الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:



صحيح البخاري
كِتَاب الْحَيْضِ
کتاب: حیض کے احکام و مسائل
14. بَابُ غُسْلِ الْمَحِيضِ:
14. باب: حیض کا غسل کیونکر ہو؟
حدیث نمبر: 315
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ: حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَيْفَ أَغْتَسِلُ مِنَ الْمَحِيضِ؟ قَالَ:" خُذِي فِرْصَةً مُمَسَّكَةً فَتَوَضَّئِي ثَلَاثًا، ثُمَّ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَحْيَا فَأَعْرَضَ بِوَجْهِهِ، أَوْ قَالَ: تَوَضَّئِي بِهَا، فَأَخَذْتُهَا فَجَذَبْتُهَا فَأَخْبَرْتُهَا بِمَا يُرِيدُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن نے اپنی والدہ صفیہ سے، وہ عائشہ سے کہ انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مشک میں بسا ہوا کپڑا لے اور پاکی حاصل کر، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا، یا فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے انہیں پکڑ کر کھینچ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کہنی چاہتے تھے وہ میں نے اسے سمجھائی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/حدیث: 315]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاريتأخذين فرصة ممسكة فتوضئين بها قالت كيف أتوضأ بها يا رسول الله قال النبي توضئي قالت كيف أتوضأ بها يا رسول الله قال النبي توضئين بها قالت عائشة فعرفت الذي يريد رسول الله فجذبتها إلي فعلمتها
   صحيح البخاريخذي فرصة ممسكة فتوضئي ثلاثا ثم إن النبي استحيا فأعرض بوجهه أو قال توضئي بها فأخذتها فجذبتها فأخبرتها بما يريد النبي
   صحيح البخاريخذي فرصة من مسك فتطهري بها
   صحيح مسلمتطهري بها سبحان الله واستتر
   صحيح مسلمتأخذ إحداكن ماءها وسدرتها فتطهر فتحسن الطهور ثم تصب على رأسها فتدلكه دلكا شديدا حتى تبلغ شئون رأسها ثم تصب عليها الماء ثم تأخذ فرصة ممسكة فتطهر بها فقالت أسماء وكيف تطهر بها فقال سبحان الله تطهرين بها فقالت عائشة كأنها تخفي ذلك تتبعين أثر الدم وسألته
   سنن أبي داودتأخذ سدرها وماءها فتوضأ ثم تغسل رأسها وتدلكه حتى يبلغ الماء أصول شعرها ثم تفيض على جسدها ثم تأخذ فرصتها فتطهر بها
   سنن النسائى الصغرىخذي فرصة ممسكة فتوضئي بها قالت كيف أتوضأ بها قال توضئي بها قالت كيف أتوضأ بها قالت ثم إن رسول الله سبح وأعرض عنها ففطنت عائشة لما يريد رسول الله قالت فأخذتها وجبذتها إلي فأخبرتها بما يريد رسول الله
   سنن النسائى الصغرىخذي فرصة من مسك فتطهري بها قالت وكيف أتطهر بها فاستتر كذا ثم قال سبحان الله تطهري بها قالت عائشة ا فجذبت المرأة وقلت تتبعين بها أثر الدم
   سنن ابن ماجهتأخذ إحداكن ماءها وسدرها فتطهر فتحسن الطهور أو تبلغ في الطهور ثم تصب على رأسها فتدلكه دلكا شديدا حتى تبلغ شؤون رأسها ثم تصب عليها الماء ثم تأخذ فرصة ممسكة فتطهر بها قالت أسماء كيف أتطهر بها قال سبحان الله تطهري بها قالت عائشة كأنها تخفي ذلك تتبعي بها
   مسندالحميديخذي فرصة من مسك فتطهري بها

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 315 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:315  
حدیث حاشیہ:

اس عنوان میں غسل حیض کی مخصوص کیفیت بتلانا مقصود ہے، یعنی ایسا غسل جو دیگر ہر طرح کے غسل سے ممتاز ہو، کیونکہ نفس غسل تو معروف ہے، اس کے بتانے کی ضرورت نہیں۔
ایک دوسری حدیث میں اس کی تفصیل بایں الفاظ ہے تم میں سے ہر عورت غسل کے لیے پانی اور بیری کے پتے لے کر طہارت حاصل کرے۔
اچھی طرح غسل کرے پھر اپنے سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب اچھی طرح ملے یہاں تک کہ پانی بالوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔
پھر اپنے اوپر پانی بہالے فارغ ہو کر کستوری لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے اور اسے خون آلود جگہوں پر لگائے۔
۔
۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 750۔
(332)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے نزدیک غسل جنابت اور غسل حیض دونوں ایک طرح کے نہیں، بلکہ ان دونوں میں فرق ہے۔
اس بنا پر اس عنوان میں غسل حیض کی الگ کیفیت بتائی گئی ہے۔
آئندہ ابواب میں بھی اس فرق کی طرف ہی اشارہ فرمائیں گے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس مقام پر سوال نفس غسل سے نہیں، کیونکہ یہ تو معروف و معلوم تھا، سوال صرف غسل حیض کی خاص کیفیت سے ہے۔

بعض حضرات نے اسے غَسل یعنی غین کے فتحہ سے پڑھا ہے، لیکن یہ درست نہیں کیونکہ یہ تو باب رقم (9)
حدیث (308)
کے تحت آچکا ہے، ہاں! اس کی یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ پہلے باب میں خون حیض سے ملوث کپڑوں کو دھونے کا بیان تھا اور اس باب میں بدن پر لگے ہوئے خون کو دھونے کا ذکرہے۔
جیسا کہ احادیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس مقام پر محیض مصدر میمی کے نجائے اسم مکان ہو۔
یعنی جائے حیض (شرمگاہ)
دھونے کا بیان، اس مقام پر حسب عادت علامہ عینی ؒ کی بھی سنتے جائیے، فرماتے ہیں کہ اس عنوان کا درحقیقت چنداں فائدہ نہیں، کیونکہ یہ بات تو پہلے بھی ذکر ہو چکی ہے اور روایت بھی وہی ذکر ہے جو پہلے عنوان میں لائے تھے، ہاں طریق روایت میں فرق ضرورہے۔
(عمدة القاري: 140/3)

بعض شارحین نے (مِسك)
کو (مَسك)
پڑھا ہے جس کا ترجمہ چمڑا ہے یا بکرے اور بھیڑکے چمڑے کا وہ ٹکڑا جس پر اون ہو۔
اسے خون والی جگہ پر ملنے سے خون کی نجاست اور بو دور ہو جائے گی۔
ان حضرات کا کہنا ہے کہ مَسک ایک گراں قیمت چیز ہے، بظاہر اتنی وافر بھی نہیں تھی کہ ایسے مواقع پر استعمال کی جاتی، لیکن ان حضرات کایہ قیاس درست نہیں۔
اولاً انسانی جسم کوئی زنگا رآلود لوہا نہیں کہ اسے ریگ مار سے رگڑ کر صاف کرنے کی ضرورت پیش آئے، اس پر خون کی اس قدر تہ کیونکرجم سکتی ہے، جبکہ قضائے حاجت کے بعد وقتاً فوقتاً استنجا بھی کیا جاتا ہے۔
ہر عورت ان ایام میں نظافت کا خیال رکھتی ہے، ثانیا ً اون سے نہ تو جنابت دور ہو سکتی ہے اور نہ اس سے بوہی کا ازالہ ہوتا ہے۔
ثالثاًً اہل عرب کے ہاں کستوری نایاب چیز نہ تھی، بلکہ وافر مقدار میں دستیاب تھی اور اس کا استعمال بھی عام تھا۔
رابعاً ہر عورت کے لیے اس کا مہیا کرنا ضروری نہیں، بلکہ جس کے لیے اس کا حصول ممکن ہو وہ استعمال کرے بصورت دیگر دوسری خوشبو بھی استعمال کی جاسکتی ہے، مقصد تو جلد کوتازہ کرنا اور بدبو کا ازالہ ہے اور وہ کسی بھی خوشبو سے ہو سکتا ہے۔
(4)
اس حدیث میں لفظ (تَوَضَّئيِ)
سے لغوی معنی مراد ہیں، کیونکہ لغت میں اس کے معنی روشن کرنا ہیں۔
آپ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ اس سے صفائی حاصل کرو۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔
(سنن النسائي، الطهارة، حدیث: 252)
تو یہ حیا کی وجہ سے تھا۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 315   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 314  
´حیض سے پاک ہونے کے بعد عورت کو اپنے بدن کو نہاتے وقت ملنا چاہیے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ غُسْلِهَا مِنَ الْمَحِيضِ؟ فَأَمَرَهَا كَيْفَ تَغْتَسِلُ، قَالَ: " خُذِي فِرْصَةً مِنْ مَسْكٍ فَتَطَهَّرِي بِهَا، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَطَهَّرُ؟ قَالَ: تَطَهَّرِي بِهَا، قَالَتْ: كَيْفَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ تَطَهَّرِي، فَاجْتَبَذْتُهَا إِلَيَّ، فَقُلْتُ: تَتَبَّعِي بِهَا أَثَرَ الدَّمِ " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک میں بسا ہوا کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے پوچھا۔ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ کس طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ اسے خون لگی ہوئی جگہوں پر پھیر لیا کر۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ دَلْكِ الْمَرْأَةِ نَفْسَهَا إِذَا تَطَهَّرَتْ مِنَ الْمَحِيضِ:: 314]
تشریح:
اس غسل کی کیفیت مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ اچھی طرح سے پاکی حاصل کر پھر اپنے سر پر پانی ڈال تاکہ پانی بالوں کی جڑوں میں پہنچ جائے پھر سارے بدن پر پانی ڈال۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کر کے بتلایا کہ اگرچہ یہاں نہ بدن کا ملنا ہے نہ غسل کی کیفیت مگر خوشبو کا پھایہ لینا مذکور ہے۔ تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنا بھی اس سے ثابت ہوا۔ عورتوں سے شرم کی بات اشارہ و کنایہ سے کہنا، عورتوں کے لیے مردوں سے دین کی باتیں پوچھنا یہ جملہ امور اس سے ثابت ہوئے، «قاله الحافظ»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 314   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7357  
7357. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے حیض سے متعلق سوال کیا کہ وہ اس سے (فراغت کے بعد) غسل کیسے کرے؟ آپ نے فرمایا: مشک لگا ہوا روئی کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس سے کیسے پاکی حاصل کروں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اس سے پاکی حاصل کر اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اس سے پاکی کیسے حاصل کروں؟ نبی ﷺ نےفرمایا: اس سے پاکی حاصل کر۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ کی منشا کو معلوم کرلیا اس لیے میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے وہ طریقہ سکھا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7357]
حدیث حاشیہ:
باب اس سے نکلتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ عنہا بدلالت عقل سمجھ گئیں کہ کپڑے سے وضو تو نہیں ہو سکتا تو لفظ توضأ اس سے آپ کی مراد یہی ہے کہ اس کو بدن پر پھیر کر پاکی حاصل کر لے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7357   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7357  
´دلائل شرعیہ سے احکام کا نکالا جانا اور دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کیا ہو گی؟`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحَيْضِ كَيْفَ تَغْتَسِلُ مِنْهُ؟، قَالَ: تَأْخُذِينَ فِرْصَةً مُمَسَّكَةً، فَتَوَضَّئِينَ بِهَا، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَوَضَّأُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّئِي، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَوَضَّأُ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَوَضَّئِينَ بِهَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَعَرَفْتُ الَّذِي يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَذَبْتُهَا إِلَيَّ فَعَلَّمْتُهَا . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک خاتون نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور ہم سے محمد نے بیان کیا یعنی ابن عقبہ نے، کہا ہم سے فضیل بن سلیمان النمیری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمٰن بن شیبہ نے بیان کیا، ان سے ان کی والدہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے متعلق پوچھا کہ اس سے غسل کس طرح کیا جائے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک لگا ہوا ایک کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس عورت نے پوچھا: یا رسول اللہ! میں اس سے پاکی کس طرح حاصل کروں گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کرو۔ انہوں نے پھر پوچھا کہ کس طرح پاکی حاصل کروں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ پاکی حاصل کرو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا منشا سمجھ گئی اور اس عورت کو میں نے اپنی طرف کھینچ لیا اور انہیں طریقہ بتایا کہ پاکی سے آپ کا مطلب یہ ہے کہ اس کپڑے کو خون کے مقاموں پر پھیر تاکہ خون کی بدبو رفع ہو جائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ: 7357]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7357 کا باب: «بَابُ الأَحْكَامِ الَّتِي تُعْرَفُ بِالدَّلاَئِلِ، وَكَيْفَ مَعْنَى الدِّلاَلَةِ وَتَفْسِيرِهَا:» باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب کے ذریعے کئی اہم مسائل کی طرف اشارہ فرمایا ہے، چنانچہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«هذا الباب متعلق بتعليم طريقة الإجتهاد، و قد تكون معرفة الأحكام من عموم النص، و دلالة النص، و غيرها من أنواع الدلائيل المذكورة فى أصول الفقة.» [لب اللباب فی تراجم والابواب: 244/5]
یہ باب طریقہ اجتہاد کی تعلیم پر مبنی ہے تاکہ احکام کی معرفت عموم نص سے، دلالۃ النص سے اور اس کے سوا دیگر دلائل کی انواع سے حاصل ہوں، جو اصول فقہ میں مذکور ہیں۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب کتاب الاعتصام میں اس غرض سے قائم فرمایا اور اسی طرح سے مختلف قسم کے ابواب باندھے تاکہ ان ابواب کے ذریعہ دوضروری چیزوں کی طرف اشارہ ہو جائے اہل اصول کو، اول یہ کہ اصول شریعہ چار اقسام پر ہیں، «الكتاب، و السنة، و الإجماع، و القياس» اور دوسرا اصول یہ ہے کہ «عبارة النص، إشارة النص» اور اس کا اقتضاء کی طرف اشارہ ہو، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«أن الإمام البخاري قد أشار فى كتاب الاعتصام بتراجم عديدة إلى مسائل الأصول كما ترى، فهكذا أشار لهذه الترجمة إلى أمرين قد نبه عليهما أصحاب الأصول، الأول: ما قالوا ان أصول الشرع أربعة: الكتاب، و السنة، و الاجماع، و القياس، وأشار إلى هذه الأربعة بقوله: التى تعرف بالدلائل . . . . . و الأمر الثاني، هو ما ذكروه من تقسيم الاستدلال من الكتاب و السنة إلى أقسام عديدة معروفة عندهم من عبارة النص، و إشارته و دلالته و اقتضائه، فأشار إلى هذا الأمر الثاني بقوله، و كيف معنى الدلالة.» [الابواب و التراجم: 767/6]
ان معلومات سے واضح ہوا کہ باب کے ذریعے امام بخاری رحمہ اللہ کی کئی ایک اغراض ہیں، جنہیں آپ رحمہ اللہ نے تحت الباب احادیث کے ذریعے حل فرمائے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ عرض بھی کرتے چلیں کہ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے حجت شرعیہ کو چار چیزوں میں تقسیم کیا ہے جس کا ذکر سابقہ سطروں میں گزرا، تین چیزیں: کتاب و سنت اور اجماع، یہ حجت حجت ہیں مگر قیاس شرعی اصولوں کی بناء پر حجت نہیں ہے بلکہ ہم اسے حجت مظہرہ کہہ سکتے ہیں یعنی مجتہد جس میں دین نہیں ہو گا۔ لہذا باب اور حدیث میں مناسبت اس جہت سے ہو گی کہ پہلی حدیث جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے اس کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا بدلالت عقل سے سمجھ گئیں کہ کپڑے سے وضو نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس مسئلے پر دال نہیں تھے، لہٰذا لفظ «توضأ» سے وہ خاتون نے کچھ اور مراد لیا مگر امی عائشہ رضی اللہ عنہا سمجھ گئیں کہ اس سے مراد آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ ہے کہ اس کپڑے کو بدن پر پھیر کر پاکی حاصل کر لے۔

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«و مطابقة الحديث للترجمة فى قوله توضئي بها فإنه وقع بيانه للسائلة بما فهمته عائشة رضي الله عنها و أقرها النبى صلى الله عليه وسلم على ذالك لأن السائلة لم تكن تعرف أن تتبع الدم بالفرصة يسمي توضوا فلما فهمت عائشة غرضه بينت للسائلة ما خفي عليها . . . . .» [ارشاد الساري: 109/12]
دوسری حدیث جو ام حفید بنت الحارث ابن حزن سے مروی ہے اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ساہنہ کو کھا رہے تھے اور لازماً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر حرام چیز کا ہونا ناممکن ہے، لہٰذا اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے دلالت شرعیہ کی مثال دی کہ جب ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر دوسرے لوگوں نے کھایا تو معلوم ہوا کہ وہ حلال ہے، لہٰذا یہ حدیث باب کے اس جزء «الأحكام التى تعرف بالدلائل» سے مناسبت رکھتی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے سے منع نہیں فرمایا اور ساہنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر رکھا گیا، لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی چیز سے نہ روکنا یہ بھی احکام شرعیہ میں حجت ہیں اور اسی طرح حدیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سمجھ لیا اور پہچان لیا تو اس حدیث کی مناسبت بھی اسی جہت سے ہو گی، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفائے راشدین کے بعد اہل مدینہ کے کیا معاملات تھے، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اہل مدینہ کا عمل مفتیوں، امراء اور بازاروں پر «محتسبين» کے حکم کے مطابق تھا، رعیت ان لوگوں کی مخالفت نہیں کر سکتی تھی، پس اگر مفتی فتوی دیتے تو والی اسے نافذ کرتا اور محتسب اس کے مطابق عمل کرتا، اسی طرح وہ فتوی معمول بہ ہو جاتا، لیکن یہ چیز قابل التفات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے اعمال سنت ہیں، لہٰذا ان دونوں میں سے ایک چیز کو دوسری چیز کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا جائے گا، پس ہمارے نزدیک اس عمل پر تحکیما زیادہ شدید ہے اور اس کے مقابلے میں دوسری چیز (متاخرین اہل مدینہ ان کا عمل) اگر خلاف سنت ہو تو ترک کیے جانے کے شدید مستحق ہے۔

نواب صدیق حسن خان بھوپالی رحمہ اللہ اس مسئلے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے متعین کے برخلاف اہل مدینہ کا عمل بھی کسی صحیح حدیث کے خلاف حجت نہیں ہوتا، کیوں کہ وہ بھی امت میں سے بعض ہیں (یعنی کل نہیں ہیں)، لہٰذا اس بات کا جواز موجود ہے کہ وہ صحیح خبر ان تک نہ پہنچی ہو۔ [حصول المامول من علم الاصول: ص 59]
ان تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کسوٹی صرف سنت نبوی ہی ہو گی، اس کے خلاف اہل مدینہ کا عمل، کوفہ، بصرہ، شام، یمن، مصر، دمشق، بالفرض کوئی بھی معروف یا غیر معروف علمی شہر یا غیر علمی شہر ہو، کسوٹی ہرگز نہیں بن سکتا۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«كيف أترك الخبر لأقوال أقوام لو عامرتهم لما حجتهم بالحديث .» [الاحكام فى اصول الاحكام للامدی: 165/2]
میں خبر (یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کو اقوال سے کس طرح ترک کر سکتا ہوں، اگر میں ان لوگوں کے مابین موجود ہوتا تو ان سے حدیث کی حجت پر بحث کرتا۔
بس کسوٹی صرف قرآن و حدیث ہی ہے یہی گفتگو کا حاصل ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 308   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 314  
´حیض سے پاک ہونے کے بعد عورت کو اپنے بدن کو نہاتے وقت ملنا چاہیے `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ غُسْلِهَا مِنَ الْمَحِيضِ؟ فَأَمَرَهَا كَيْفَ تَغْتَسِلُ، قَالَ: " خُذِي فِرْصَةً مِنْ مَسْكٍ فَتَطَهَّرِي بِهَا، قَالَتْ: كَيْفَ أَتَطَهَّرُ؟ قَالَ: تَطَهَّرِي بِهَا، قَالَتْ: كَيْفَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ تَطَهَّرِي، فَاجْتَبَذْتُهَا إِلَيَّ، فَقُلْتُ: تَتَبَّعِي بِهَا أَثَرَ الدَّمِ " . . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک میں بسا ہوا کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے پوچھا۔ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ کس طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ اسے خون لگی ہوئی جگہوں پر پھیر لیا کر . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ دَلْكِ الْمَرْأَةِ نَفْسَهَا إِذَا تَطَهَّرَتْ مِنَ الْمَحِيضِ: 314]
تخريج الحديث:
[189۔ البخاري فى: 6 كتاب الحيض: 13 باب دلك المرأة نفسها إذا تطهرت من المحيض 314، مسلم 332]
لغوی توضیح: «فِرْصَةً مِنْ مِسْك» روئی کا ٹکڑا جسے کستوری کی خوشبو لگی ہو۔
«فَاجْتَبَذْتُهَا» میں نے اسے کھینچا۔
«اَثَرَ الدَّم» خون کا نشان۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 189   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 427  
´حیض کے غسل کے طریقہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میں طہارت کے وقت کیسے غسل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مشک کا ایک پھاہا لو، اور اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے کہا: میں اس سے کیسے پاکی حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس سے پاکی حاصل کرو، اس نے (پھر) عرض کیا: میں اس سے کیسے پاکی حاصل کروں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبحان اللہ کہا، اور اس سے اپنا رخ مبارک پھیر لیا، عائشہ رضی اللہ عنہا اس بات کو سمجھ گئیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بتانا چاہ رہے تھے، آپ کہتی ہیں: تو میں نے اسے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو چاہ رہے تھے اسے بتایا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 427]
427۔ اردو حاشیہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غسل کی پوری کیفیت بتائی تھی جیسا کہ دوسری روایات میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، الحیض، حدیث314، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 332]
یہاں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ صرف غسل حیض کی ایک خصوصیت بیان کی ہے۔ اور وہ ہے حیض کی جگہ خوشبو لگانا تاکہ بدبو کا ازالہ ہو سکے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 252 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 427   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 252  
´حیض کا غسل کیسے کیا جائے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے غسل کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا کہ وہ کیسے غسل کرے، پھر فرمایا: (غسل کے بعد) مشک لگا ہوا (روئی کا) ایک پھاہا لے کر اس سے طہارت حاصل کرو، (عورت بولی) اس سے کیسے طہارت حاصل کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح پردہ کر لیا (یعنی شرم سے اپنے منہ پر ہاتھ کی آڑ کر لی) پھر فرمایا: سبحان اللہ! اس سے پاکی حاصل کرو، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو میں نے عورت کو پکڑ کر کھینچ لیا، اور (چپکے سے اس کے کان میں) کہا: اسے خون کے نشان پر پھیرو ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 252]
252۔ اردو حاشیہ:
➊ حیض کا خون چونکہ بدبودار ہوتا ہے، اس لیے بہتر ہے کہ غسل کے علاوہ خون والی جگہ کی مزید صفائی کی جائے، مثلاً: خوشبو لگائی جائے تاکہ بدبو زائل ہو جائے۔ اس سنت پر عمل غالباً متروک ہی ہو چکا ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ اس سنت کا احیا کریں۔ یقیناًً جہاں اس سے صفائی حاصل ہو گی، وہاں ثواب بھی ملے گا۔
➋ عورتوں سے متعلقہ پوشیدہ مسائل بتاتے ہوئے کنایات کا استعمال مستحب ہے۔
➌ حاضرین کے لیے صاحب علم کے کلام کی وضاحت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
➍ مسئلہ دریافت کرنے والوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے۔
➎ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب خلق عظیم اور شرم و حیا کے پیکر تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 252   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث642  
´حائضہ عورت غسل کیسے کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت شکل انصاریہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی عورت بیر کی پتی ملا ہوا پانی لے، پھر وہ طہارت حاصل کرے (یعنی شرمگاہ دھوئے) اور خوب اچھی طرح طہارت کرے یا طہارت میں مبالغہ کرے، پھر اپنے سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب اچھی طرح ملے، یہاں تک کہ سر کے سارے بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچ جائے، پھر اس پر پانی ڈالے، پھر خوشبو کو (کپڑے یا روئی کے) ایک ٹکڑے میں بھگو کر اس سے (شرمگاہ کی) صفائی کرے، اسماء رضی اللہ عنہا نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 642]
اردو حاشہ:
(1)
حیض کے غسل میں صفائی کا اہتمام غسل جنابت کی نسبت زیادہ ہوتا ہے کیونکہ اس کی نوبت نسبتاً زیادہ دیر بعد آتی ہے۔

(2)
پانی میں بیری کے پتے ڈال کر جو ش دینے سے وہ پانی زیادہ صفائی کرنے والا بن جاتا ہے۔

(3)
مقام مخصوص پر خوشبو لگانے کا مقصد یہ ہے کہ ناگوار بو ختم ہوجائے۔

(4)
جنسی امور سے متعلق مسئلہ بتاتے وقت صریح الفاظ کے بجائے اشارے کنائے سے کام لینا چاہیے تاکہ مسئلہ بھی بتا دیا جائےاور شرم وحیا بھی قائم رہے۔

(5)
علم حاصل کرنے سے شرمانا درست نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں انسان ہمیشہ جاہل رہتا ہے اور ممکن ہے کہ خلاف شریعت کام کا ارتکاب کرتا رہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 642   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:167  
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جب عورت غسل حیض سے فارغ ہو تو مخصوص جگہ پر خوشبو استعمال کرے، تا کہ بد بو وغیرہ ہر طرح سے ختم ہو جائے اور خاوند اپنی بیوی کے پاس آنے سے کراہت محسوس نہ کرے۔ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ شرم و حیا کے مسائل کنایہ سے بیان کرنے چاہئیں، ہر گاؤں میں ایک معلمہ ضرور ہونی چاہیے جو خواتین کو شرم و حیا کے مسائل سمجھائے۔ یاد رہے حیض اور نفاس کا ایک ہی حکم ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 167   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 748  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں ایک عورت نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا۔ وہ غسل حیض کیسے کرے؟ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ آپﷺ نے اسے غسل کا طریقہ سکھایا، پھر فرمایا: غسل کے بعد وہ ایک مشک سے معطر کپڑا لے کر اس سے پاکیزگی حاصل کرے، عورت نے پوچھا، میں اس سے کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ! اس سے طہارت حاصل کر، اور آپﷺ نے حیا سے چہرہ چھپا لیا۔ (سفیان نے ہمیں ہاتھ کے اشارے سے منہ چھپا کر دکھایا) عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:748]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپﷺ نے سبحان اللہ! اس لیے فرمایا کہ وہ ایک واضح اور کھلی بات کو بھی سمجھ نہیں رہی تھی اور آپﷺ شرم وحیا کی بنا پر شرم گاہ کا نام لینا نہیں چاہتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 748   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:314  
314. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے اپنے غسل حیض کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے اس کے سامنے غسل کی کیفیت بیان کی۔ مزید فرمایا: کستوری لگا ہوا روئی کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے طہارت حاصل کر۔ وہ کہنے لگی: اس کے ساتھ کیسے طہارت حاصل کروں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! پاکیزگی حاصل کر۔ حضرت عائشہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچا اور اسے سمجھایا کہ اسے خون کے مقامات پر لگا لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:314]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں چار چیزیں بیان کی ہیں۔
غسل حیض کرتے وقت جسم کو خوب مل کر دھونا۔
غسل کا طریقہ۔
کستوری لگے روئی کے ٹکڑے سے مدد لینا۔
خون کے اثرات کو دور کرنا۔
جبکہ حدیث میں پہلی دو باتوں کا ذکر نہیں ہے۔
اس کے متعلق علامہ کرمانی ؒ فرماتے ہیں کہ چوتھی چیز یعنی خون کے اثرات کو دور کرنے سے دلک (ملنا)
ثابت ہوا اور کیفیت غسل سے مراد غسل کا طریقہ نہیں بلکہ غسل حیض کی مخصوص صفت خوشبو کا استعمال بتانا مقصود ہے۔
(شرح الکرماني: 180/3)
لیکن حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت عنوان میں ایسی چیز بیان کی ہے جو بیان شدہ حدیث کی دیگر روایات میں موجود ہے، چونکہ وہ روایات امام بخاری ؒ کی شرط پر نہ تھیں اس لیے انھیں ذکر نہیں فرمایا، بلکہ ان کی طرف عنوان میں اشارہ کردیا ہے۔
چنانچہ صحیح مسلم کی روایات میں ان باتوں کی صراحت ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 750(332)
نیز اس روایت میں دلک شدید کا ذکر ہے۔

صحیح مسلم ہی کی روایت میں حضرت عائشہ ؓ نے انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:
یہ عورتیں انتہائی عقلمند اور سمجھدار ہیں کہ انھیں دین میں تفقہ حاصل کرنے کے لیے حیا مانع نہیں ہوتی۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 752(332)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ سائلہ اسماء بنت شکل تھیں۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 750(332)

بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ حدیث میں سادہ روئی کا ٹکڑا مراد ہے، اس پر کستوری لگی ہوئی ہو، یہ مراد نہیں، کیونکہ کستوری اتنی مقدار میں دستیاب نہ تھی کہ اسے ایسے مواقع پر استعمال کیا جاتا، لیکن یہ بات درست نہیں، کیونکہ مصنف عبدالرزاق (315/1)
میں(من ذربرة)
کے الفاظ ہیں جو ایک قسم کی مشہور خوشبو ہے، پھر اس کی دستیابی کی بات بھی صحیح نہیں، کیونکہ اہل حجاز کے ہاں خوشبو کا استعمال عام ہوتا تھا۔
واضح رہے کہ حضرت اسماء ؓ کو تردد اس لیے ہوا کہ کستوری کوئی سیال چیز نہیں جس سے طہارت کی جائے، اس لیے انھوں نے دوبارہ سہ بارہ دریافت کیا۔
اس پر رسول اللہ ﷺ نے سبحان اللہ کہا کہ عورتوں کو اپنے معاملات کے متعلق خوب سمجھ ہونی چاہیے۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ نے اسے اپنے پاس بلا کر اس کی وضاحت کردی۔
سنن دارمی (حدیث 773)
میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی وضاحت کو خود رسول اللہ ﷺ بھی سن رہے تھے اور آپ نے انکار نہیں فرمایا۔
(فتح الباري: 539/1)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل حیض صرف اتنا ہی نہیں کہ پانی بہا لیا اور فارغ ہو گئے، بلکہ اس میں بدن کو خوب ملنا ہے اور جہاں جہاں خون کے نشانات ہوں وہاں خوشبو دار چیز کا استعمال کرنا ہے، مشک کا یہ خاصا ہے کہ وہ جلد کے سکیڑ کو ختم کر کے اس کی شادابی کو بحال کرتی ہے۔
اس کی دوسری مصلحت یہ ہے کہ اس کے استعمال کے بعد اگر کوئی خون کا دھبا نظر آئے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ یہ مشک کا رنگ ہے، خون نہیں۔
گویا دفع وسواس کے لیے یہ اچھی صورت ہے، اس کی تیسری مصلحت یہ ہے کہ حیض سے فراغت کے بعد اس حصہ جسم پر کستوری کا استعمال علوق نطفہ کے لیے معاون ہوتا ہے۔
ان ایام میں ویسے بھی عورت قبولیت نطفہ کی صلاحیت رکھتی ہے، خوشبو کا استعمال مزید اس کے لیے معاون ثابت ہوگا۔
واللہ أعلم۔

اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل معلوم ہوتے ہیں۔
ناقابل صراحت معاملات کو اشارے کنائے سے بتانا چاہیے۔
عورت اپنے ناقابل اخفا معاملات کے متعلق علمائے شریعت کی طرف رجوع کر سکتی ہے۔
مسائل کو سمجھانے کے لیے جواب کا تکرار اچھی چیز ہے۔
عالم کی موجودگی میں دوسرا حاضر مجلس سائل کو سمجھا سکتا ہے، بشرطیکہ عالم اسے پسند کرے۔
طالب علم کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا چاہیے، بالخصوص نا سمجھ اور کند ذہن کو معذور خیال کرنا چاہیے۔
(فتح الباري: 539/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 314   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7357  
7357. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے حیض سے متعلق سوال کیا کہ وہ اس سے (فراغت کے بعد) غسل کیسے کرے؟ آپ نے فرمایا: مشک لگا ہوا روئی کا ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! اس سے کیسے پاکی حاصل کروں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: اس سے پاکی حاصل کر اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اس سے پاکی کیسے حاصل کروں؟ نبی ﷺ نےفرمایا: اس سے پاکی حاصل کر۔ سیدہ عائشہ‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ کی منشا کو معلوم کرلیا اس لیے میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اسے وہ طریقہ سکھا دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7357]
حدیث حاشیہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل وبصیرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض سمجھ گئیں کہ روئی کےٹکڑے سے وضو تو نہیں ہوتا، لہذا اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ اسے اپنے بدن پر پھیر کر اس سے پاکی حاصل کرلے، چنانچہ ایک حدیث میں اس کی ان الفاظ میں وضاحت بیان ہوئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کی وجہ سے اپنا منہ دوسری طرف کر لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اسے بتایا کہ مشک (خوشبو)
لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے کر جہاں جہاں خون کے نشانات ہیں وہاں لگا دو تاکہ ناگواری کے اثرات ختم ہو جائیں۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 314)

سوال کرنے والی عورت کو اس بات کا علم نہ تھا کہ خون کے نشانات پر خوشبودار روئی کا ٹکڑا لگانا وضو کہلاتا ہے جبکہ اس کے ساتھ خون اور ناگواری کا ذکر ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیاداری کی وجہ سے صراحت نہ فرمائی لیکن سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو سمجھ لیا اور اسے بتایا جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاموشی سے تائید کر دی۔
(فتح الباري: 405/13)
اس قسم کی رہنمائی کو دلالت عقلی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7357