ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ عروہ بن زبیر نے ذکر کیا کہ انہیں مروان اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وفد ہوازن مسلمان ہو کر آیا اور اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے مال انہیں واپس لوٹا دیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”میرے ساتھ جو ہیں انہیں تم دیکھ رہے ہو، اور میرے نزدیک سب سے عمدہ بات سچی بات ہے تم یا تو قیدیوں (کی واپسی) اختیار کر لو یا مال“، انہوں نے کہا: ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کریں گے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اس کے بعد فرمایا: ”تمہارے یہ بھائی (شرک سے) توبہ کر کے آئے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ان کے قیدیوں کو واپس لوٹا دوں، لہٰذا تم میں سے جو شخص اپنی خوشی سے واپس لوٹا سکتا ہو تو وہ واپس لوٹا دے، اور جو شخص اپنا حصہ لینے پر مصر ہے تو پہلا مال غنیمت جو اللہ ہم کو دے ہم اس میں سے اس کا عوض دیں تو وہ ایسا ہی کر لے“، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم نے انہیں بخوشی واپس لوٹا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اجازت دی، اور کس نے نہیں دی؟ لہٰذا تم واپس جاؤ یہاں تک کہ تمہارے سردار معاملہ کی تفصیل ہمارے پاس لے کر آئیں“، لوگ لوٹ گئے، اور ان سے ان کے سرداروں نے بات کی تو انہوں نے اپنے سرداروں کو بتایا کہ انہوں نے خوشی خوشی اجازت دی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْجِهَادِ/حدیث: 2693]
إخوانكم هؤلاء جاءونا تائبين وإني رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
إخوانكم هؤلاء قد جاءونا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم من أحب أن يطيب فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
إخوانكم قد جاءونا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل
إخوانكم هؤلاء جاءوا تائبين وإني قد رأيت أن أرد إليهم سبيهم فمن أحب منكم أن يطيب ذلك فليفعل ومن أحب منكم أن يكون على حظه حتى نعطيه إياه من أول ما يفيء الله علينا فليفعل