15. باب: اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورتوں کے لیے ہے وہ واقعہ ہے کہ ہوازن کی قوم نے اپنے دودھ ناطے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی، ان کے مال قیدی واپس ہوں تو آپ نے لوگوں سے معاف کرایا کہ اپنا حق چھوڑ دو۔
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ عروہ کہتے تھے کہ مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ جب ہوازن کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے مالوں اور قیدیوں کی واپسی کا سوال کیا ‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے۔ ان دونوں چیزوں میں سے تم ایک ہی واپس لے سکتے ہو۔ اپنے قیدی واپس لے لو یا پھر مال لے لو ‘ اور میں نے تمہارا انتظار بھی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقریباً دس دن تک طائف سے واپسی پر ان کا انتظار کیا اور جب یہ بات ان پر واضح ہو گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی صرف ایک ہی چیز (قیدی یا مال) واپس کر سکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم اپنے قیدی ہی واپس لینا چاہتے ہیں۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خطاب فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی شان کے مطابق حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا ”امابعد! تمہارے یہ بھائی اب ہمارے پاس توبہ کر کے آئے ہیں اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ان کے قیدی انہیں واپس کر دیئے جائیں۔ اسی لیے جو شخص اپنی خوشی سے غنیمت کے اپنے حصے کے (قیدی) واپس کرنا چاہے وہ کر دے اور جو شخص چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اور ہمیں جب اس کے بعد سب سے پہلی غنیمت ملے تو اس میں سے اس کے حصے کی ادائیگی کر دی جائے تو وہ بھی اپنے قیدی واپس کر دے ‘ (اور جب ہمیں دوسرے غنیمت ملے گی تو اس کا حصہ ادا کر دیا جائے گا)۔“ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنی خوشی سے انہیں اپنے حصے واپس کر دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کن لوگوں نے اپنی خوشی سے اجازت دی اور کن لوگوں نے نہیں دی ہے۔ اس لیے سب لوگ (اپنے خیموں میں) واپس چلے جائیں اور تمہارے سردار لوگ تمہاری بات ہمارے سامنے آ کر بیان کریں۔“ سب لوگ واپس چلے گئے اور ان کے سرداروں نے اس مسئلہ پر گفتگو کی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر خبر دی کہ سب لوگ خوشی سے اجازت دیتے ہیں۔ یہی وہ خبر ہے جو ہوازن کے قیدیوں کے سلسلے میں ہمیں معلوم ہوئی ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب فَرْضِ الْخُمُسِ/حدیث: 3132]
إخوانكم هؤلاء جاءونا تائبين وإني رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم من أحب أن يطيب فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
إخوانكم قد جاءونا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
إخوانكم هؤلاء جاءوا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3132
حدیث حاشیہ: قوم ہوازن میں آپ ﷺ کی اولین دایہ حلیمہ سعدیہ تھیں۔ ابن اسحاق نے مغازی میں نکالا کہ ہوازن والوں نے آنحضرت ﷺ سے یوں عرض کیا تھا آپ ان عورتوں پر احسان کیجئے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اسی بنا پر ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا کہ وہ اپنے اپنے حصہ کے لونڈی غلام ان کو واپس کردیں‘ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ اس حدیث میں کئی ایک تمدنی امور بھی بتلائے گئے ہیں جن میں اقوام میں نمائندگی کا اصول بھی ہے جسے اسلام نے سکھایا ہے اسی اصول پر موجودہ جمہوری طرز حکومت وجود میں آیا ہے۔ اس روایت کی سندمیں مروان بن حکم کا بھی نام آیا ہے‘ اس پر مولانا وحید الزمان مرحوم فرماتے ہیں: مروان نے نہ آنحضرتﷺ سے سنا ہے‘ نہ آپ ﷺ کی صحبت اٹھائی ہے۔ اس کے اعمال بہت خراب تھے اور اسی وجہ سے لوگوں نے حضرت امام بخاری پر طعن کیا ہے کہا مروان سے روایت کرتے ہیں۔ حالانکہ حضرت امام بخاری ؒ نے اکیلے مروان سے روایت نہیں کی‘ بلکہ مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ‘ جوصحابی ہیں‘ روایت کی ہے اور اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض برے شخص حدیث کی روایت میں سچا اور با احتیاط ہوتا ہے تو محدثین اس سے روایت کرتے ہیں۔ اور کوئی شخص بہت نیک اور صالح ہوتاہے لیکن وہ عبادت یا دوسرے علم میں مصروف رہنے کہ وجہ سے حدیث کے الفاظ اور متن کا خوب خیال نہیں رکھتا‘ تومحدثین اس سے روایت نہیں کرتے یا اس کی روایت کو ضعیف جانتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مجتہدین عظام میں کچھ حضرات توایسے ہیں جن کا طریقہ کار استخراج و استنباط مسائل اجتہاد کے طریق پر تھا۔ کچھ فقہ اور حدیث ہر دو کے جامع تھے۔ بہر حال حضرت امام بخاری ؒ اپنی جگہ پر مجتہد مطلق ہیں۔ اگر وہ کسی جگہ مروان جیسے لوگوں کی مرویات نقل کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کسی اور معتبر شاہد کو بھی پیش کردیتے ہیں۔ جو ان کے کمال احتیاط کی دلیل ہے اور اس بنا پر ان پر طعن کرنا محض تعصب اور کورباطنی کا ثبوت دینا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3132
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3132
حدیث حاشیہ: 1۔ رسول اللہ ﷺکو سب سے پہلے دودھ پلانے والی حلیمہ سعدیہ ہوازن قبیلے سے تھیں ہوازن والوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ آپ ان عورتوں پر احسان کیجیے جن کا آپ نے دودھ پیا ہے ہے۔ اسی بناپر رسول اللہ ﷺنے ہوازن والوں کو بھائی قرار دیا اور مجاہدین سے فرمایا: ”وہ اپنے حصے کے غلام اور لونڈیاں آزاد کریں اور ان کو واپس کردیں۔ “ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ 2۔ امام بخاری ؒ نے اس سے ثابت کیا ہے کہ خمس کا مصرف امام کی صوابدید پر موقوف ہے کیونکہ آپ نے فرمایا: ”ہم پہلے پہلے مال فے سے جو اللہ ہمیں عطا فرمائےگا۔ اس میں سے اس کو حصہ دیں گے۔ “ ان الفاظ کا ظاہری مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد مال خمس ہے جو مسلمانوں کی ضروریات کے لیے صرف ہوگا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3132
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2584
2584 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2584]
حدیث حاشیہ: مسور بن مخرمہ ؓ کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، زہری و قریشی ہیں۔ عبدالرحمن بن عوف ؓ کے بھانجے ہیں۔ ہجرت نبی کے دو سال بعد مکہ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ ذی الحجہ 8 ھ میں مدینہ منورہ پہنچے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے حدیث کی سماعت کی اور ان کو یاد رکھا۔ بڑے فقیہ اور صاحب فضل اور دیندار تھے۔ عثمان ؓ کی شہادت تک مدینہ ہی میں مقیم رہے۔ بعد شہادت مکہ میں منتقل ہوگئے اور معاویہ ؓ کی وفات تک وہیں مقیم رہے۔ انہوں نے یزید کی بیعت کو پسند نہیں کیا۔ لیکن پھر بھی مکہ ہی میں رہے جب تک کہ یزید نے لشکر بھیجا اور مکہ کا محاصرہ کرلیا۔ اس وقت ابن زبیر ؓ مکہ ہی میں موجود تھے۔ چنانچہ اس محاصرہ میں مسور بن مخرمہ ؓ کو بھی منجنیق سے پھینکا ہوا ایک پتھر لگا۔ یہ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے۔ اس پتھر سے ان کی شہادت واقع ہوئی۔ یہ واقعہ ربیع الاول64ھ کی چاند رات کو ہوا۔ ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2584
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2608
2608 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2608]
حدیث حاشیہ: باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ صحابہ نے جو متعدد لوگ تھے، ہوازن کے لوگوں کو جو متعدد تھے، قیدیوں کا ہبہ کیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2608
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4319
4319 [صحيح بخاري، حديث نمبر:4319]
حدیث حاشیہ: ہوازن کے وفد میں24 آدمی آئے تھے جن میں ابو بر قان سعدی بھی تھا، اس نے کہا یارسول اللہ! ان قیدیوں میں آپ کے دودھ کے رشتہ سے آپ کی کئی مائیں اور خالہ ہیں اور دودھ کی بہنیں بھی ہیں۔ آپ ہم پر کرم فرمائیں اور ان سب کو آزاد فرما دیں۔ آپ پر اللہ بہت کرم کرے گا۔ آپ نے جو جواب دیا وہ روایت میں یہاں تفصیل سے بیان ہوا ہے۔ آپ نے سارے قیدیو ں کو آزاد فرما دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4319
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2584
2584 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2584]
حدیث حاشیہ: اس روایت کے مطابق آئندہ مالِ غنیمت کا معاملہ مبہم تھا، گویا وہ غائب تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے آئندہ آنے والا مال ہبہ کر دیا۔ اس میں کوئی چیز حاضر نہیں تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شے معلوم ہو اور اس کا حصول ممکن ہو تو غائب چیز ہبہ کی جا سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2584
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2608
2608 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2608]
حدیث حاشیہ: غنیمت حاصل کرنے والے کئی لوگ تھے، انہوں نے قیدی وفد ہوازن کو ہبہ کیے۔ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے استدلال کیا ہے کہ مشترکہ چیز کا ہبہ جائز ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ شرعی ہبہ نہیں تھا کیونکہ قبیلۂ ہوازن کو ان کے قیدی واپس کیے گئے تھے۔ اگر کوئی چیز اصل مالک کو واپس کر دی جائے تو اسے ہبہ نہیں کہا جاتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ ہبہ ہی کی ایک صورت تھی کیونکہ وہ جنگی قیدی اب غنیمت حاصل کرنے والوں کی ملکیت تھے اور انہوں نے اپنی ملکیت وفد ہوازن کو ہبہ کی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشاع کا ہبہ جو تقسیم ہو سکتا ہے جائز ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ اسے تسلیم نہیں کرتے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2608
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4319
4319 [صحيح بخاري، حديث نمبر:4319]
حدیث حاشیہ: عرب کا دستور تھا کہ جب وہ سخت لڑائی کا ارادہ کرتے تو اہل و عیال اور مال و مویشی اپنے ہمراہ لے آتے تاکہ لڑنے والے کو معلوم رہے کہ اگر اس نے شکست کھائی تو سب مال واسباب اور اہل عیال دشمن کے قبضے میں چلا جائے گا۔ بنو ہوازن نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھ کر فرمایا: "اگر اللہ نے چاہا تو یہ سب مال و متاع ہمارے پاس بطور غنیمت آئے گا۔ " چنانچہ ایسا ہی ہوا گھمسان کی جنگ ہوئی قبیلہ ہوازن بری طرح شکست کھا کربھاگ نکلا ان کا مال واسباب اور بچے عورتیں سب مسلمانوں کے قبضے میں آگئیں۔ رسول اللہ ﷺ نے کافی دن ان کا انتظار کیا آپ کی خواہش تھی کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ مسلمان ہو کر ہمارے پاس آئیں تو میں مجاہدین سے کہہ دوں گا۔ کہ ان کامال انھیں واپس کردیا جائے۔ لیکن جب انھوں نے کافی تاخیر کی تو آپ نے مقام جعرانہ میں مال غنیمت تقسیم کردیا۔ تقسیم کے بعد چوبیس افراد پر مشتمل ہوازن کا ایک وفد آیا جن میں ابو برقان سعدی بھی تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! ان قیدیوں میں آپ کے دودھ کے رشتے سے آپ کی کئی مائیں، خالائیں، اور دودھ کی بہنیں ہیں، آپ ہم پر احسان فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ پر احسان فرمائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے جو جواب دیا وہ حدیث میں مذکورہ ہے بہر حال آپ نے تمام قیدیوں کو آزادکردیا۔ (فتح الباري: 43/8) قیدی واپس کرنے سے پہلے آپ نے مہاجرین سے مشورہ کیا تو انھوں نے عرض کی: ہمارا سب مال آپ کے لیے ہے انصار نے بھی یہی جواب دیا۔ اقرع بن حابس نے کہا: میں اور بنو تمیم اس پر راضی نہیں ہیں عیینہ نے کہا: میں اور بنو فزارہ بھی مال واپس دینے کے لیے تیار نہیں۔ عباس بن مرداس نے کہا کہ میں اور بنو سلیم بھی بخوشی ایسا نہیں کر سکتے۔ چونکہ یہ مال مجاہدین کا تھا اس لیے نبی ﷺ نے ان سے اجازت لینے کے لیے نمائندگی کا طریقہ اختیار کیا، اس طرح بنو ہوازن کے بچے اور عورتیں واپس کی گئی۔ (فتح الباري: 43/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4319