ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے عکرمہ نے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو (جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی رضی اللہ عنہ کو اپنا رب کہتی تھی) جلا دیا تھا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ/حدیث: 3017]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3017
حدیث حاشیہ: یہ لوگ سبائیہ تھے۔ عبداللہ بن سبا یہودی کے تابعدار جو مسلمانوں کو خراب کر ڈالنے کے لئے بظاہر مسلمان ہوگیا تھا اور اندر سے کافر تھا۔ اس مردود نے اپنے تابعداروں کو یہ تعلیم کی تھی کہ حضرت علی ؓمعاذ اللہ آدمی نہیں ہیں بلکہ خدا ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ بتوں کی پرستش کرتے تھے۔ رافضیوں میں ایک فرقہ نصیری ہے جو حضرت علی ؓ کو خدائے بزرگ اور امام جعفر صادق ؒ کو خدائے خورد کہتا ہے لا حولَ ولا قوةَ إلا باللہ (وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3017
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3017
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت علی ؓکے دور حکومت میں کچھ لوگ حکومتی وظائف لیتے لیکن درپردہ وہ بتوں کے پجاری تھے۔ انھیں گرفتار کرکے حضرت علی ؓکے پاس لایا گیا تو آپ نے انھیں قیدکردیا، پھر لوگوں سے مشورہ میں طے پایا کہ انھیں قتل کردیا جائے لیکن حضرت علی ؓکا موقف تھا کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کیاجائے جو انھوں نے ہمارے باپ حضرت ابراہیم ؑکے ساتھ کیا،چنانچہ انھوں نے آگ کا آلاؤ تیار کیا، پھر انھیں جلا کر بھسم کرڈالا۔ (فتح الباري: 183/6) 2۔ دورحاضر میں آلات حرب،مثلاً: توپ،راکٹ اور گولہ بارود وغیرہ تمام آگ ہی کی قسم سے ہیں۔ چونکہ کفار نے اس قسم کا اسلحہ استعمال کرنا شروع کردیا ہے،لہذا جواباً ایسا اسلحہ استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اب توپٹرول بم ایجاد ہوچکے ہیں وہ جہاں گرتے ہیں وہاں آگ بھڑک اٹھتی ہے اور ہرچیز کو جلا کر راکھ کردیتی ہے۔ ہمارےرجحان کے مطابق ان جدید ہتھیاروں کا استمال امردیگر است، البتہ مطلق طور پر کسی کوآگ میں جلانا شرعی اور اخلاقی طور پسند نہیں کیا جاسکتا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3017
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6922
´مرتد عورت کی شرعی سزا` «. . . أُتِيَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِزَنَادِقَةٍ، فَأَحْرَقَهُمْ . . .» ”. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ بےدین لوگ لائے گئے۔ آپ نے ان کو جلوا دیا . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب اسْتِتَابَةِ الْمُرْتَدِّينَ وَالْمُعَانِدِينَ وَقِتَالِهِمْ: 6922]
فوائد و مسائل: اگر کوئی مسلمان دین اسلام سے منحرف ہو جائے، تو اسے مرتد کہا جاتا ہے۔ اس کی سزا شریعت اسلامیہ میں یہ ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ حنفی مقلدین نے اس عمومی حکم سے بلا جواز عورت کو مستثنیٰ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مرد مرتد ہو جائے، تو اس کو قتل کیا جائے گا، لیکن عورت مرتد ہو، تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ اسے قید کر دیا جائے گا۔ احناف کا یہ مذہب مذکورہ بالا فرمان نبوی کے خلاف ہے جیسا کہ: ◈ شارح صحیح بخاری، علامہ، ابوالحسن، علی بن خلف بن عبدالملک، ابن بطال رحمہ اللہ (م: 449 ھ) مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: ”لفظ «من» مرد و عورت دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ اس عموم میں مرد و عورت دونوں شامل ہیں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو خاص کر کے عورتوں کو اس حکم سے مستشنٰی قرار نہیں دیا۔ امام ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کفر مسلمان مردوں اور عورتوں کی طرف سے کیا جانے والا سب سے بڑا گناہ اور سب سے عظیم جرم ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت سے احکام اور کفر سے کم جرائم پر حدود مذکورہ ہیں، مثلاً زنا، چوری، شراب نوشی، قذف کی حد اور قصاص، یہ سب احکام و حدود جو کہ ارتداد سے کم درجہ کے ہیں، یہ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے لازم ہیں (پھر ارتداد میں عورت مستشنٰی کیسے ہوگئی؟)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم بھی عام ہے کہ جو بھی اپنا دین بدلے، اسے قتل کر دو۔ اس صورت حال میں کسی کے لیے کیسے جائز ہے کہ وہ اس سب سے بڑے گناہ میں مردوں اور عورتوں کی سزا میں فرق کرے اور اس سے عورتوں کو مستشنیٰ کر دے، جبکہ دیگر چھوٹے گناہوں میں اس پر سزا لازم کر دے؟ یہ واضح غلطی ہے۔“[شرح صحيح البخاري: 573/8، 574]
◈ شارح صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”اس حدیث سے استدلال کیا گیا ہے کہ مرتد مرد کی طرح مرتد عورت کو بھی قتل کر دیا جائے گا۔ البتہ احناف نے اس حدیث کو مرد کے ساتھ خاص کیا ہے اور عورتوں کو قتل کرنے سے ممانعت والی حدیث کو اپنی دلیل بنانے کی کوشش کی ہے، جبکہ جمہور فقہاء کرام نے اس ممانعت کو اس عورت پر محمول کیا ہے، جو اصلاً کافر ہو اور اس نے جنگ میں قتل و قتال میں حصہ نہ لیا ہو، کیونکہ اس حدیث کی بعض سندوں میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقتولہ عورت کو دیکھا، تو فرمایا: یہ تو لڑائی نہیں کر سکتی تھی، (پھر اسے کیوں قتل کیا گیا؟)، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔“[فتح الباري فى شرح صحيح البخاري: 272/12]
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 69، حدیث/صفحہ نمبر: 26
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1032
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان` سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دو۔“(بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 1032»
تخریج: «أخرجه البخاري، استتابة المرتدين.....، باب حكم المرتد والمرتدة.....، حديث:6922.»
تشریح: یہ حدیث بھی صریح اور واضح دلیل ہے کہ شرعاً مرتد کی سزا قتل ہے‘ خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اب اگر کوئی علی الاعلان مرتد ہو جائے تو عدالت اس کے ثبوت کے بعد قتل کی سزا دے گی اور اسے قتل کر دیا جائے گا۔ البتہ اگر وہ ظاہری نہیں بلکہ اندرونی طور پر مرتد ہے اور اس کے ارتداد کا علم نہیں تو اسے قتل کی سزا نہیں دی جائے گی۔ اور اگر کسی شخص کو جبراً کلمۂکفر کہنے پر مجبور کیا جائے تو ایسی صورت میں بھی وہ مستوجب سزا نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1032
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4064
´مرتد کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے دین و مذہب کو بدلا اسے قتل کر دو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4064]
اردو حاشہ: (1) دین سے مراد دین حق، یعنی اسلام ہے۔ یہ سزا صرف اس شخص کے لیے ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ کافر ہو جائے۔ مرتد بھی صرف اسی شخص کو کہا جائے گا کیونکہ آپ کا خطاب مسلمانوں سے متعلق ہے۔ (2) دین اسلام سے منحرف ہو کر دوسرا دین اختیار کر لینے پر قتل کیے جانے کا حکم مرد و عورت سب کو شامل ہے۔ احناف مرتد عورت کے قتل کے قائل نہیں الا یہ کہ وہ اس درجے کی ہو کہ مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکے۔ گویا ان کے نزدیک قتل ارتداد کی سزا نہیں بلکہ محاربہ کی سزا ہے، حالانکہ حدیث میں دین تبدیل کرنے کی سزا بیان کی گئی ہے نہ کہ محاربہ کی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4064
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4065
´مرتد کے حکم کا بیان۔` عکرمہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ اسلام سے پھر گئے ۱؎ تو انہیں علی رضی اللہ عنہ نے آگ میں جلا دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم کسی کو اللہ کا عذاب نہ دو“، اگر میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کر دو۔“[سنن نسائي/كتاب تحريم الدم/حدیث: 4065]
اردو حاشہ: اللہ والے عذاب سے مراد آگ میں جلاتا ہے۔ یہ عذاب صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ کسی حیوان کو بھی آگ میں جلایا نہیں جا سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4065
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4351
´مرتد (دین اسلام سے پھر جانے والے) کے حکم کا بیان۔` عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کچھ لوگوں کو جو اسلام سے پھر گئے تھے آگ میں جلوا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہا: مجھے یہ زیب نہیں دیتا کہ میں انہیں جلاؤں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”تم انہیں وہ عذاب نہ دو جو اللہ کے ساتھ مخصوص ہے“ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی رو سے انہیں قتل کر دیتا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”جو اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین اختیار کر لے اسے قتل کر دو“ پھر جب علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا: اللہ ابن عباس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4351]
فوائد ومسائل: 1) آگ سے عذاب دینا اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے۔ کسی بھی شخص کوجائز نہیں کہ کسی مجرم کو آگ سے سزا دے خواہ اس کا جرم کس قدر بڑا ہو۔ اور دین اسلام سے مرتد ہوجانے والےکی سزاقتل ہے۔
2) آیت کریمہ (لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ)(البقرۃ 256) دین جبروا کراہ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو جبرا اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ جہاد وقتال اسلام کے غلبہ اور اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اگرکوئی شخص مسلمان نہیں ہونا چاہتا تواسے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اسلام قبول کرلیتا ہے تواس پر اسلام کے تمام احکام و فرائض لازم آتے ہیں اور واپسی کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اگر یہ راہ کھلی رکھی جائے تو یہ دین نہیں بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا اس لیے اسلام قبول کرنے والے کو سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہئے کہ اب واپسی نہ ممکن ہے اور اس حقیقت سے مشرکین مکہ اور تمام اہل جاہلیت آگاہ تھے کہ اسلام قبول کر نے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی سابقہ طرز زندگی کے بالکل برعکس ایک نیا طرز زندگی اپنانا پڑے گا۔ اس مسئلے کو دوسرے انداز سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مرتد ہونا بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی مذہب وملت قانون اور حکومت میں ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے.
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4351
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:543
543- عکرمہ بیان کرتے ہیں: جب سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو اس بات کی اطلاع ملی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ مرتد لوگوں یعنی کچھ زندیقوں کو جلا دیا ہے، تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بولے: اگر میں انہیں قتل کرتا ہوں، تو اس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ”جو شخص اپنا دین تبدیل کرے، تو تم اسے قتل کردو۔“ لیکن میں انہیں جلواتا نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ، وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب دینے کے طریقے کے مطابق عذاب دے۔“ سفیان کہتے ہیں: عمار دہنی اس وقت اس محفل میں یعنی عمرو بن دینار ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:543]
فائدہ:
① آگ سے عذاب دینا، اللہ عزوجل کے لیے خاص ہے۔ کسی بھی شخص کو جائز نہیں کہ کسی مجرم کو آگ سے سزا دے خواہ اس کا جرم کس قدر بڑا ہو اور دین اسلام سے مرتد ہو جانے والے کی سزا قتل ہے۔ ② آیت كريمه ﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾(البقرة: 256) دین میں جبر و اکراہ نہیں۔۔۔۔۔۔ کے معنی یہ ہیں کہ کسی شخص کو جبراً اسلام میں داخل نہیں کیا جائے گا۔ جہاد و قتال اسلام کے غلبہ اور اس کی راہ میں موجود رکاوٹوں کو دور کر نے کے لیے ہے۔ اگر کوئی شخص مسلمان نہیں ہونا چاہتا تو اسے جزیہ دے کر مسلمانوں کے ماتحت رہنا ہوگا۔ لیکن اگر کوئی اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس پر اسلام کے تمام احکام و فرائض لازم آتے ہیں اور واپسی کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ اگر راہ کھلی رکھی جائے تو یہ دین نہیں بچوں کا کھیل بن کر رہ جائے گا۔ اس لیے اسلام قبول کر نے والے کو سوچ سمجھ کر یہ اقدام کرنا چاہیے کہ اب واپسی ناممکن ہے اور اس حقیقت سے مشرکین مکہ اور تمام اہل جاہلیت آگاہ تھے کہ اسلام قبول کر لینے کے معنی یہ ہیں کہ اپنی سابقہ طرز زندگی کے بالکل برعکس ایک نیا طرز زندگی اپنانا پڑے گا۔ اس مسئلے کو دوسرے انداز سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ مرتد ہونا بغاوت ہے اور بغاوت کسی بھی مذہب وملت، قانون اور حکومت میں ناقابل معافی جرم سمجھا جا تا ہے۔ [سنن ابي داود: 332/4 در السلام]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 543
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6922
6922. حضرت عکرمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت علی ؓ کے پاس زندیق لائے گئے تو انہوں نے انہیں جلایا۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو“ بلکہ میں انہیں قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6922]
حدیث حاشیہ: ایسے مذکورہ لوگوں کو عربی میں زندیق کہتے ہیں جیسے نیچری طبعی دہری وغیرہ جو خدا کے قائل نہیں ہیں یا جو شریعت اور دین کو مذاق سمجھتے ہیں جہاں جیسا موقع ہوا ویسے بن گئے۔ مسلمانوں میں مسلمان، ہندوؤں میں ہندو، نصاریٰ میں نصرانی۔ بعضوں نے کہا یہ لوگ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے لائے گئے تھے سبائی فرقہ کے تھے جن کا رئیس عبداللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو بظاہر مسلمان ہو گیا تھا لیکن دل میں مسلمانوں کو تباہ و برباد اور گمراہ کرنا اس کو منظور تھا اس نے ان لوگوں کو یہ سمجھایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خدا کے اوتار ہیں جیسے ہندومشرک سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آدمی یا جانور کے بھیس میں آتا ہے اور اس کو اوتار کہتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جب ان لوگوں کے اعتقاد پر مطلع ہوئے تو ان کو گرفتار کیا اور آگ میں جلوا دیا۔ لعنهم اﷲ
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6922
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6922
6922. حضرت عکرمہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: حضرت علی ؓ کے پاس زندیق لائے گئے تو انہوں نے انہیں جلایا۔ یہ بات حضرت ابن عباس ؓ تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے فرمایا ہے: ”اللہ کے عذاب کے ساتھ کسی کو عذاب نہ دو“ بلکہ میں انہیں قتل کرتا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”جو شخص اپنا دین بدل دے اسے قتل کر دو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6922]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان اپنا دین بدل لے اسے قتل کر دیا جائے، خواہ وہ مرد ہویا عورت۔ (2) اس حدیث میں زندیق سے مراد وہ شخص ہے جو کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت شدہ حقائق کی فاسد تاویل کرے، مثلاً: شفاعت، یوم آخرت، رؤیت باری تعالیٰ (دیدار الہٰی) ، عذاب قبر، پل صراط اور حساب کتاب کا انکار کرتے ہوئے ایسی فاسد تاویل کرے جو پہلے کبھی نہ سنی گئی ہو۔ ایسے شخص کو زندیق کہا جاتا ہے۔ ایسے شخص کی سزا قتل ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسے لوگوں کو ہی کیفر کردار تک پہنچایا تھا۔ واللہ أعلم.(3) واضح رہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جن آدمیوں کو آگ میں جلایا تھا وہ ان کے متعلق الوہیت کا عقیدہ رکھتے لیکن دور حاضر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق حاجت روا اور مشکل کشا ہونے کا عقیدہ رکھنے والوں کو کون اس قسم کی سزا دے گا۔ واللہ المستعان
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6922