کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
10. بَابُ صِفَةِ النَّارِ وَأَنَّهَا مَخْلُوقَةٌ:
10. باب: دوزخ کا بیان اور یہ بیان کہ دوزخ بن چکی ہے، وہ موجود ہے۔
حدیث نمبر: Q3258
وَغَسَّاقًا سورة النبأ آية 25، يُقَالُ: غَسَقَتْ عَيْنُهُ وَيَغْسِقُ الْجُرْحُ وَكَأَنَّ الْغَسَاقَ وَالْغَسْقَ وَاحِدٌ غِسْلِينٍ سورة الحاقة آية 36 كُلُّ شَيْءٍ غَسَلْتَهُ، فَخَرَجَ مِنْهُ شَيْءٌ فَهُوَ غِسْلِينُ فِعْلِينُ مِنَ الْغَسْلِ مِنَ الْجُرْحِ وَالدَّبَرِ، وَقَالَ: عِكْرِمَةُ حَصَبُ جَهَنَّمَ سورة الأنبياء آية 98 حَطَبُ بِالْحَبَشِيَّةِ، وَقَالَ: غَيْرهُ حَاصِبًا سورة الإسراء آية 68 الرِّيحُ الْعَاصِفُ وَالْحَاصِبُ مَا تَرْمِي بِهِ الرِّيحُ وَمِنْهُ حَصَبُ جَهَنَّمَ يُرْمَى بِهِ فِي جَهَنَّمَ هُمْ حَصَبُهَا، وَيُقَالُ: حَصَبَ فِي الْأَرْضِ ذَهَبَ وَالْحَصَبُ مُشْتَقٌّ مِنْ حَصْبَاءِ الْحِجَارَةِ صَدِيدٍ سورة إبراهيم آية 16 قَيْحٌ وَدَمٌ خَبَتْ سورة الإسراء آية 97 طَفِئَتْ تُورُونَ سورة الواقعة آية 71 تَسْتَخْرِجُونَ، أَوْرَيْتُ أَوْقَدْتُ لِلْمُقْوِينَ سورة الواقعة آية 73 لِلْمُسَافِرِينَ وَالْقِيُّ الْقَفْرُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: صِرَاطُ الْجَحِيمِ سَوَاءُ الْجَحِيمِ وَوَسَطُ الْجَحِيمِ لَشَوْبًا مِنْ حَمِيمٍ سورة الصافات آية 67 يُخْلَطُ طَعَامُهُمْ وَيُسَاطُ بِالْحَمِيمِ زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ سورة هود آية 106 صَوْتٌ شَدِيدٌ وَصَوْتٌ ضَعِيفٌ وِرْدًا سورة مريم آية 86 عِطَاشًا غَيًّا سورة مريم آية 59 خُسْرَانًا، وَقَالَ: مُجَاهِدٌ يُسْجَرُونَ سورة غافر آية 72 تُوقَدُ بِهِمُ النَّارُ وَنُحَاسٌ سورة الرحمن آية 35 الصُّفْرُ يُصَبُّ عَلَى رُءُوسِهِمْ، يُقَالُ ذُوقُوا سورة آل عمران آية 181 بَاشِرُوا وَجَرِّبُوا وَلَيْسَ هَذَا مِنْ ذَوْقِ الْفَمِ مَارِجٌ خَالِصٌ مِنَ النَّارِ مَرَجَ الْأَمِيرُ رَعِيَّتَهُ إِذَا خَلَّاهُمْ يَعْدُو بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ مَرِيجٍ سورة ق آية 5 مُلْتَبِسٍ مَرِجَ أَمْرُ النَّاسِ اخْتَلَطَ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ سورة الفرقان آية 53 مَرَجْتَ دَابَّتَكَ تَرَكْتَهَا.
سورۃ النباء میں جو لفظ «غساقا» آیا ہے اس کا معنی پیپ لہو، عرب لوگ کہتے ہیں «غسقت عينه» اس کی آنکھ بہہ رہی ہے۔ «يغسق الجرح» زخم بہہ رہا ہے۔ «غساق» اور «غسق» دونوں کے ایک ہی معنی ہیں۔ «غسلين» کا لفظ جو سورۃ الحاقہ میں ہے اس کا معنی «دهوون» یعنی کسی چیز کے دھونے میں جیسے آدمی کا زخم ہو یا اونٹ کا جو نکلے «فعلين» کے وزن پر غسل سے مشتق ہے۔ عکرمہ نے کہا «حصب» کا لفظ جو سورۃ انبیاء میں ہے معنی «حطب» یعنی ایندھن کے ہیں۔ یہ لفظ حبشی زبان کا ہے۔ دوسروں نے کہا، «حاصبا» کا معنی جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے تند ہوا، آندھی اور «حاصب» اس کو بھی کہتے ہیں جو ہوا اڑا کر لائے۔ اسی سے لفظ «حصب جهنم» نکلا ہے جو سورۃ انبیاء میں ہے۔ یعنی دوزخ میں جھونکے جائیں گے وہ اس کے ایندھن بنیں گے۔ عرب لوگ کہتے ہیں «حصب في الأرض» یعنی وہ زمین میں چلا گیا۔ «حصب» «حصباء» سے نکلا ہے۔ یعنی پتھریلی کنکریاں۔ «صديد» کا لفظ جو سورۃ ابراہیم میں ہے اس کا معنی پیپ اور لہو کے ہیں۔ «خبت» کا لفظ جو سورۃ بنی اسرائیل میں ہے اس کا معنی بجھ جائے گی۔ «تورون» کا لفظ جو سورۃ الواقعہ میں ہے اس کا معنی آگ سلگاتے ہو، کہتے ہیں «أوريت» یعنی میں نے آگ سلگائی۔ «مقوين» کا لفظ جو سورۃ الواقعہ میں ہے یہ لفظ «قي» سے نکلا ہے۔ «قي» اجاڑ زمین کو کہتے ہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے «سواء الجحيم» کی تفسیر میں کہا جو سورۃ الصافات میں ہے دوزخ کا بیچوں بیچ کا حصہ، «لشوبا من حميم»(جو اسی سورۃ میں ہے) اس کا معنی یہ ہے کہ دوزخیوں کے کھانے میں گرم کھولتا ہوا پانی ملایا جائے گا۔ الفاظ «زفير» اور «شهيق» جو سورۃ ہود میں ہیں ان کے معنی آواز سے رونا اور آہستہ سے رونا، لفظ «وردا» جو سورۃ مریم میں ہے یعنی پیاسے، لفظ «غيا» جو اسی سورۃ میں ہے۔ یعنی ٹوٹا نقصان، اور مجاہد نے کہا لفظ «يسجرون» جو سورۃ مؤمن میں ہے، یعنی آگ کا ایندھن بنیں گے۔ لفظ «نحاس» جو سورۃ الرحمن میں ہے اس کا معنی تانبا جو پگھلا کر ان کے سروں پر ڈالا جائے گا۔ لفظ «ذوقوا» جو کئی سورتوں میں آیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ عذاب کو دیکھو، منہ سے چکھنا مراد نہیں ہے۔ لفظ «مارج» جو سورۃ الرحمن میں ہے یعنی خالص آگ۔ عرب لوگ کہتے ہیں، «مرج الأمير رعيته» یعنی بادشاہ اپنی رعیت کو چھوڑ بیٹھا، وہ ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں۔ لفظ «مريج» جو سورۃ ق میں ہے، یعنی ملا ہوا، مشتبہ۔ کہتے ہیں «مرج أمر الناس اختلط» یعنی لوگوں کا معاملہ سب خلط ملط ہو گیا۔ لفظ «مرج البحرين» جو سورۃ الرحمن میں ہے «مرجت دابتك» سے نکلا ہے، یعنی تو نے اپنا جانور چھوڑ دیا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: Q3258]
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا کہ میں نے زید بن وہب سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے (جب بلال رضی اللہ عنہ ظہر کی اذان دینے اٹھے تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت ذرا ٹھنڈا ہو لینے دو، پھر دوبارہ (جب وہ اذان کے لیے اٹھے تو پھر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہی حکم دیا کہ وقت اور ٹھنڈا ہو لینے دو، یہاں تک کہ ٹیلوں کے نیچے سے سایہ ڈھل گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز ٹھنڈے وقت اوقات میں پڑھا کرو، کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے پیدا ہوتی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/حدیث: 3258]