314. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے اپنے غسل حیض کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اس کے سامنے غسل کی کیفیت بیان کی۔ مزید فرمایا: ”کستوری لگا ہوا روئی کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے طہارت حاصل کر۔“ وہ کہنے لگی: اس کے ساتھ کیسے طہارت حاصل کروں؟ آپ نے فرمایا: ”سبحان اللہ! پاکیزگی حاصل کر۔“ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں: میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچا اور اسے سمجھایا کہ اسے خون کے مقامات پر لگا لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:314]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں چار چیزیں بیان کی ہیں۔
غسل حیض کرتے وقت جسم کو خوب مل کر دھونا۔
غسل کا طریقہ۔
کستوری لگے روئی کے ٹکڑے سے مدد لینا۔
خون کے اثرات کو دور کرنا۔
جبکہ حدیث میں پہلی دو باتوں کا ذکر نہیں ہے۔
اس کے متعلق علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ چوتھی چیز یعنی خون کے اثرات کو دور کرنے سے دلک
(ملنا) ثابت ہوا اور کیفیت غسل سے مراد غسل کا طریقہ نہیں بلکہ غسل حیض کی مخصوص صفت خوشبو کا استعمال بتانا مقصود ہے۔
(شرح الکرماني: 180/3) لیکن حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت عنوان میں ایسی چیز بیان کی ہے جو بیان شدہ حدیث کی دیگر روایات میں موجود ہے، چونکہ وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط پر نہ تھیں اس لیے انھیں ذکر نہیں فرمایا، بلکہ ان کی طرف عنوان میں اشارہ کردیا ہے۔
چنانچہ صحیح مسلم کی روایات میں ان باتوں کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 750(332)
نیز اس روایت میں دلک شدید کا ذکر ہے۔
2۔
صحیح مسلم ہی کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
یہ عورتیں انتہائی عقلمند اور سمجھدار ہیں کہ انھیں دین میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے حیا مانع نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 752(332)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ سائلہ اسماء بنت شکل تھیں۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 750(332)
3۔
بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ حدیث میں سادہ روئی کا ٹکڑا مراد ہے، اس پر کستوری لگی ہوئی ہو، یہ مراد نہیں، کیونکہ کستوری اتنی مقدار میں دستیاب نہ تھی کہ اسے ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ مصنف عبدالرزاق (315/1)
میں(من ذربرة)
کے الفاظ ہیں جو ایک قسم کی مشہور خوشبو ہے، پھر اس کی دستیابی کی بات بھی صحیح نہیں، کیونکہ اہل حجاز کے ہاں خوشبو کا استعمال عام ہوتا تھا۔
واضح رہے کہ حضرت اسماء ؓ کو تردد اس لیے ہوا کہ کستوری کوئی سیال چیز نہیں جس سے طہارت کی جائے، اس لیے انھوں نے دوبارہ سہ بارہ دریافت کیا۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے سبحان اللہ کہا کہ عورتوں کو اپنے معاملات کے متعلق خوب سمجھ ہونی چاہیے۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے اپنے پاس بلا کر اس کی وضاحت کردی۔
سنن دارمی (حدیث 773)
میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی وضاحت کو خود رسول اللہ ﷺ بھی سن رہے تھے اور آپ نے انکار نہیں فرمایا۔
(فتح الباري: 539/1)
4۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل حیض صرف اتنا ہی نہیں کہ پانی بہا لیا اور فارغ ہو گئے، بلکہ اس میں بدن کو خوب ملنا ہے اور جہاں جہاں خون کے نشانات ہوں وہاں خوشبو دار چیز کا استعمال کرنا ہے، مشک کا یہ خاصا ہے کہ وہ جلد کے سکیڑ کو ختم کر کے اس کی شادابی کو بحال کرتی ہے۔
اس کی دوسری مصلحت یہ ہے کہ اس کے استعمال کے بعد اگر کوئی خون کا دھبا نظر آئے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ مشک کا رنگ ہے، خون نہیں۔
گویا دفع وسواس کے لیے یہ اچھی صورت ہے، اس کی تیسری مصلحت یہ ہے کہ حیض سے فراغت کے بعد اس حصہ جسم پر کستوری کا استعمال علوق نطفہ کے لیے معاون ہوتا ہے۔
ان ایام میں ویسے بھی عورت قبولیت نطفہ کی صلاحیت رکھتی ہے، خوشبو کا استعمال مزید اس کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
واللہ أعلم۔
5۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں۔
ناقابل صراحت معاملات کو اشارے کنائے سے بتانا چاہیے۔
عورت اپنے ناقابل اخفا معاملات کے متعلق علمائے شریعت کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔
مسائل کو سمجھانے کے لیے جواب کا تکرار اچھی چیز ہے۔
عالم کی موجودگی میں دوسرا حاضر مجلس سائل کو سمجھا سکتا ہے، بشرطیکہ عالم اسے پسند کرے۔
طالب علم کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا چاہیے، بالخصوص نا سمجھ اور کند ذہن کو معذور خیال کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 539/1)