں کہ نفاس میں مرنے والی عورت پر نماز جنازہ اور اس کا طریقہ کیا ہے؟
حدیث نمبر: 332
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شَبَابَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ،" أَنَّ امْرَأَةً مَاتَتْ فِي بَطْنٍ فَصَلَّى عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ وَسَطَهَا".
ہم سے احمد بن ابی سریح نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ بن سوار نے، کہا ہم سے شعبہ نے حسین سے۔ وہ عبداللہ بن بریدہ سے، وہ سمرہ بن جندب سے کہ ایک عورت (ام کعب) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے (جسم کے) وسط میں کھڑے ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/حدیث: 332]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريصلى عليها النبي فقام وسطها
   صحيح البخاريصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح البخاريصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها وسطها
   صحيح مسلمصليت خلف النبي وصلى على أم كعب ماتت وهي نفساء فقام رسول الله للصلاة عليها وسطها
   صحيح مسلمصليت وراء رسول الله على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها رسول الله في الصلاة وسطها
   جامع الترمذيصلى على امرأة فقام وسطها
   سنن أبي داودصليت وراء النبي على امرأة ماتت في نفاسها فقام عليها للصلاة وسطها
   سنن النسائى الصغرىقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن النسائى الصغرىصلى على أم فلان ماتت في نفاسها فقام في وسطها
   سنن النسائى الصغرىقام رسول الله في الصلاة في وسطها
   سنن ابن ماجهصلى على امرأة ماتت في نفاسها فقام وسطها
   بلوغ المرامصليت وراء النبي صلى الله عليه وآله وسلم على امراة ماتت في نفاسها فقام وسطها

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 332 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
تشریح:
«في بطن» سے زچگی کی حالت میں مرنا مراد ہے۔
اس سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز ادا فرمائی۔ اس سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت سے آدمی نجس ہو جاتا ہے۔ یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الجنائز میں بھی ہے۔ جس میں نفاس کی حالت میں مرنے کی صراحت موجود ہے۔ مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 332   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 332  
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جو عورت نفاس کی حالت میں مر جائے تو اس پر جنازہ پڑھنا اور اس کا طریقہ دلیل کے طور پر حدیث پیش کرتے ہیں کہ ایک عورت نفاس کی حالت میں مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی (یہ عورت ام کعب انصاریہ تھیں)۔ [التوضيح لمبهات الجامع الصحيح للموفق العدين ابي ذر العجمي، ج1، ص45]
مقصود یہ ہے کہ بعض لوگ حالت نفاس والی کو نجس قرار دیتے ہیں امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ عورت نفاس کے دوران ناپاک ہوتی تو اس پر نماز نہ پڑھی جاتی حالانکہ وہ نفاس میں نماز نہیں پڑھتی اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی کیوں کہ مومن زندہ ہو یا مردہ وہ پاک ہی ہوتا ہے اس حدیث کے ذیل میں صرف باب کہہ کر حدیث پیش کرتے ہیں جس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ مجھ کو حیض آیا کرتا تھا نماز نہیں پڑتی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سجدہ گاہ کے برابر پاؤں دراز کر کے لیٹی رہتی حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مصلے پر نماز پڑھتے تھے جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کے کپڑے کا کنارہ مجھ کو لگتا تھا یعنی آپ اس کپڑے کو ناپاک نہ جانتے۔ [صحيح البخاري كتاب الحيض رقم الحديث 333]
یعنی جب حائضہ کا کپڑا پاک ہوا تو جس جسم پر یہ پہنا ہوا تھا وہ بھی پاک ہے مناسبت یہیں سے نکلتی ہے۔ کہ مومن زندہ اور مردہ دونوں حالت میں پاک ہے۔
تنبیہ:
امام کرمانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا کہ آپ نے جو حدیث ذکر کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى بطن» زچگی میں مر گئی۔‏‏‏‏ اس کا معنی یہ ہے کہ ولادت میں مر گئی۔‏‏‏‏ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ مبطون حالت میں مر گئی۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہیں ہے کیونکہ ایک صریح حدیث موجود ہے کتاب الجنائز میں باب الصلاۃ علی النفساء میں جس میں یہ الفاظ ہیں «ماتت فى نفاسها» کہ وہ عورت نفاس کی حالت میں مری، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا وہم نہ تھا یہ وہم امام کرمانی رحمہ اللہ کو ہوا۔ تفصیل کے لئے [فتح الباري ج1، ص469] کا مطالعہ کیجئیے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:332  
حدیث حاشیہ:

اس عنوان میں امام بخاری ؒ دو باتیں بتلانا چاہتے ہیں:
۔
حالت نفاس میں مرنے والی کا جنازہ پڑھا جائے گا۔
۔
جنازہ پڑھتے وقت اس کے وسط، یعنی کمر کے سامنے کھڑا ہونا چاہیے۔
اس مسئلے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ نفاس کی حالت نجاست کی حالت ہے اور اس حالت میں اسے موت آئی ہے، گویا موت آنے سے نجاست مستقر ہوگئی۔
اب سوال یہ ہے کہ نفاس کی حالتِ نجاست جب موت سے برقرار ہوگئی تو اس پر نماز جنازہ کی اجازت ہوگی؟ امام بخاری نے حدیث سے ثابت فرمایا کہ نفاس میں مرنے والی عورت کا جنازہ پڑھنا صحیح ہے۔
یہ خیال کرنا کہ وہ تو پہلے ہی ناپاک تھی اور موت آنے سے اس کی ناپاکی میں اضافہ ہوگیا، اس لیے نماز جنازہ پڑھنے کا کیا موقع ہے، یہ خیال صحیح نہیں، کیونکہ یہ ایک معنوی ناپاکی تھی جو موت آنے سے ختم ہوگئی اور حسی ناپاکی غسل دینے سے دھل گئی۔
وہ عورت پاک ہے۔
اس کے اندر ایمانی طہارت موجود ہے، لہذا نماز جنازہ پڑھنا درست ہوا۔
عنوان کا دوسرا جز کہ ایسی عورت کی نماز جنازہ کیسے پڑھی جائے؟ اس مسئلے کا اصل محل کتاب الجنائز ہے، چنانچہ وہاں ایک باب بایں الفاظ قائم کیا ہے:
مرد اور عورت کے جنازے میں امام کہاں کھڑا ہو؟ لیکن امام بخاری ؒ یہاں تنبیہ کرنا چاہتے ہیں کہ نماز جنازہ پڑھتے وقت کھڑے ہونے میں نفاس والی اوردوسری عورتوں میں کوئی فرق نہیں اور کتاب الجنائز میں جب مذکورہ عنوان آئے گا تو وہاں مقصد مسئلہ قیام ہی کا بیان ہوگا۔

شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ لکھتے ہیں کہ نفاس والی عورت چونکہ خود نماز نہیں پڑھ سکتی، اس لیے شاید کسی کے دل میں خیال پیدا ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے۔
امام بخاری نے تنبیہ فرمائی ہے کہ جنازے کے متعلق اس عورت کا حکم عام عورتوں جیسا ہے، جب رسول اللہ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی ہے تو گویا اس کے لیے طہارت کا حکم ثابت ہوا، حالت نفاس میں اس کا نماز نہ پڑھنا نجاست کی بنا پر نہیں، بلکہ یہ ایک حکم تعبدی ہے۔
اس سے اس موقف کی بھی تردید ہوگئی کہ مومن مرنے سے ناپاک ہوجاتا ہے، کیونکہ ایسی بات ہوتی تو رسول اللہ ﷺ نفاس والی عورت کا جنازہ کیوں پڑھاتے، جبکہ نجاست دم تو پہلے ہی تھی، پھر اس کے ساتھ موت کی نجاست بھی جمع ہوگئی، جب رسول اللہ ﷺ نے ایسی عورت کا جنازہ پڑھایا ہے تو ایسی میت جس سے خون نہیں بہتا کیونکہ مرنے سے نجاست آلود ہوگی۔
(شرح ابن بطال: 462/1)

بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مذکورہ حدیث پر یہ عنوان قائم کرنا صحیح نہیں ہے، کیونکہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عورت پیٹ کی بیماری سے فوت ہوئی تھی، شاید امام بخاری کو اس پر وہم ہوا ہے کہ انھوں نے اسے زچگی خیال کیا ہے، حالانکہ یہ بات سرے سے حقیقت کے خلاف ہے، بلکہ اس سے مراد نفاس میں فوت ہونا ہے۔
جیسا کہ امام بخاری کی بیان کردہ ایک روایت میں ہے کہ وہ اپنے نفاس میں فوت ہوئی تھی۔
(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1331)
لہذا حدیث اور امام بخاری ؒ کا عنوان بالکل صحیح اوربرمحل ہے۔
نفاس اور اس کے احکام:
سرزمین حجاز کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثمین ؒ کے ایک رسالے سے نفاس اور اس کے احکام درج کیے جاتے ہیں:
۔
تعریف:
۔
وہ خون جو ولادت کی بنا پر رحم سے برآمد ہو، نفاس کہلاتا ہے، خواہ ولادت کے وقت یا اسکے بعد یا اس سے دو یاتین دن پہلے آئے بشرطیکہ اس کے ساتھ دردِزہ بھی ہو۔
۔
مدت:
۔
عام طور پر اس کی مدت چالیس دن ہوتی ہے، چالیس دنوں سے زائد ہونے کی صورت میں عورت کی سابقہ عادت کے مطابق عمل کیا جائے یا اس کے بعد اگرخون رکن کی علامتیں ظاہر ہوں تو اس کے ختم ہونے کا انتظار کیاجائے اور اسے نفاس میں شمار کیا جائے، بصورت دیگرچالیس دن پورے ہونے پر غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیا جائے۔
اگرچالیس دنوں سے پہلے خون بند ہوجائے تو بھی عورت کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز روزہ شروع کردیاجائے۔
اگرچالیس دنوں سے پہلے خون بند ہوجائے تو بھی عوت کو چاہیے کہ وہ غسل کرکے نماز روزہ شروع کردے۔
واضح رہے کہ نفاس اس ولادت کے بعد شمار ہوگا جس میں بچے کی شکل وصورت بن چکی ہو۔
اگر شکل وصورت بننے سے پہلے ہی اسقاط ہوجائے تو اس وقت برآمد ہونے والے خون کو نفاس نہیں کہا جائے گا، بلکہ وہ کسی رگ کا خون ہے جس پر استحاضے کے احکام جاری ہوں گے۔
کم از کم مدت جس میں بچے کی شکل وصورت بن جاتی ہے، وہ ابتدائے حمل سے اسی (80)
دن اور زیادہ سے زیادہ نوے (90)
دن ہے۔
۔
نفاس کے احکام:
اس کے احکام حیض جیسے ہیں، البتہ درج ذیل چند مسائل میں اس کا الگ حکم ہے:
۔
عدتِ طلاق کا تعلق قطعی طور پر نفاس سے نہیں ہے، کیونکہ اگرطلاق وضع حمل سے پہلے دی گئی ہے تو اس کی مدت کو بڑھایا نہیں جائے گا اور اگرطلاق وضع حمل کے بعد دی ہے تو نفاس کے بعد حیض آنے تک انتظار کیا جائے گا۔
یعنی تین حیض گزرنے پر عدت ختم ہوگی۔
۔
ایلا کی صورت میں حیض کی مدت کو شمار کیا جائے گا لیکن نفاس کی مدت شمار نہیں ہوگی۔
ایلا یہ ہے کہ خاوند چار ماہ سے زائد یا ہمیشہ کے لیے اپنی بیوی کے پاس نہ جانے کی قسم کھالے۔
عورت کے مطالبے پر خاوند کے قسم کھانے سے چار ماہ کی مدت مقرر کی جائے گی اور اس سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ اپنی بیوی سے رجوع کرے یا اسے فارغ کردے۔
اس چار ماہ کی مدت میں اگرولادت ہوجائے تو نفاس کے ایام چار ماہ میں شامل نہیں ہوں گے، البتہ ایام حیض کو چار ماہ کی مدت میں شمار کیا جائے گا۔
۔
حیض کی آمد عورت کے بالغ ہونے کی علامت ہے جبکہ خون نفاس سے پہلے اس کا بالغ ہونا ضروری ہے، کیونکہ عورت کو حمل اس کے انزال سے ہوتا ہے۔
حمل سے پہلے انزال ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بالغ ہوچکی ہے، اس لیے خون نفاس کو بلوغ کی علامت ٹھہرانے کے بجائے حیض کو اس کے بالغ ہونے کی نشانی قراردیا جائے گا۔
۔
اگرحیض کا خون رک جائے، پھر عادت کے ایام میں دوبارہ شروع ہوجائےتو اسے قطعی طور پر حیض ہی شمار کیاجائے گا، مثلاً:
ایک عورت کو اس کی عادت کے مطابق آٹھ دن خون آتا ہے، چاردن کے بعد خون منقطع ہوگیا۔
دودن خون بند رہا، پھر ساتویں اورآٹھویں دن خون جاری ہواتو اسے حیض ہی شمار کیا جائے گا اور اس پر احکام حیض ہی جاری ہوں گے۔
اس کے برعکس اگرچالیس دن سے پہلے خون نفاس بند ہوگیا، پھر چالیس دن پورے ہونے پر دوبارہ جاری ہوگیا تو اسے خون مشکوک قراردیا جائے گا، یعنی وہ عورت نماز روزہ شروع کردے گی، البتہ شوہر اس کے پاس نہیں آئے گا، طہر کے بعد پڑھی ہوئی نمازوں اور رکھے ہوئے روزوں کی قضا بھی دینی ہوگی، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ خون بند ہونے کے بعد اگرایسے وقت دوبارہ آجائے کہ اس میں نفاس آنا ممکن ہوتو اسے نفاس ہی شمارکریں گے، بصورت دیگر وہ حیض کا خون ہے۔
اگرخون جاری رہتا ہے تو اسے استحاضہ شمار کیا جائے گا۔
امام مالک ؒ فرماتے ہیں:
خون نفاس انقطاع کے دو، تین دن بعد دوبارہ شروع ہوجاتا ہے تو نفاس ہی ہے، بصورت دیگراسے حیض شمار کیا جائے گا۔
۔
حیض کا خون آنے کی صورت میں اگرعورت اپنی مقررہ عادت سے پہلے پاک ہوجاتی ہے تو خاوند کو مقاربت کی اجازت ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن خون آنے کی صورت میں اگرچالیس دن سے پہلے عورت پاک ہوجائےتوخاوند کواس سے مقاربت کرنا مکروہ ہے، لیکن جمہور کے نزدیک اس مدت میں عورت کے پاس جانا مکروہ نہیں اور یہی بات درست ہے، کیونکہ کراہت بھی ایک شرعی حکم ہے جو دلیل کا محتاج ہے۔
اس سلسلے میں صرف عثمان بن ابی العاص ؓ کا عمل پیش کیا جاتا ہے کہ ان کی بیوی چالیس دے پہلے نفاس سے فارغ ہوگئی اور وہ ان کے پاس آئی تو انھوں نے کہا:
میرے پاس نہ آنا۔
اس عمل سے کراہت کشید کی جاتی ہے۔
لیکن اس میں بھی کئی ایک احتمالات ہیں:
ممکن ہے کہ عورت کو ابھی طہر کا یقین نہ ہوا ہو، اس لیے احتیاط کے پیش نظر ایسا کیا ہو یا اس خطرے کے پیش نظر ایسا کیا ہو مبادا جماع کرنے سے خون حرکت میں آجائے اور دوبارہ جاری ہوجائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 332   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 451  
´میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے`
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 451]
لغوی تشریح:
«فِي نِفَسِهَا» بچے کی پیدائش کے ایام میں۔ یہ خاتون ام کعب انصاریہ رضی اللہ عنہ تھیں۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا کہ میت اگر عورت ہو تو امام میت کے درمیان کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھائے۔
➋ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، ابوداود اور ترمذی وغیرہ میں ہے کہ میت اگر مرد ہو تو امام کو اس کے سر کے برابر کھڑا ہو کر نماز جنازہ پڑھانی چاہیے۔ [سنن ابي داود، الجنائز، حديث: 3194 وجامع الترمذي، الجنائز، حديث: 1034]
امام شافعی رحمہ الله کا یہی قول ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ الله سے بھی ایک قول اسی طرح منقول ہے جیسا کہ ہدایہ میں ہے۔ اس کے برعکس علمائے احناف عموماً بِلا فرق مرد و عورت کے دل کے برابر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھاتے ہیں مگر اس کی کوئی شرعی دلیل نہیں بلکہ نصِ صریح کے مقابلے میں محض قیاس پر عمل کرتے ہیں کہ دل منبع ایمان ہے، اس لیے دل کے برابر کھڑا ہونا چاہیے لیکن یہ حقیقتاً حدیث کے خلاف ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 451   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 393  
´نفاس والی عورتوں کی نماز جنازہ کا بیان۔`
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام کعب رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھی جو اپنی نفاس میں وفات پا گئی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلاۃ میں ان کے بیچ میں (کمر کے پاس) کھڑے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 393]
393۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ نفاس کی حالت میں اگرچہ عورت خود نماز نہیں پڑھ سکتی مگر وہ فوت ہو جائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ اس کا نفاس جنازے سے مانع نہیں، نیز وہ ظاہراً پلید نہیں، لہٰذا نمازی کے آگے رکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ مومن کا جسم ظاہراً پلید نہیں ہوتا، نہ جنابت سے، نہ حیض و نفاس سے اور نہ موت سے۔ نفاس سے جسم کی ناپاکی معنوی پلیدی ہے۔
➋ عورت کے جنازے میں امام چارپائی کے وسط کے برابر کھڑا ہو گا جیسا کہ بعض روایات میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1332، و صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 964]
اس میں نفاس کا کوئی دخل نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 393   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1978  
´نماز جنازہ کھڑے ہو کر پڑھنے کا بیان۔`
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ام کعب رضی اللہ عنہا کی نماز (جنازہ) پڑھی، جو اپنی زچگی میں مر گئیں تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ان کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1978]
1978۔ اردو حاشیہ:
➊ ضمناً یہ معلوم ہوا کہ عورت کے جنازے میں امام کمر کے برابر کھڑا ہو گا۔ ابوداود کی ایک روایت جو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کے مطابق مرد کے جنازے میں امام سر کے برابر کھڑا ہو گا۔ (سنن أبي داود، حدیث: 3193) احناف دونوں صورتوں میں سینے کے برابر کھڑا ہونے کے قائل ہیں۔ وہ اس روایت کو نفاس والی عورت سے خاص کرتے ہیں کہ آپ اسے پردہ کرنے کے لیے پیٹ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے، مگر کسی روایت میں یہ وجہ بیان نہیں کی گئی، نہ عقل اس توجیہ کی تائید کرتی ہے کیونکہ امام کے پیٹ کے سامنے کھڑا ہونے سے پوری صف سے پردہ ممکن نہیں۔ صرف دو چار آدمیوں سے پردہ ہو سکتا ہے اور وہ کسی بھی جگہ کھڑے ہونے سے حاصل ہو سکتا ہے نہ کہ صرف پیٹ کے سامنے کھڑا ہونے سے۔ ویسے بھی پورا جنازہ کفن میں لپیٹا ہوا ہوتا ہے، پھر امام کے ذریعے سے پردہ کیسا ہو گا؟ اور اس پردے کی ضرورت کیوں ہے؟ پھر مفصل روایات یا حضرت سمرہ کی اس حدیث کا مکمل جائزہ لیا جائے تو نفاس والی عورت سے اس کی تخصیص بے معنی ٹھہرتی ہے ہر عورت کی میت پر کھڑا ہونے کا یہی طریقہ مسنون ہے۔ علی کل حال۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث یا آپ کا واضح عمل موجود ہو تو محتمل ادھر ادھر کے دلائل یا قیاس آرائیوں سے اسے ٹالنا نہیں چاہیے۔
➋ باب والا مسئلہ ظاہر الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ گویا یہ آپ کا معمول تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1978   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1981  
´مرد اور عورت کے جنازے کو ایک ساتھ پڑھنے کا بیان۔`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کی ماں کی نماز جنازہ پڑھی جو اپنی زچگی میں مر گئیں تھیں، تو آپ ان کے بیچ میں یعنی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1981]
1981۔ اردو حاشیہ: حدیث کا باب سے بظاہر کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1981   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3195  
´جنازہ پڑھاتے ہوئے امام میت کے مقابل کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3195]
فوائد ومسائل:
مسلمان عورت اپنے ایام حیض اور نفاس کے دنوں میں فوت ہو تب بھی اس کا جنازہ پڑھا جائے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3195   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1035  
´مرد اور عورت دونوں ہوں تو امام نماز جنازہ پڑھاتے وقت کہاں کھڑا ہو؟`
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھائی، تو آپ اس کے بیچ میں یعنی اس کی کمر کے پاس کھڑے ہوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1035]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
اس عورت کا نام ام کعب ہے جیساکہ نسائی کی روایت میں اس کی تصریح آئی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1035   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2237  
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نوخیز تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو یاد کرتا تھا اور اب مجھے بات کرنے سے صرف یہی چیز روک رہی ہے یہاں پر بہت سے لوگ عمر میں مجھ سےبڑے (عمر رسیدہ) موجود ہیں، میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ایک عورت کی نماز جنازہ ادا کی جو حالت نفاس میں فوت ہوئی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ میں، اس... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2237]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

نفاس والی عورت اگرچہ اس حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی اور وہ اجر وثواب کے اعتبار سے شہداء کی صف میں داخل ہے۔
اس کے باوجود اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔

امام صاحب،
میت کے جنازہ میں کہاں کھڑا ہوا جائے؟ اس سلسلہ میں صرف عورت کے بارے میں روایت لائے ہیں کہ اس کے جنازہ میں امام درمیان میں کھڑا ہو گا۔
لیکن مرد کے جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو گا؟ اس کا تذکرہ نہیں کیا۔
ائمہ کا اس کے بارے میں اختلاف ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ،
امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ،
اور ایک روایت کی رو سے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہ مؤقف ہے کہ جنازہ میں امام مرد کے سر کے قریب اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو گا اور حدیث کی رو سے یہی صحیح ہے۔
علامہ سعیدی لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول چونکہ احادیث اورآثار کے مطابق ہے اس لیے اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(صحیح مسلم2/811)
اے کاش ہر جگہ صحیح احادیث پر عمل کو ہی ترجیح دیں قراءت فاتحہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی بخاری شریف میں روایت موجود ہے۔
کہ انہوں نے نماز جنازہ میں بلند آواز سے فاتحہ پڑھی اورفرمایا یہ میں نے اس لیے کیا ہے تاکہ تمھیں یہ معلوم ہوجائے کہ فاتحہ پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ اور طرز عمل ہے اور اس کی یہ تاویل کر دی ہے۔
آپﷺ نے بطور دعا اور ثنا پڑھی تھی۔
(ج2ص 898)
حالانکہ اس تاویل کا کوئی قرینہ اور دلیل نہیں ہے اور ایک بات یہ کہی ہے۔
یہ خبر واحد ہے اور خبرواحد سے فرضیت پر استدلال صحیح نہیں ہے۔
حالانکہ جس طرح قرآن کے حکم سے فرضیت ثابت ہوتی ہے حدیث صحیح سے بھی فرضیت ثابت ہوتی ہے۔
بخاری اور مسلم کی روایات کو تو امت نے بالاتفاق قبول کیا ہے۔
اس وجہ سے وہ قطعیت اور یقین کا فائدہ دیتی ہیں۔
ان سے فرضیت کیوں ثابت نہیں ہو گی۔
امام ابن ہمام اور امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی تاویل کی ہے کہ ثنا ء دعا کے طور پر پڑھی ہے چلو یہ حضرات دعا وثنا کے طور پر پڑھ لیا کریں فاتحہ پڑھا تو کریں اس جامع دعا سے محروم تو نہ رہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2237   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1332  
1332. حضرت سمرہ بن جندب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس فوت ہو گئی تھی۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1332]
حدیث حاشیہ:
مسنون یہی ہے کہ امام عورت کی کمر کے مقابل کھڑا ہو اور مرد کے سرکے مقابل۔
سنن ابوداؤد میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور بتلایا کہ آنحضرت ﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
مگر امام بخاری ؒ نے غالباً ابوداؤد والی روایت کو ضعیف سمجھا اور ترجیح اس کو دی کہ امام مرد اور عورت دونوں کی کمر کے مقابل کھڑا ہو۔
اگرچہ اس حدیث میں صرف عورت کے وسط میں کھڑا ہونے کا ذکر ہے اور یہی مسنون بھی ہے۔
مگر حضرت امام ؒ نے باب میں عورت اور مرد دونوں کو یکساں قرار دیا ہے۔
امام ترمذی ؒ فرماتے ہیں:
(وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا)
أَيْ إِلَى أَنَّ الْإِمَامَ يَقُومُ حِذَاءَ رَأْسِ الرَّجُلِ وَحِذَاءَ عَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ (وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ)
وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَهُوَ الْحَقُّ وَهُوَ رِوَايَةٌ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ قَالَ فِي الْهِدَايَةِ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّهُ يَقُومُ مِنَ الرَّجُلِ بِحِذَاءِ رَأْسِهِ وَمِنَ الْمَرْأَةِ بِحِذَاءِ وَسَطِهَا لِأَنَّ أَنَسًا فَعَلَ كَذَلِكَ وَقَالَ هُوَ السُّنَّةُ۔
(تحفة الأحوذي)
یعنی بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں کہ جنازہ کی نماز میں امام مرد میت کے سر کے پاس کھڑا ہو اور عورت کے بدن کے وسط میں کمر کے پاس۔
امام احمد ؒ اور اسحق ؒ اور امام شافعی ؒ کا یہی قول ہے اور یہی حق ہے اور ہدایہ میں حضرت امام ابوحنیفہ ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ امام مرد میت کے سرکے پاس اور عورت کے وسط میں کھڑا ہو اس لیے کہ حضرت انس ؓ نے ایسا ہی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ سنت یہی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1332   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1331  
1331. حضرت سمرہ بن جندب ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو دوران زچگی میں فوت ہوئی تھی تو آپ اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1331]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے زین بن منیر کے حوالے سے امام بخاری ؒ کا مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ نفاس میں مرنے والی عورت کو اگرچہ شہداء میں شمار کیا گیا ہے، پھر بھی اس کی نماز جنازہ مشروع ہے، لیکن شہید معرکہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔
(فتح الباري: 257/3)
شہید معرکہ کی نماز جنازہ بھی مشروع ہے لیکن ضروری نہیں، جیسا کہ آگے بیان ہو گا۔
اگر عورت دوران نفاس میں مر جائے تو اس کا جنازہ پڑھنا چاہیے اگرچہ وہ خود اس حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی تھی، کیونکہ مرنے کے بعد نفاس کے احکام ختم ہو جاتے ہیں۔
مرد اور عورت کے جنازے میں امام کو کہاں کھڑا ہونا چاہیے، اس کی وضاحت آئندہ ہو گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1331   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1332  
1332. حضرت سمرہ بن جندب ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا:میں نے نبی ﷺ کے پیچھے ایک عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو بحالت نفاس فوت ہو گئی تھی۔ آپ اس کے وسط میں کھڑے ہوئے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1332]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں عورت کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے مگر مرد کے متعلق شاید امام بخاری ؒ کو اپنی شرط کے مطابق کوئی حدیث نہیں ملی۔
ممکن ہے کہ ان کے نزدیک مرد اور عورت کا ایک ہی حکم ہو، لیکن حضرت انس بن مالک ؒ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے سر کے پاس کھڑے ہوئے۔
جب اسے اٹھا لیا گیا تو ایک عورت کا جنازہ لایا گیا، انہوں نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
کسی نے دریافت کیا کہ مرد اور عورت کے جنازے کے لیے جہاں آپ کھڑے ہوئے ہیں رسول اللہ ﷺ بھی اسی طرح کھڑے ہوتے تھے؟ انہوں نے فرمایا:
ہاں۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3194) (2)
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں کہ جنازہ پڑھتے وقت امام مرد کے سر کے برابر اور عورت کے درمیان میں کھڑا ہو۔
(أحکام الجنائز،ص: 138)
جو حضرات مرد اور عورت دونوں کے لیے دل کے برابر کھڑے ہونے کے قائل ہیں، ان کا موقف محض قیاس پر مبنی ہے اور صریح دلائل کے خلاف ہے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1332